Ticker

6/recent/ticker-posts

خدمت خلق اور اسلامی تعلیمات

خدمت خلق اور اسلامی تعلیمات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطاب جمعہ۔۔۔۔22/ دسمبر

محمد قمر الزماں ندوی
۔۔۔۔

جنرل سیکریٹری/مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 9506600725


اللہ تعالٰی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور تمام مخلوقات میں اس کو بلندی، برتری، تفوق اور فضلیت سے نوازا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے چار چیزوں کی بیک وقت قسمیں کھا کر فرمایا تاکہ حضرت انسان کو اپنی بلندی اور برتری کا احساس ہو اور ساتھ ہی اپنے مقام و منصب کا ادراک بھی ہو۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا : تین کی قسم زیتون کی قسم طور سینا کی قسم اور اس مبارک و پاکیزہ شہر بلد امین یعنی شہر مکہ کی قسم ہم نے سچ مچ انسان کو سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا۔

Khidmat e Khalq aur Islami Taleemat


اللہ تعالٰی نے انسان کو صرف بہترین سانچہ میں ڈھال کر خوبصورت ہی نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کائنات کا تاجدار، سردار اور جانشین بنایا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر بناکر اس کی خدمت میں مصروف کردیا۔

اللہ تعالٰی نے فکر و نظر عقل و دانش فہم و فراست اور شعور و ادراک کی وہ بلندی دی کہ اس نے سمندر کی گہرائیوں اور فضا کی بلندیوں کو فتح کرلیا۔ لیکن انسان کو جس قدر عظیم اور طاقت ور بنایا وہیں اس کو قدم قدم پر محتاج اور ضروت مند بھی بنایا۔ اسے ہر کام مین ایک دوسرے کا محتاج اور دست نگر بنایا۔

یہ سچ ہے انسان کو ہر کام میں اپنے جیسے انسانوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چند لقمے، دو روٹی چند گز کپڑے اور سر چھپانے کی جگہ جو اسے میسر آتی ہے اس میں نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی کوشش، جد و جہد اور کدو کاوش شامل ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کے تمام مذاہب میں خدمت خلق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام میں خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی اور کسی انسان کی مدد کو ایک درجہ میں رکھا گیا ہے، اسی لئے اگر کوئی کبر سنی (بوڑھاپے)یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے تو ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح روزہ کے کفارہ، ظہار کے کفارہ اور ایلاء اور قسم کے کفارے میں بھی مسکین کو کھلانے کی شکلیں بھی رکھی گئی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پورے اسلام کا حاصل اور خلاصہ صرف ایک مختصر سے جملہ میں بیان کر دیا جائے، تو وہ یہ ہوگا کہ پورے اسلام کا خلاصہ ہے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت۔


دوستو بزرگو اور بھائیو!
یہ یاد رکھیں، اسلام اللہ تعالٰی کا نازل کردہ اور پسندیدہ آخری دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کامیاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی تقویٰ و طہارت زہد و عبادت اور دینداری کے ساتھ لوگوں کے لئے زیادہ مفید اور کار آمد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الخلق کلھم عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ انفعھم لعیالہ (المعجم الکبیر ۱۰۰۳۳) یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے، جو اس کے عیال کے لئے سب سے زیادہ نافع ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛، ، اللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ (مسلم شریف ۲۶۹۹ )یعنی اللہ تعالٰی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔

آپ اندازہ لگائیے کہ انسانی خدمت کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ نماز کتنی اہم عبادت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ حج کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جس طرح اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اسی طرح حج بھی پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ حاجی حج سے لوٹنے کے بعد اگر اس کا حج مقبول ہو جاتا ہے، تو اس بچے کی طرح معصوم ہو جاتا ہے جس کو ابھی اس کی ماں نے جنا ہو۔ روزہ کے بارے میں فرمایا حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کا بدلہ میں خود دوں گا۔ لیکن جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا سب سے بہتر انسان کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی روزہ دار حاجی اور ہمیشہ تسبیح و اذکار کرنے والے کا نام نہیں لیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے خیر الناس من ینفع الناس (شعب الایمان للبیھقی )

معلوم یہ ہوا کہ مذہب اسلام میں خدمتِ خلق کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اس کا نفع اور فائدہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس امت کو خیر امت کا لقب بھی اسی لئے دیا ہے کہ یہ امت صرف اپنے نفع کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کا بہرتین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان) 
آپ صلی اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو آسودہ ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (المستدرک للحاکم)

غرض یہ کہ لوگوں کی نفع رسانی اور خدمت خلق تمام مذاہب میں محمود و پسندیدہ عمل ہے، لیکن اسلام نے اس پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور اس کے رہنما اصول اور ضابطے بھی بیان کر دیا ہے۔ اور اس کی خاص تاکید و ترغیب بھی دی ہے۔ ہر خاص و عام کی زبان پر بھی یہ جملہ رہتا ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں گزری۔ خاص طور پر منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے چالیس سال تک تو مخلوق خدا کی خدمت کو آپ نے اپنا مشن بنائے رکھا تاکہ آگے دعوت کی راہ ہموار ہو سکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے اور ساری انسانیت کے لئے آپ اس میدان میں بھی سب سے اعلیٰ نمونہ اور آئڈیل ہیں۔

اسلامی تعلیمات کا خلاصہ خالق کی کی بندگی اور مخلوق کی خدمت ہے، اللہ تعالٰی کی عبادت انسان اپنی کامیابی اور نجات و فلاح کے لئے کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالٰی بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں، کیونکہ وہ ذات تو غنی و بے نیاز ہے، لیکن انسان ایک دوسرے کے تعاون کا ضرورت مند اور محتاج ہے۔ اس جہت سے حقوق العباد کی اسلام میں خصوصی اہمیت ہے، اور اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

اسلام نے خدمتِ خلق کو بڑی اہمیت دی اور بہت سے گناہوں کے لئے روزہ رکھنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کو کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں خدمت خلق اور اللہ کی بندگی کا قریب قریب ایک ہی درجہ ہے۔ اور خدمتِ خلق میں گناہوں کا کفارہ بننے کی صلاحیت ہے۔

خدمتِ خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گراں بار ذمہ داری سے کچھ گھبراہٹ محسوس کی، گھر واپس تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کیفت سن کر عرض کیا : اللہ تعالی آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ ( *کلا لا یخزیک اللہ! انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق* )(بخاری شریف حدیث نمبر ۳) کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے بی بی اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے، اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔ اگر اس جہت سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو پوری حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نمونہ نظر آتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو خدمت خلق اور نفع انسانی کا بلند تصور دیا اور صرف انسانوں کی ہی خدمت نہیں، بلکہ پوری خلق اللہ یعنی اللہ کی ساری مخلوق کی خدمت اس میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص گزر رہا تھا اور اس کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی، وہ ایک کنویں میں اترا اور پانی پی کر باہر آیا، اس نے باہر دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے بے قرار ہے، چنانچہ وہ دو بارہ کنویں میں واپس گیا، اپنے موزوں میں پانی بھر کر اس کو دانتوں سے پکڑ کر باہر لایا اور کتے کو پلایا اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اس کی مغفرت فرما دی۔ ( مسلم شریف ۸۵۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت خلق کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایسی تربیت فرمائی تھی اور اس تربیت کے صدقے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا خدمت خلق کے شعبہ میں ایسا مزاج بن گیا تھا کہ دنیا کی تاریخ اس کی کوئی اور مثال اور نمونہ پیش نہیں کرسکتی اور پھر بعد کے مسلمانوں میں بھی یہ مزاج باقی رہا اور انہوں نے اس کے لئے اپنی قیمتی سے قیمتی جائداد کو راہ خدا میں وقف کیا اور یتیم خانوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کی، نیز پانی کا بہترین انتظامات کئے نہریں اور کنویں کھدوائے سرائے خانے اور چراہ گاہ بھی بنوائے اور درختیں لگوائے، کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ حدیث مستحضر تھی کہ اگر تمہارے لگائے ہوئے درخت یا پودے سے پرندہ کھا لے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ ( بخاری شریف ۲۳۲۰) ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین بھی تھی کہ جب تم سفر کرو اور کوئی ہرا بھرا علاقہ آئے تو جانور کو چرنے کا موقع دو۔ ( ترمذی شریف ۲۸۵۸) اور اس حدیث کے مفہوم سے بھی واقف تھے کہ جب کوئی انسان گزر جاتا ہے تو اس سے عمل کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسی عوامی خدمت چھوڑ جائے، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں کوئی صدقئہ جاریہ کا کام چھوڑ جائے، جس کا نفع باقی ہو یا اس کے پیچھے صالح اور نیک اولاد ہو جو اس کے حق میں دعا گو رہے۔ (مسلم شریف ۴۲۲۳)

لیکن افسوس کہ جس امت کو نفع انسانی، نفع رسانی اور خدمت خلق کے لئے بھیجا گیا تھا اور جس دین میں بہترین ہونے کا معیار ہی نافعیت کو قرار دیا گیا تھا، آج خدمت خلق کے میدان میں وہ بہت پیچھے ہوگئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ علماء اور دینی خدمت گزاروں کی توجہ بھی اس جانب نسبتا کم ہے۔ ضرورت ہے کہ امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے اور انہیں اس مشن میں آگے آنے کی تلقین کی جائے۔آج دوسری قومیں اسلام کے اس مزاج اور عمل کو اختیار کرکے وہ مقبول ہورہی ہیں اور اپنے باطل اور فاسد مذہب کی اشاعت اور ترویج کا اس کو ذریعہ بنا رہی ہیں اور ہم مسلمان اس عمل سے اسلام کی تبلیغ کا کام نہیں لے رہے ہیں، جو کہ آخری اور مقبول دین ہے، اس کے علاوہ تمام مذاہب منسوخ ہیں۔

آج کے حالات میں ہم اس طرح بھی انسانیت اور کمزور طبقے کی خدمت کرسکتے ہیں :

(۱ ) ہمارے گھر میں ضرورت سے زائد کپڑے ہیں ہم ہر سال نئے جوڑے سلاتے ہیں اور سردی میں گرم کپڑے خریدتے ہیں پرانے کپڑے الماریوں میں زینت کے طور پر رکھے رہتے ہیں اس کو پہننے کی نوبت نہیں آتی، ہم کوشش کریں کہ ان زائد کپڑوں کو اور خاص طور پر جاڑے کے لباس کو غریبوں میں تقسیم کردیں۔

(۲ ) شادیوں میں بعض ایسے کپڑے تیار کئے جاتے ہیں جنہیں دلھا دلھن چند دن استعمال کرکے اسے یوں ہی زینت کے لئے رکھے رہتے ہیں اس کو استعمال نہیں کرتے ہم کوشش کریں کہ ان کپڑوں کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔

(۳ ) ہم ہر سال جاڑے میں لحاف اور کمبل خریدتے ہیں یا بنواتے ہیں کوشش کریں کہ اگر اللہ نے نوازا ہے تو دس بیس غریب لوگوں کو بھی خرید کر دیں۔

(۴ ) ہم اپنے بچوں کے لئے ہر سال اسکول کا نیا ڈریس بنواتے ہیں اور پرانے کو یوں ہی رکھے رہتے ہیں ہماری کوشش ہو کہ ہم اس کو بھی غریبوں تک پہنچا دیں۔

(۵ ) ہم کچھ سالوں بعد گھر کے فرنیچر اور دیگر ساز و سامان کو بدلتے رہتے ہیں اور پرانے کو بیچتے ہیں ہماری کوشش یہ ہو کہ اگر اللہ نے نوازا ہے تو پرانے فرنیچر اور پلنگ گدے کو سیکند ہبنڈ قیمت میں بیچنے کے بجائے سلم اور جھوپڑ پٹی میں رہنے والوں کو مفت دے دیں۔

(۶ ) ہمارے پاس ضرورت کی جو چیزیں زیادہ ہیں، سالہا سال اس کے استعمال کی نوبت نہیں آتی، صرف زیب الماری اور زینت صندوق ہیں، ان کو دوسروں کو ہدیہ کردیں۔ تاکہ اس کا صحیح استعمال ہوجائے۔ اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔

(۷ ) خدمت خلق کے کاموں سے جن لوگوں کا بھی ربط ہے، وہ لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کہ مدارس کے طلبہ میں تو لحاف اور گرم کپڑے بہت سے لوگ تقسیم کرتے ہیں، زیادہ تر زکوٰۃ کی رقم سے، لیکن مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کا بہت کم لوگ خیال کرتے ہیں، ان کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اگر وہ دو تیں مہینے کی تنخواہ ملا کر پورے گھر والے کے لئے گرم کپڑے اور لحاف گدے کا انتطام کریں، تو بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہونا چاہیے جو ڈھونڈھ ڈونڈھ کر امداد اور عطیے کی رقم سے ان حضرات اساتذہ کرام کی بہت ہی خاموشی سے مدد کریں۔

میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کیمپ لگوا کر کمبل اور لحاف تقسیم کراتے ہیں لیکن خود اپنے ادارے کے اساتذہ اور ملازمین سے کبھی نہیں پوچھتے کہ کیا آپ کو بھی ضرورت ہے کیا ؟

صرف اس لئے کہ یہاں تشہیر نہیں ہوگی اور فوٹو نہیں کھنیچا جا پائے گا۔

(۸ ) خدمت خلق ہم یوں بھی کرسکتے ہیں کہ نصابی کتابوں کو جو ہمارے بچے پڑھ چکے ہیں بعد میں پرچون والوں سے اونے پونے بیچ دیتے ہیں اگر وہ کتابیں بدلتی نہیں ہیں تو بک بنک قائم کرکے غریب بچوں میں انہیں تقسیم کریں۔

۹ ) جاڑے کے دنون میں مدرسوں اقامتی اسکولوں مسجدوں اور رفاہی اور پبلک جگہوں پر گرم پانی اور آلاو کا انتظام کرکے بھی ہم انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں۔

(۱۰ ) اوپر کی زیادہ تر خدمت اور نفع انسانی کا تعلق فرد کے حوالے سے تھا لیکن اس کا دائرہ بڑا کرکے کہ بھی ہم انسانوں کی خدمت کریں ہم ملکر کر اعلی معیاری اسکول ہاسپٹل اسلامی اقامت گاہیں اور ہوسٹلس قائم کریں اور ان کے زریعہ سے انسانیت کی خدمت کریں اور غریبوں کی مسیحائی کرکے اور انسانوں کی خدمت کرکے بہترین انسان کا مصداق بنیں اور اس فہرست میں یعنی خیر الناس من ینفع الناس میں اپنا نام شامل کریں۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین

نوٹ/ اس خطاب جمعہ کو زیادہ سے زیادہ ائمہ اور خطباء حضرات کی خدمت میں شئیر کریں تاکہ اس موضوع پر وہ خطاب کریں اور امت کی اس جانب توجہ مرکوز کریں۔

ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
6393915491

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے