ہمارا ہر کام مشورہ سے ہونا چاہیے !
خطاب جمعہ۔ ۔۔15/ دسمبر
محمد قمرالزماں ندوی
استاد /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ 9506600725
اسلام اجتماعیت و شورائیت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، اور اجتماعی زندگی گزارنےکی، اپنے ماننے والوں سے بھرپور مطالبہ کرتا ہے۔ حدیث شریف میں میں آتا ہے، تین آدمی جو کسی جنگل میں رہتے ہوں، ان کے لئے جائز نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے میں سے کسی کو اپنا امیر منتخب کرلیں۔ پھر امیر کو بھی من مانا اور من چاہی کرنے کے لئے آزاد نہیں کردیا گیا، بلکہ اس کے لئے ایک ضابطہ اصول اور لائحہ عمل اور گائیڈ لائن متعین اور مقرر کردیا گیا۔ و امرھم شوریٰ بینھم، اور ان کے معاملات باہمی مشوروں سے طے پاتے ہیں۔
چونکہ ہر شخص کی استعداد صلاحتیں اور قوت فہم و ادراک الگ الگ ہوتی ہیں۔ اس لئے مختلف صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا سوائے مشورہ کے اور کسی دوسری شکل سے ممکن نہیں۔ مشورہ انسان کو غرور و گھمنڈ اور نخوت و تکبر سے بچنے اور بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کیوں کہ اگر مشورہ نہیں ہوگا تو امر ہوگا، حکم ہوگااور فرمان و آڈر ہوگا اور یہ چیزیں تکبر و غرور تک پہنچنے اور پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ مشورے سے قوم و ملت کو نفاق اور دو رنگی سے بچایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا مزاج حکم ماننے کا نہیں ہے، چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور، اگر وہ حکم مانتا ہے تو کسی ڈر خوف یا لالچ کی وجہ سے، نہ کہ خوش دلی سے۔ اور جو چیز خوش دلی سے نہ مانی جائے تو نفاق، بغض و حسد اور کینہ کپٹ پیدا ہوتا ہے۔ مشورہ سے طے کئے ہوئے کام میں عمل کا اجر ہر شخص کو ملتا ہے، ایک گھر بیٹھا ہوگا اور ایک شخص میدان جنگ اور میدان دعوت و عمل میں ہوگا، لیکن دونوں اجر و ثواب میں برابر کے شریک ہوں گے، کیونکہ کہ گھر بیٹھنے والا اپنی خواہش سے نہیں، بلکہ مشورے سے گھر بیٹھا ہوگا۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لن یھلک امرء بعد مشورة۔ کوئی انسان مشورہ کے بعد ہلاک نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص کسی کام کا ارادہ اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے، تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت و رہنمائی مل جاتی ہے۔ ( بیھقی شعب الایمان )
ان دونوں روایتوں سے ہم اور آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ انسانی زندگی میں مشورہ کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہے، کامیاب، مطمئن اور پرسکون زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ مشورہ کو اپنا معمول بنایا جائے اور ہر کام میں چاہے وہ فرد کی سطح کا ہو یا وہ کام اجتماعی ہو مشورہ ضرور کرنا چاہئے۔ ایسا اقدام، عمل، منصوبہ اور کام جو باہمی مشورے صلاح اور رایوں کے حصول کے بعد کیا جاتا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے اس میں رحمت اور خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے اور پیچیدہ سے پیچیدہ راستے اور راہیں ہموار اور آسان ہوجاتی ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ بہت سے نازک حساس اور ناقابل فہم حالات میں جب مشورہ کا سہارا لیا گیا اور مشکل معاملہ میں اچھی رائیں آئیں تو معاملہ بالکل ہی سہل ہوگیا اور ایسے بہتر راستے نکل آئے، جن کا ذہن میں تصور و خیال بھی نہیں تھا، اگر تنہا اپنی عقل اور قوت فہم سے اس کے حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو شاید زمانئہ دراز تک بھی وہ گرہیں نہ کھلتیں جو راستے میں حائل تھیں اور پھر جن اشخاص و افراد اور دوست و احباب سے مشورہ کیا جاتا ہے، ان کے دل بھی خوش ہوتے ہیں، گویا آپ نے ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا ان کو اہمیت دی اور اس قابل سمجھا کہ کسی معاملہ میں ان سے مشورہ کیا جائے، گویا آپ کی نگاہ میں وہ ذی رائے، صاحب فہم و فراست اور صاحب عقل و بصیرت ہیں، یقینا اس سے ان کے دل میں بھی آپ کے بارے میں اچھی اور مثبت رائے اور اچھا تاثر پیدا ہوگا۔ آپسی خلش، کشمکش، کشاکس اور کدورت دور ہوگی اور محبت و ہمدردی شفقت و نرمی کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اگر مشورہ کے بعد وہ کام مفید نفع بخش اور نتیجہ خیز نہیں بھی ہوا تو ندامت و شرمندگی اور خفت و رسوائی لوگوں کے سامنے نہیں ہوگی اور نہ کسی کو لعن طعن کا موقع ہاتھ آئے گا کہ اس میں صرف اسی کی عقل اور دماغ و فہم نہیں بلکہ مختلف ارباب عقل و فہم کی عقلیں اور دماغ شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ متعدد نصوص شرعیہ میں ایمان والوں کو اپنی عقل و فہم شعور و دانش پر اعتماد کرنے کے بجائے مشورہ کی ہدایت دی گئی ہے، صحابہ کرام، خلفائے راشدین، تابعین، تبع تابعین اور آج تک ہر زمانے میں مشورہ پر لوگوں کا عمل رہا ہے۔ وہ لوگ جن کی عقل و شعور اور فہم و فراست پر دنیا کو ناز اور فخر تھا، انہوں نے بھی افادیت اور اہمیت کے پیش نظر مشورہ اور باہمی صلاح کو اپنا اصول اور شعار بنایا ہے، اس لئے کہ مشورہ سے جس نے بھی بے نیازی اختیار کی وہ ہلاکت اور فساد کی روش اور راہ پر چل پڑا، پھر اس کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد ہے اور نہ اسے کامیابی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
الاستشارة عین الھداية و قد خاطر من استغنی برائيه .. (المدخل ۴/۲۸)
مشورہ عین ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے سے ہی سے خوش ہوگیا وہ خطرات سے دو چار ہوا۔ ایک عربی شاعر نے مشورہ کی اسی افادیت کے پیش نظر کہا ہے :
ترجمہ :
رائے و مشورہ مثل شب دیجور کے ہے کہ اس کے اطراف سیاہ ہیں اور رات کا
اندھیرا بغیر صبح کے زائل نہیں ہوتا، لوگوں کی رائے کی مشعل کو اپنے چراغ کے ساتھ ملا لینے سے تیرے چراغ کی روشنی زیادہ ہو جائے گی۔
بعض اہل دانش کا قول ہے :
من حق العاقل ان یضیف الی رائیہ آراء العقلاء یجمع الی عقلہ عقول الحکماء فان الرای الفذ بما ذل و العقل الفرد ربما ضل۔
عاقل کا فرض یہ ہے کہ اپنی رائے کے ساتھ اہل عقل و دانش کی رائے کا اضافہ کرے اور اپنی عقل کے ساتھ حکماء اور اہل دانش کی عقل کو جمع کرے کیونکہ کہ اکیلی رائے بسا اوقات ذلیل ہوتی ہے اور پھسل جاتی ہے اور تنہا عقل بسا اوقات گمراہ۔
ظاہر ہے کہ اپنی عقل کے ساتھ جب دیگر عقلوں اور اپنے تجربہ کے ساتھ دیگر تجربات کو ملا لیا جائے تو اس میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوگی اور غلطی کا امکان کم ہو جائے گا، خواہ وہ عقلیں اپنے تئیں ناقص ہی کیوں نہ ہوں، چونکہ کہ مشورہ میں شریک افراد بڑی مشقتوں سے حاصل کیے ہوئے تجربات کی روشنی میں رائے دیتے ہیں اس لئے مشورہ کرنے والے کو اہم اور قیمتی باتیں مفت مل جاتی ہیں جن کو وہ خود حاصل کرنا چاہے تو زندگی ختم کرکے بھی حاصل ہونا یقینی نہیں ہے اسی لئے حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: تجربہ کار تجھ کو وہ رائے دیتا ہے جو اس کو نہایت گراں قیمت پر ملی ہے، یعنی نہایت مشقت و تحمل اور مصائب و مشکلات کے بعد حاصل ہوئی ہے اور اس کو مفت بلا تعب اڑاتا ہے۔ (سماج کو بہتر بنائیے ص: ۱۱۲/ از مفتی تنظیم عالم قاسمی)
قرآن مجید میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان کے سارے امور اور کام باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔ و امرھم شوری بینھم ۔ (شوری ۳۸) اور ان کے کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں۔ یعنی کسی اہم معاملہ کو آپسی رایوں کے ذریعہ حل کیا جانا کامل اور پختہ ایمان والوں کی صفت اور خوبی ہے، اس سے ماقبل اطاعت خداوندی اور اقامت صلوۃ کا ذکر ہے۔ اس کے فورا بعد مشورہ کے معاملہ کو بیان کرنے سے اس کی غیر معمولی اہمیت کا پتہ چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور بالخصوص خلفائے راشدین نے مشورہ کو اپنا معمول بنایا تھا۔
یہاں اس نکتہ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی مشورہ کا مکلف بنایا اور اس کا حکم دیا تھا ارشاد باری تعالٰی ہے : و شاورھم فی الامر۔( آل عمران ۱۰۹) اے نبی ! آپ اپنے معاملات اور متفرق امور میں صحابہ کرام سے مشورہ کیا کیجئے۔
بظاہر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی حاجت و ضرورت نہیں تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی کا دروازہ کھلا ہوا تھا، آپ چاہتے تو وحی کے ذریعہ معلوم ہوسکتا تھا کہ کیا اور کس طرح کرنا چاہیے، اسی لئے مفسرین کرام نے یہاں بحث کی ہے کہ حکم مشورہ سے کیا مراد ہے۔ حضرت قتادہ، ربیع اور بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اطمنان قلب اور ان کو وقار بخشنے کے لئے یہ حکم دیا گیا تھا، اس لئے کہ عرب میں مشورہ اور رائے طلبی باعث صد عزت و افتخار تھا۔
سچائی یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ اگرچہ بہت سے امور میں آپ کی رہنمائی کردی جاتی تھی، مگر بعض حکمت اور مصلحت کے پیش نظر چند امور کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا، ان ہی مواقع میں آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کا حکم دیا گیا تاکہ امت میں مشورہ کی سنت جاری ہوسکے اور لوگ یہ سمجھیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل فہم و فراست اور ادراک و بصیرت ہونے کے باوجود مشورہ کا حکم دیا گیا، تو پھر ہم اس کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ (مستفاد سماج کو بہتر بنائیے از مفتی تنظیم عالم قاسمی )
لیکن کیا آج ہم اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں مشورہ کو اہمیت دیتے ہیں؟ کیا ہمارے اداروں اور جماعتوں میں جس انداز میں مشاورتی مجلس ہونی چاہیے ہم اس کا اہتمام کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ماتحتوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا یہ سچائی نہیں ہے، کہ ہم اپنے ماتحتوں سے صلاح و مشورہ کرنا اپنے لئے ہتک سمجھتے ہیں۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مشورہ کے بجائے من مانا فیصلے تھوپنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں؟۔ ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے ہم سب کو تیار رہنا چاہیے اور اپنا اپنا محاسبہ ضرور کرتے رہنا چاہیے۔
اس وقت ملک عزیز کے حالات انہتائی ناگفتہ بہ ہیں، مسلمانوں کے خلاف روزانہ فیصلے لیے جارہے ہیں، ان کو کمزور کرنے اور خوف زدہ کرنے کے لیے، نوجوانوں کو اور علماء کو گرفتار کیا جارہا ہے، ان کو پولیس ریمانڈ میں، بھیجا رہا ہے، ماب لنچنگ ہورہی ہے، مسلمانوں کو اور خصوصا نوجوانوں کو غلط مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے اور نہ جانے کیا کیا سازشیں ہورہی ہیں، مسلمانوں ڈرے اور سہمے نظر آرہے ہیں، اس کے باوجود، ملی تنظیمیں آپس میں مل جل کر کوئی مشورہ نہیں کر رہی ہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس منصوبہ اور لائحہ عمل طے کر رہی ہیں، جتنی تنظیمیں ہیں اور جتنی جماعتیں اور جمعیتیں ہیں سب ایک دوسرے سے دور، ایک دوسرے متنفر اور بے پرواہ، ہر ایک اپنے میں مست، اب جب کے بڑی بڑی شخصیتوں کو قید سلاسل میں ڈالا جا رہا ہے انہیں پا بزنجیر کیا جا رہا ہے، کب ہم ہوش کے ناخن لیں گے، جماعت اسلامی، جمعیت علماء ملی کونسل، مجلس مشاورت اور دیگر تنظیموں کے لوگ کب باہم بیٹھ کر مشورہ کریں گے، کب آپسی اختلاف کو دور کرکے ملت کی ڈوبتی کشتی 🚣 کو بھنور سے نکالنے کے لیے سوچیں گے؟ قائدین ملت کو سوچنا چاہیے اور ان کو باہم مشورہ کرنا چاہیے، ان سے نئی نسلوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور اب وہ ہدف تنقید بنائے جارہے ہیں، لوگ ان پر نقد کر رہے اور تبصرے کر رہے ہیں۔
اب ہم سب طے کریں کہ ہم سب باہم متحد رہیں گے اور اپنے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر مشورے سے حل کریں گے، اس مشکل وقت میں ہم سب ایک ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے سے رائے اور مشورہ کرتے رہیں گے، اور مشکل حالات سے نکلنے کے لیے باہمی صلاح و مشورہ کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشر/ مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ۔ 6393915491
0 تبصرے