Ticker

6/recent/ticker-posts

آہ سید عبد القادر فیض شمسی عرف اچھے میاں نہیں رہے

آہ سید عبد القادر فیض شمسی عرف اچھے میاں نہیں رہے 


محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سکریٹری/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 6393915491

آج مورخہ 21/ دسمبر بروز جمعرات صبح دس بجے یہ اطلاع ملی کہ سید عبد القادر فیض فاضل شمسی عرف اچھے میاں، اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کرگئے، جو مرشد کامل حضرت مولانا سید شمس الدین صاحب لکھنؤی( ولادت 1839ءوفات 1897ء) کے خانوادے سے تھے، سید شمس الدین صاحب لکھنؤی رح دعوت و تبلیغ کی غرض سے لکھنؤ سے ہجرت کرکے بہلے شہر بھاگلپور مشائخ چک آئے، یہاں خانقاہ قائم کی اور دعوت و ارشاد کے کاموں میں لگ گئے، حاجی معین الدین صاحب بنیا ڈیہ اپنی بچی کی شادی کے سامان کے لئے بھاگلپور گئے تھے۔ وہاں ان سے ملاقات ہوئی، اپنے علاقہ بانکا/ گڈا و اطراف کے مسلمانوں کی حالت زار بتایا اور ان کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دی، ان کو لے کر اپنے گاؤں بنیا ڈیہ آئے، کچھ دن سید صاحب رح نے یہاں قیام کیا اور دعوت و تبلیغ کرتے رہے، پھر وہاں سے موجودہ جھارکھنڈ سابق صوبہ بہار کے ضلع گڈا کی مردم خیز بستی گورگاواں میں ایک دن قدم رنجا ہوئے اور اس گاؤں کے بارے میں فرمایا کہ اس زمین سے علم کی خوشبو آرہی ہے، پھر یہیں مقیم ہوگئے۔ اس علاقہ میں دعوت و تبلیغ اور تربیت و ارشاد کا مثالی کام انجام دیا۔ بقول مولانا محمد ثمیر الدین قاسمی صاحب مقیم انگلینڈ، ، اگر سید شمس الدین صاحب رح اس علاقہ میں نہیں آتے تو یہ علاقہ دوسو سال اور پیچھے رہ جاتا، اس خاندان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ

ایں سلسلہ تلائے ناب است
این خانہ ہمہ آفتاب است

مولانا سید شمس رح کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے سید قطب الدین صاحب رح ان کے جانشین اور خلیفہ ہوئے اور انہوں نے علاقہ کے لوگوں سے مل کر سید شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر 1901ء میں سرزمین گور گاواں میں مدرسہ شمسیہ قائم کیا، جس کا فیض بھاگلپور اور سنتھال پرگنہ کے زرے زرے پر ہے۔

مولانا سید عبد القادر فیض فاضل شمسی عرف اچھے میاں اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کے والد مولانا سید حفیظ الدین ندوی گلداس پور ضلع پورنیہ بہار کے خانقاہ سے وابستہ رہے۔ ندوہ معہد کے سابق استاد سید خصال الدین رح کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا، دونوں قریبی رشتہ دار تھے۔ فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ شمسیہ گورگاواں میں ہوئی، پھر دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور یہاں عالمیت کے کئی سال تک کی تعلیم حاصل کی، لیکن افسوس کہ سند فراغت حاصل نہ کرسکے۔ ندوہ سے جانے کے بعد مدرسہ شمس الھدیٰ سے عالم فاضل کی ڈگری حاصل کی اور پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، مدرسہ شمس الھدیٰ میں طلبہ یونین کے صدر رہے، انتہائی ذہین و فطین اور ذی استعداد تھے، خاندانی وجاہت اور اثر و رسوخ کیساتھ انتہائی خوبرو اور وجیہ و شکیل تھے۔ ایک زمانہ تک پٹنہ میں بھی رہے، ہائی اسکول میں بھی سروس مل رہی تھی، لیکن مزاج میں خلوت نشینی اور عزلت نشینی تھی، اس لیے اس سے الگ تھلگ ہی رہے، مدرسہ شمسیہ گورگاواں کے ذمہ داروں نے مدرسہ میں سرکاری ملازمت کے لئے بھی کہا کہ یہاں شعبئہ تدریس سے منسلک ہوجائیں، کیونکہ ان کے آباء و اجداد کا قائم کردہ ادارہ ہے۔ لیکن اپنی مخصوص مزاج و مذاق کی وجہ سے اس کے لئے بھی آمادہ نہیں ہوئے۔ ۔ مزاج خانقاہی اور داعیانہ تھا، اس لئے خانقاہی راہ اور پیری مریدی کے لائن سے جڑے رہے اور اپنے والد کی خانقاہ سے منسلک رہے اور اپنے خسر ڈاکٹر اشرف صاحب کے مدرسہ نستہ کدوا سے وابستہ رہے، ان کی عمر تقریباً پینسٹھ سال کی ہوگی۔ سادات خاندان سے تعلق تھا، حمیت و غیرت اور شجاعت و مروت بھی حد درجہ موجود تھی۔ مجذوب صفت تھے کبھی عربی اور کبھی انگریزی میں بھی گفتگو فرماتے تھے اور بہت اچھی گفتگو فرماتے تھے، افسوس کہ زندگی میں دو تین بار ہی ان سے ملاقات ہوسکی تھی۔ ایک موقع پر جب جمعیت دو حصے میں تقسیم ہوگئی تو، مولانا محمد قاسم صاحب بھاگلپور سابق استاد و پرنسپل مدرسہ شمس الھدیٰ پٹنہ سے کہا کہ حضرت آپ لوگوں نےجمعیت علماء ہند کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، انہوں کہا کہ کیا ہوا، دیوبند بھی دو حصوں میں بٹ گیا اس سے تو فائدہ ہی ہوا۔ صحابہ میں بھی تو دو طرح اور دو فکر کے لوگ تھے، اس پر فیض صاحب عرف اچھے میاں جلال میں آگئے اور فرمایا کہ آپ لوگ اپنے اختلاف کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلاف سے موازنہ کرتے ہیں، آپ ان کے مقابلہ میں کیا ہیں ؟۔ مولانا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور خاموش ہوگئے۔

ایک موقع پر مولانا قاسم صاحب سے کہا کہ آپ استاد اور عہدہ دار شمس الھدیٰ پٹنہ میں ہیں اور پوری توانائی جامعہ مدنیہ سبل پور کی تعمیر و ترقی کے لئے صرف کرتے ہیں کیا آپ کے لئے یہ مناسب ہے؟ مولانا مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ ( ان دونوں واقعہ کی تفصیلات مولانا مجیب الرحمٰن قاسمی معاون قاضی امارت شرعیہ کے ذریعہ ملی)

غرض مولانا عبد القادر فیض عرف اچھے میاں ایک باکمال اور باصلاحیت عالم دین تھے اور اعلیٰ علمی خاندان کے روشن چشم و چراغ تھے، ان کے آباء و اجداد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی نماز جنازہ کدوا نستہ کھٹیار میں ہوگی، اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور پسماندگان متوسلین و مریدین و تمام اہل تعلق کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

مولانا محمد ثمیر الدین قاسمی صاحب مقیم انگلینڈ نے ایک کتاب، ، یاد وطن، ، کے نام سے بھی لکھی ہے، جس میں سنتھال پرگنہ اور ضلع گڈا بانکا و اطراف کی مشہور شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور بطور خاص حضرت مولانا سید شمس الدین لکھنؤی رح اور ان کے خاندان کا تذکرہ کیا ہے، ذیل میں اس خاندان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ اس خاندان کے احسانات اور ان کے علمی و دینی خدمات کی قدر خلف کو ہوسکے۔

مرشد کامل حضرت مولانا سید شمس الدین صاحب لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ
ولادت ســـنـ۱۸۳۹ء
وفات ســــنـ۱۸۹۷ء
قسط ـــــ ۳
 آپکی اولاد
آپ کے چار صاحبزادے تھے(۱) سید شاہ مولاناقمرالدین (۲) سید شاہ مولانا تمیز الدین صاحب (۳) سید شاہ مولانا قطب الدین صاحب (۴) سید شاہ مولانا نجم الدین صاحب

ماشااللہ یہ چاروں صاحبزادے علم وفضل تقویٰ و طہارت میں باپ کے ہم مثل تھے مولانا قطب الدین صاحب بیشتر اوقات شمسیہ کی آبیاری میں صرف کرتے لیکن آبائی وطن لکھنؤ سے بھی قلبی لگاؤ تھا، قضا و قدر کا فیصلہ دیکھئے کہ اخیر عمر میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے وہ وہیں بیمار ہوگئے اور اسی سفر میں عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف سفر فرمایا اور وہیں آبائی قبرستان نزد مسجد سعیداللہ نیا گاؤں شہر لکھنؤ میں سپرد خاک ہوئے
آپ کو ایک صاحبزادہ تھا سید شاہ مولانا جلال الدین ان کی شادی مقام مونا ضلع بہار میں کسی زمیندار کی لڑکی سے ہوئی تھی زمیندار صاحب کو کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے مولانا مونا ہی میں مستقل طور پر رہنے لگے البتہ کبھی کبھی والد صاحب کے چمن کو دیکھنے کے لیے گورگاواں آجایا کرتے تھے ان کو تین صاحبزادے تھے(۱) سید شاہ نہال الدین(۲) سید شاہ ہلال الدین (۳) سید شاہ خصال الدین یہ تینوں حضرات مونا ہی میں مقیم ہیں اور اپنی نانہالی جائیداد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

مدرسہ شمسیہ میں مولانا قطب الدین صاحب کے دور اہتمام میں آپکے برادر خود حضرت مولانا نجم الدین صاحب بھی تدریسی خدمات انجام دیتے تھے اور تبلیغ و ارشاد میں بھی شریک تھے اس لیے مولانا قطب الدین کے بعد قدرتی طور پرادارے کی سرپرستی واہتمام کا قرعہ فال آپ کے نام نکلا اور آپ ہمہ تن گو ش ہوکر ادارے کی نگہداشت و پرداخت میں منہمک ہوگئے ان کے دورے اہتمام میں مدرسے کو مزید سربلندی حاصل ہوئی اور درجات عربی میں بھی اضافہ ہوا ان کا تعلق بھی آبائی وطن لکھنؤ سے والہانا تھا اخیر عمر میں وہ بھی لکھنؤ تشریف لے گئے اوروہیں 17 رمضان 1326ھ 1945ء میں ہزاروں سوگواروں کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت کے لئے روانہ ہوگئے۔

آپ کے دو صاحبزادے(۱) مولانا قاری نصیر الدین صاحب (۲) حکیم سید حفیظ الدین صاحب ندوی موصوف کے بعد یہ ذمہ داری آپ کے خلف اکبر قاری نصیر الدین کے پاس آئی انہوں نے کچھ عرصہ تک اس چمن کی ساخت وپرداخت کی لیکن چونکہ وہ مقام گلداس پور ضلع پورنیہ بہار کی خانقاہ سے وابستہ تھے اور انہیں کے دم سے اس کی شمع جل رہی تھی اس لیے وہ زیادہ تر گلداس پور ہی میں مقیم رہنے لگے اور غالبا ابھی تک ان کے اہل و عیال وہیں ہیں۔

مولانا نصیر الدین صاحب کے بعد خانقاہ شمسیہ گورگاواں کی جانشینی انکے برادر خورد سید مولانا حفیظ الدین ندوی کے سپرد ہوئی وہ خانقاہ کی سرپرستی فرمانے لگے اور اپنی بساط کے مطابق خلق خدا کو مستفیض فرما رہے تھے مولانا کو ایک لڑکا سید عبدالقادر فیض صاحب جو فاضل شمسی ہیں اور گریجویٹ بھی الحمد للہ وہ بھی اپنے دادا اور پردادا کے مشن پر کاربند ہیں اور خدمت خلق سے وابستہ رہتے ہیں۔۔۔ افسوس کہ آج ہی اچھے میاں فیض صاحب کا کدمہ نستہ میں انتقال ہوگیا۔ ۔انا لللہ و انا الیہ راجعون

ایں سلسلہ طلائےناب است
 ایں خانہ ہمہ آفتاب است

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے