Ticker

6/recent/ticker-posts

حج کو جانے سے پہلے..! Haj Ko Jaane Se Pahle

حج کو جانے سے پہلے..!

 سرفراز عالم
 عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

 سب سے پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ
حج کو جانے والا مسلمان حج کرنے کے لئے حلال مال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں! کسی کے پاس زندگی کے دوسرے فرائض ادا کرنے کے بعد اتنی رقم بچ جائے تو حج کرنا لازم ہے وغیرہ۔ بے شک یہ اولین شرائط میں سے ہیں لیکن جانے انجانے بڑی غلطیوں کے باوجود اکثر لوگوں میں خود کو پارسا سمجھنے کا بھرم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لئے آپ بیشتر حاجیوں کو واپس لوٹ کر وہی کرتا ہوا پاتے ہیں جو وہ پہلے کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو ان کی زندگی میں اور زیادہ کمیاں اور کوتاہیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس پر خوب غور کرنے اور اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ حج پر جانے سے پہلے لوگوں سے مل کر بھول چوک معاف کروا لینے کا نیا چلن تو اب اور زیادہ خوش فہمی اور خود پسندی کا شکار بنا دیتی ہے۔

 آئیے دیکھتے ہیں کہ حج پر جانے سے پہلے حاجیوں کو زندگی کے کن کن تقاضوں کو پورا کر لینا چاہئے تاکہ حج، حج مبرور و مقبول بن جائے۔

haj-ko-jaane-se-pahle

 سب سے پہلے تو اس بات پر پوری طرح سے شرح صدر کر لیں کہ انجانے میں کسی درجے کا شرک تو آپ کی زندگی میں نہیں ہے.! واضح ہو کہ شرک خفی بڑی خفیہ طور پر یہ اطمینان دلا دیتا ہے کہ آپ اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں لیکن حقیقتاً اللہ سے ہی سب کچھ ہونے کا تصور کمزور نکلتا ہے اور تمام عبادتیں رائیگاں جا سکتی ہیں۔ بلا شبہ شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔ کبھی کبھار حالات کے پیش نظر آستین میں کئی غیر اللہ بھی پل رہے ہوتے ہیں جن سے ہم اکثر انجان ہوتے ہیں۔ لہٰذا حج کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر عبادتوں کی حفاظت کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی شرک سے حفاظت فرمائے آمین۔

 اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حج پر جانے سے پہلے کن کن کوتاہیوں سے بچنے کا آپ کو شرح صدر ہو چکا ہے..!
 کیا آپ......

 1.کیا آپ کو شرح صدر ہے کہ آپ کی روزی حلال ہے اس لیے کہ حلال سے بنے ہوئے خون سے کی گئی عبادت ہی قابل قبول ہے۔

 2۔ کیا آپ کو اطمینان ہے کہ آپ کے والدین آپ سے خوش ہیں اس لئے کہ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے۔

 3۔ کیا آپ کے تعلقات اپنے بھائی بہنوں سے بہتر ہیں اس لئے کہ جو اپنے رشتہ داروں کے لئے بہتر ہے وہی اچھا انسان ہے۔

 4۔ کیا آپ نے اپنے بچوں کو دین سکھایا ہے اس لیے کہ یہی آپ کے لئے اصل صدقہ جاریہ ہے بقیہ سب بیکار۔

 5۔ کیا آپ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرکے مطمئن ہیں اس لئے کہ رسول اللہ نے عورتوں کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی ہے۔

 6۔ کیا آپ کے ذمے کسی طرح کے قرض کا لین دین بقایا تو نہیں ہے اس لیے کہ یہ اہم حقوق العباد میں سے ہے۔

 7۔ کیا آپ کی زندگی اب تک فضول خرچی سے پاک رہی ہے اس لیے کہ بیشک فضول خرچ کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔

 8۔ کیا آپ نے اپنے بچوں کی شادیاں شریعت کے مطابق کی ہے اس لئے کہ فضول خرچ سے بچتے ہوئے کم سے کم خرچ میں شادی کو اسلام نے پسند فرمایا ہے۔

 9۔ کیا آپ نے ایمانداری سے اپنا محاسبہ کیا ہے اس لیے کہ جو فرد یا قوم اپنا محاسبہ نہیں کرتی ہے وہ مٹادی جاتی ہے۔

 10۔ کیا آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ انصاف سے بڑھ کر عدل کیا ہے اس لیے کہ اولاد کے تعلق سے ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ہی ان کی نیکیاں آپ کے بعد آپ کے لیے توشہ آخرت بنے گی۔

 11۔ کیا آپ نے اپنے غریب و محتاج رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیا یے یا ان کی مالی امداد کی ہے اس لیے کہ رشتہ قطع کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

 12۔ کیا آپ کو پاس پڑوس میں لوگ اچھے نام سے یاد کرتے ہیں اس لئے کہ پڑوسیوں کے حقوق کو اسلام میں بہت اونچا مقام دیا گیا ہے۔

 13۔ کیا آپ اسلام میں مذکور واضح حرام سے بچے ہوئے ہیں؟ اس لئے کہ سود اور شراب کے استعمال کے بعد فطرت میں فتور آتا ہے اور اس سے بنے جسم کی دعا بھی رد کر دی جاتے ہے۔

 14۔ کیا آپ نے اپنے بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کے حق وراثت بخوبی ادا کیے ہیں، اگر ہاں تو ان شاءاللہ یقیناً آپ کا حج قبول ہوگا۔

 حیرت ہے کہ آپ اپنی ان تمام کمیوں کا محاسبہ کئے بغیر حج کو جانے کے لئے تیار ہیں..!! حج صرف مکہ و مدینہ کی سیر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس طرح حاضر ہونا ہے جیسا کہ آپ محشر صغریٰ میں قادر مطلق کے سامنے اپنا حساب دینے جا رہے ہیں۔ اگر آپ نے ان ذمہ داریوں کو بخوبی پورا کیا ہے تو بہت مبارک نہیں تو حج سے لوٹنے کے بعد بھی آپ کی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آنے والا ہے اس لئے کہ آپ کی کوئی دعا قبول ہی نہیں ہوگی، واللہ اعلم بالصواب۔

 آخر میں میری ایک بات مان لیجیے، للہ اپنا ایک فرض حج ہی ادا کیجئے بقیہ پیسوں سے امت کی نئی نسل کی مدد کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ایک سے زیادہ حج کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھے گا۔ ان شاءاللہ ایک مقبول حج ہی آخرت میں آپ کے کام آئے گا۔ عمرہ کی گنتی کو بھی کم کیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک عمرہ اور ایک حج ہی ان شاءاللہ کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ امت کے امراء کو صحیح سمجھ اور توفیق عطا فرمائے، آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے