مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
مجیب الرحمٰن،
جسم پر سر کی حیثیت ایک رہبر و قائد کی ہے، جس طرح جسم بغیر سر کے نا مکمل ہے اور اس کا وجود ہی نہیں ہے اسی طرح ایک قوم، ایک معاشرہ، ایک سماج، ایک ملک بغیر قائد و رہبر کے بیکار ہے، قائد اپنی قوم کی نہ صرف قیادت کرتا ہے بلکہ مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے، حال سے مستقبل کی طرف کیسے صحیح سمت میں لیکر جانا ہے جس سے مستقبل روشن ہو یہ ذمہ داری بھی قائد پر عائد ہوتی ہے، قیادت کسی کھیل کود کا نام نہیں، کسی پھل اور فروٹ کا نام نہیں بلکہ قیادت نام ہے ذمہ داری کا، قوموں کے بار کو ڈھونڈنے کا، ماتحت زندگیوں کو آباد کرنے کا، قیادت نام ہے اپنے ماتحتوں کو زندگی کی آزادی فراہم کرنے کا، ان کے حقوق دلانے کا، ظلم، زیادتی جور و جفا سے تحفظ فراہم کرنے کا، ایک اچھے قائد کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ہوش مندی ہو، عقل و فکر میں گہرائی ہو، دور رس و دور بیں ہو، معلومات کا ذخیرہ ہو، اپنے میدان کا ماہر ہو۔
بروقت فیصلہ لینے کی قوت ہو جرأت ایمانی کے ساتھ ساتھ دینی وملکی غیرت و حمیت ہو، یہ صفات اگر ہیں تو پھر بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس وقت قائد تو ہیں لیکن قیادت کا فقدان ہے، اور یہ المیہ پوری امت مسلمہ کے ساتھ مختص ہے، بات کریں اگر اپنے ملک ہندوستان میں مسلم قائدین کی تو ان کیلیے میری طرف سے تعزیت ہے، تنظیمں اور تحریکیں تو اعداد و شمار سے باہر ہیں، ایسا لگتا ہے طوائف الملوکی کا دور شروع ہوگیا ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا جھنڈا اپنا اپنا نعرہ۔ ۔ کل حزب لدیہم فرحون پچھلے کچھ سالوں سے اگر نظر ڈالیں تو نہ آئنی حقوق کی بازیابی ہوسکی ہے جسمیں اقلیتوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے اور نہ ہی عائلی و مذہبی مسائل کا کوی حل ہوسکا ہے، البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ ناراضگی ظاہر کردی گئی ہے مذمتی پیغامات ارسال کردئے گئے ہیں اخبارات کی سرخیاں بن گئ ہیں، ٹیلی ویژن پر آکر بھڑاس ضرور نکالے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے خلاف ہے، عہدوں کی کرسیاں خالی نہیں چھوڑی گئ ہیں بلکہ یوں کہ لیجیے کہ ان کرسیوں اور عہدوں کو یتیم ہونے نہیں دیا گیا ہے، خالص مذہب کے نام پر جو تنظیمیں بنائ گئی ہیں اس میں ڈھانچہ تو ہے لیکن روح سے خالی ہے، ہوسکتا ہے عقیدت مندوں کو برا لگے لیکن حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا عمدا اگر چشم پوشی کی گئی تو ممکن ہے قانون قدرت کی گرفت سے بچنا ممکن نہ ہو۔
یہ تو خیر بات تھی اپنے ملک کی جو کہ ایک جمہوری ملک ہے، جہاں اکثریت غیروں کی ہے لیکن ملکی قانون جو ہمیں حقوق دیتا ہے اس سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری طرف جو سراپا اسلامی ستاون ممالک ہیں جہاں کے قائدین اسلامی لبادہ اوڑھے ہوئے اسلام کا جھنڈا لہرا رہے ہیں، لیکن یہ حقیقت غبارہ سے کم نہیں ہے، یا یہ کہ ڈھول ہے جو اندر سے بالکل کھوکھلا ہے، جو جدھر سے چاہتا ہے بجا تا ہے، ان کی گردنوں میں غلامی کی آہنی زنجیر ڈال دی گئی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ خود پہن لئے جس کا اتارنا ممکن نہیں، سعودیہ عربیہ جو ہمارا منبع ایمان ہے اپنے آپ کو خادم الحرمین الشریفین کا نعرہ بھرتے ہیں لیکن کرتوت ایسی کہ شیطان بھی شرما جائے، امریکہ نے منہ میں اتنا ریال ڈال دیا ہے جس سے زبانیں گنگ ہوکر رہ گئیں ہیں، آنکھ ہوتے ہوئے بھی دیکھنے سے قاصر ہیں، کان ہیں لیکن سننے کیلے تیار نہیں ہے۔
اولائک کالانعام بل ھم اضل
ستاون مسلم ممالک میں گھرا فلسطین ایک چھوٹا سا ملک ہے جو اس وقت اکیلے سوپر پاور کا دعویدار اسرائیل سے بر سر پیکار ہے، ہر مسلمان اور قائدین فلسطین کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، اور اس وقت وہاں کے خونی منظر کو بھی دیکھ رہے ہیں نہ ہتھیار کی کمی ہے نہ افواج کی کمی ہے، نہ ثروت کی کمی، نہ زمینی و فضائی اسباب کی کمی ہے، لیکن عقل پر غلامی کی دبیز چادر پڑی ہوئ ہے، صفوں میں اتحاد نہیں، تعصب اور عداوت اس قدر کہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کیلیے تیار نہیں، ہر شخص محض اپنا ڈھول پیٹ رہا ہے اور مداری کی طرح عوام کو نچارہا، اور اس ڈھول ڈگڈگی کا اثر اس قدر کہ عوام اپنا وجود ہی بھول بیٹھی ہے، یہ بیچارے بھی کریں کیا ان میں مرعوبیت بہت زیادہ ہے حقیقت پر مرعوبیت فدائیت کے پردے پڑ گئے ہیں، جس سے آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے۔
اس وقت دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ سب کے سامنے ہے، کس طرح باطل طاقتیں اسلام دشمنی پر اتر آئ ہے، چاروں طرف سے مسلمانوں پر چڑھ دوڑے ہیں، اور ممالک و قائدین کی لمبی فہرست کے باوجود پسے جارہے ہیں، نہ روح باقی ہے، نہ کوی نقل و حرکت، یعوق، یغوث، نصر کا مجسمہ بنے دنیا کو تک رہے ہیں، ایسے موقع پر زبان رسالت سے نکلے یہ کلمات یاد آتے ہیں جسمیں انہیں صورتحال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ۔ فرمایا۔ ۔ ۔ ایک ایسا دور آئے گا جسمیں باطل طاقتیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکا کھانے کی پلیٹ پر، پوچھا گیا۔ ۔ حضور کیا ہم اس وقت تعداد میں کم رہیں گے؟۔ فرمایا۔ ۔ نہیں، بلکہ تمہاری تعداد سمندر کے جھاگ کے برابر ہوگی، پوچھا گیا کہ پھر وجہ کیا ہوگی۔ فرمایا۔ دنیا سے محبت اور موت کا خوف دنیا کے ناز و نعم ترف و خوشحالی نے ان دونوں حقیقتوں پر پردہ ڈال دیا ہے، اس پردہ کو کھینچ کر اٹھانے والے نہ تو مصلح قوم و ملت نظر آتے ہیں اور نہ دعویدار عقل وفہم۔
ہمارا قافلہ لٹ چکا ہے، راہیں مسدود ہوچکی ہیں، ہر راستہ پر رہزنوں کا بسیرا ہے، کشتی بھنور میں ہے، منجھدار پرپہنچ کر ہچکولے کھارہی ہے، ہر ایک کی نگاہیں کسی ناخدا و بادباں کی تلاش میں ہے سب کی چیخیں نکل رہی ہیں، ہچکی بند الفاظ میں کہ رہے ہیں اس قافلے میں کوی قافلہ سالار نہیں ہے،
مجھے شکوہ نہیں ہے کسی عوام سے اور نہ کسی بشر سے
بس میں یہ کہنا چاہتا ہوں
بتا یہ قافلہ لٹا ہے کیوں،
0 تبصرے