Ticker

6/recent/ticker-posts

حرفِ چند

حرفِ چند


مولانا محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی

مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ (م : 16/جولائی 1996ء) نے آزادی کے بعد ملک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس کیا تھا کہ ہمارے ملک کی علمی ادبی اور ثقافتی ہستیوں کی تاریخ لکھی جانی چاہیے اور وہاں کے اہل علم و فضل و اہل دین و دانش کے کارناموں کو منظر عام پر لانا چاہیے؛ چناں چہ وہ "اسلامی ہند کی عظمت رفتہ" کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

"ملک میں مسلمانوں کی جو ہستیاں علم و فضل اور دینی امانت کا صدیوں تک گہوارہ رہ چکی ہیں، ان کی بھی اسلامی تاریخ مرتب کر دینی چاہیے؛ تاکہ سند رہے اور وقت پر اپنی نسل کے کام آئے، ورنہ فرقہ واریت اور تعصب کا منصوبہ یہاں سے ایک ایک اسلامی نشان کو مٹا دینا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی و ثقافت سے محروم کرکے مسکین و یتیم بنانے کی کوشش میں ہے، اس کے دفاع کی ایک کامیاب شکل یہ بھی ہے۔"

(اسلامی ہند کی عظمت رفتہ : 14، مطبوعہ : ندوة المصنفین دہلی، 1969ء)

سب سے پہلے خود قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس مبارک کام کا آغاز کیا اور انہوں نے دو کتابیں لکھیں : ایک "دیار یورپ میں علم اور علماء" اور دوسری کتاب "شجرئہ مبارکہ، یعنی تذکرہ علماء مبارک پور"، پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور ملک کے مختلف خطوں کی تاریخ اور وہاں کے علماء، خادمین قوم و ملت اور دانشورانِ قوم کے تذکرے لکھے گئے۔

 اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی "تذکرئہ علماء سنتھال پرگنہ و بھاگلپور" ہے، جس کے مؤلف و مرتب ہمارے مخلص، فاضل و کرم فرما بھائی، سینئر ندوی ساتھی، جناب مولانا ڈاکٹر عبد المجید ندوی صاحب حفظہ اللہ ہیں، جو ضلع گڈا کی ایک قدیم اور مشہور و معروف بستی "سمری" کے باشندہ ہیں، ندوہ کے فاضل ہیں، پٹنہ طیبہ کالج سے بھی انہوں نے علم طب میں خوشہ چینی کی ہے، اس اعتبار سے وہ جسم و روح دونوں کے معالج ہیں۔ ساتھ ہی سنجیدہ علمی و تاریخی ذوق رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ بھی وسیع اور ہمہ جہت ہے اور اکبر الہ آبادی مرحوم کے اس مصرع کے مصداق ہیں اور ندوہ ہے زبان ہوش مند۔

 وہ فی الحال پیشہ سے تو ڈاکٹر ہیں؛ لیکن اب بھی کتب بینی ان کا محبوب مشغلہ ہے، علاقہ کی تاریخ، جغرافیہ اور یہاں کی باکمال شخصیات، ادارے اور تنظیموں پر ان کی اچھی نظر ہے، انہوں نے محسوس کیا کہ علاقہ کی تاریخ، یہاں کے باکمال شخصیات اور ہستیوں کے حالات و واقعات رقم کرنا بہت ضروری ہے؛ تاکہ خلف، یعنی بعد کے لوگ اپنے سلف صالحین کی خدمات سے واقف ہوں اور اس کی روشنی وہ اپنے علمی، دینی، تہذیبی، ثقافتی، تمدنی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی حالات کو بہتر بنا سکیں، نیز مستقبل کی بہترین منصوبہ بندی کرسکیں اور آئیندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کرسکیں؛ کیوں کہ اگر کسی کے پاس اسلاف کے شاندار ماضی کا قیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہو، تو اس کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں علاقہ کی تمام تر مرحوم علمی، ملی اور سیاسی شخصیات اور بعض اہم زندہ شخصیات، نیز یہاں کے دینی و عصری ادارے اور سماجی و ملی تنظیموں کا تذکرہ کیا ہے اور ہر ایک کی خدمات کو بہت ہی متوازن، مناسب اور دلکش انداز میں ذکر کیا ہے۔

یاد رہے کہ اس کتاب میں جس خطہ کے اہل علم، علماء اور اصحاب دین و دانش کا تذکرہ ہے, وہ صوبہ جھارکھنڈ کے شمال سرحد پر واقع ہے اور جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے 425/ کلو میٹر دور ہے 87/ درجہ مشرق طول البلد اور شمال عرض البلد پر واقع ہے، پورا علاقہ کوہ لال ماثی کے دامن میں مغربی جانب دور تک پھیلا ہوا ہے، جہاں تقریباً تین سو بستیاں ہیں، جس میں مسلم اقلیت کی کثیر آبادی ہے، برطانوی حکومت کے زمانے میں یہ علاقہ پانچ پتوں میں تقسیم تھا، اب 8 / پرکھنڈوں میں منقسم ہے۔

یہاں قدیم زمانے سے سنتھالیوں اور آدی باسیوں کی بھی بڑی تعداد ہے؛ چوں کہ یہ خطہ تعلیمی و تہذیبی اور مالی پسماندگی کا شکار تھا؛ لہذا اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائی مشنریوں نے بھی اپنا قدم جمانا شروع کر دیا اور آدی باسیوں پر محنت کرکے انہیں عیسایت میں داخل کرلیا، اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی طرف بھی ان کی جہالت اور مالی پسماندگی کی وجہ سے ہاتھ بڑھانا شروع کر دیا، قریب تھا کہ وہ اس خطرناک منصوبے میں کامیاب ہو جاتے؛ لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے کچھ اہل اللہ کو اس علاقہ میں دعوت و تبلیغ اور تربیت و ارشاد کے لیے توفیق ارزاں عطا فرمایا، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت مولانا شمس الدین صاحب لکھنوی رحمہ اللہ اور ان کے صاحبزادگان باکمال، نیز مولانا سید صفدر حسین بہار شریف اور ان کے صاحبزادے حافظ امیر الدین صاحب کا ہے۔

ان حضرات کی آمد کے بعد رشد و ہدایت کے چراغ روشن ہوئے، سرزمین گورگاواں اس کا مرکز بنا، اہل بستی نے مولانا شمس الدین صاحب لکھنؤی رحمہ اللہ کا استقبال کیا، ان کے قدموں پر جان و مال نچھاور کیا، ان کے مستقل قیام کے لیے دو منزلہ خس پوس عمارت تیار کی، اخراجات کے لیے زمینیں وقف کیں، مہمانوں کے قیام کے لیے خانقاہ کی تعمیر کی اور پہلے ایک چھوٹا سا مکتب قائم ہوا، جو آگے چل کر 1901ء میں مدرسہ شمسیہ گورگاواں کے نام سے مشہور و معروف ادارہ بنا اور پھر چراغ سے چراغ جلنا شروع ہوا، بہت سارے دینی ادارے اس کے بعد وجود میں آئے، جن میں سے ایک نمایاں نام مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن دگھی کا بھی ہے، یہ حقیقت ہے کہ اسی مدرسہ شمسیہ کی برکت اور لکھنؤ سے تشریف لانے والے ولی کامل حضرت شمس الدین لکھنوی رحمہ اللہ، نیز دیگر علماء اور اہل اللہ کی محنت سے علاقہ میں علم اور قرآن وسنت کی روشنی پھیلی اور علاقہ سے جہالت و ضلالت، رسومات و خرافات اور بدعات و واہیات کا خاتمہ ہوا۔ اس ادارہ نے اس پورے خطہ میں علماء اور اہل دین و دانش کی ایک معتبر کھیپ اور مضبوط ٹیم تیار کردی، جنھوں نے علاقہ کی دینی، ملی اور سیاسی رہبری و سرپرستی کی، مدارس و مکاتب کے ساتھ ساتھ اسکول، کالج کھولے، ان میں نمایاں نام ہیں، مولانا نصیر الدین صاحب، مولانا عبد المجید صاحب قیس، مولانا رمضان علی صاحب، مولانا جلال الدین قاسمی صاحب، مولانا حکیم حبیب عالم صاحب، مولانا انور علی صاحب نیموہاں، مولانا خلیل الرحمٰن صاحب کھیتیا، مولانا امید علی صاحب، مولانا الفت حسین صاحب قاسمی چانچے، مولانا محمد ثمین الدین صاحب قاسمی (سابق ایم پی گڈا)، مولانا یار محمد صاحب، مولانا منیر الدین قاسمی صاحب، مولانا نثار احمد کیفی صاحب، مولانا علاء الدین صاحب، مولانا اشفاق صاحب، مولانا اختر حسین قاسمی صاحب، مولانا ابو الحسن علی صاحب سرمد پور، قاضی سلامت اللہ صاحب، مولانا ادریس صاحب عاصی، محمد سعید صاحب (سابق ایم ایل اے) اور نور الھدیٰ صاحب رحمہم اللہ وغیرہ۔

بہر حال یہ علاقہ آج اگر قابل ذکر ہے اور یہاں علم و فضل اور فن و ثقافت کی جو آبرو قائم ہے، اس میں احسان ہے باہر سے آئے ہوئے اہل اللہ کا اور پھر ان کی تربیت سے جو افراد و اشخاص یہاں تیار ہوئے ان حضرات کا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس خطہ کی ایک مستند اور مفصل تاریخ سامنے آئے؛ تاکہ خلف اپنے سلف کی خدمات و احسانات کو جان سکے اور یہ تاریخ اور پیش رفت ان کو مہمیز لگائے۔

ہم ڈاکٹر عبد المجید صاحب ندوی کو ان کے اس وقیع علمی و تحقیقی کام پر صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایک دستاویزی کتاب ثابت ہو اور خاص و عام اس سے استفادہ کرکے اپنے اندر قوم و ملت کے لیے اسلاف کی سی سوز، درد، خلوص اور تڑپ پیدا کریں اور قوم و ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کریں، اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قوم و ملت کے لئے مفید بنائے، نیز مؤلف کتاب کے لیے ذخیرئہ آخرت بھی ۔ آمین یا رب العالمین !
محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سکریٹری/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 6393915491
22/ دسمبر 2023ء بروز جمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے