Ticker

6/recent/ticker-posts

عید قرباں ہم سے ہم کلام ہے

عید قرباں ہم سے ہم کلام ہے


مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ، 

عید الاضحی جسے عید قرباں یا یہ کہ عمومی زبان میں (قربانی )کہا جاتا ہے یہ ایسا تہوار ہے جس کا ہر مسلمان کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے، وجہ واضح ہے کہ جس چیز کا تعلق انسان کی خواہشات سے ہو اس کا انسان کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے، قربانی میں انسانی طبیعت بلک انسانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے، اور اگر یہ نہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کی تعداد قربانی کے نام سے دور بھاگتی، کیوں کہ اعمال کا اگر جائزہ لیا جائے تو جو مطالبہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں مسلمان ناکام و نامراد ہے۔

عید قرباں ہم سے ہم کلام ہے


مثلاً نماز کا حکم ہے، غور کریں کتنے مسلمان نمازی ہیں، اسی طرح سے روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، اور یہ مطالبات ہیں جس پر نار و بہشت کا فیصلہ کیا جائے گا، چونکہ یہاں انسان کی خواہشات کی تکمیل نہیں ہے اسی لئے اس جانب توجہ کم ہے، قربانی جو کہ ایک واجب عمل ہے اور یہ ہر شخص پر واجب بھی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دائرہ ہے، اس کے برعکس نماز روزہ تو ہر مسلمان پر فرض ہے اس میں امیر و غریب کی تفریق ہے نہ ہی کالے اور گورے کی، اس کے باوجود بھی مسجدیں ویران نظر آئیں گی، لیکن چونکہ قربانی میں زبان کا ذائقہ، نظر کا ذائقہ طبیعت کا بھی ذائقہ اور ساتھ ہی ساتھ خواہشات کی فتح تو پھر انسان کیوں نہ اس کا بے صبری سے انتظار کرے۔

حالانکہ قربانی کی جو حقیقت ہے وہ اس کے بلکل برعکس ہے، اگر اس کی تاریخ کو پڑھا جائے تو وہ واقعہ ملے گا جس منظر کو دیکھ کر لیل و نہار نے بھی سانسیں روک لیا تھا، چاند سورج ستارے بھی محو حیرت تھے، چرند پرند نے بھی چیچہانا چھوڑ دیا تھا، کائنات کا ذرہ ذرہ محو فغاں تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا اور ایک باپ اپنے بوڑھاپے کے سہارے کی گردن پر چھری پھیرنے کو تیار کھڑا ہے، بھلا ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنے اکلوتے بیٹے کو اور وہ بھی جو دعائے نیم شبی میں مانگا گیا ہو، بڑے ہوکر جسے باپ کا بازے بننا ہے، جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہے، جو آنکھو کا نور اور دل کا سکون ہے، ایسے محبوب ترین چیز کو کوئی قربان کرتا ہے، لیکن چونکہ اس بارگاہ ایزدی سے حکم آگیا تھا جہاں ابراہیم علیہ السلام کی دعا بیٹے کے حق میں قبول ہوئی تھی، اور حکم کا منشاء بھی تو یہی تھا کہ جب شہنشاہ عالم کی جانب سے حکم آجائے تو اس حکم کے آگے انسان آکھیں موند لے اور اس پر عمل درآمد کرے، اور اس پورے واقعہ کا لب لباب یہی تھا کہ اپنی خواہشات پر شہنشاہ عالم کے حکم کو ترجیح دینا، اور جب انسان اس کو کرلیتا ہے تو پھر اس کا رزلٹ وہ ہوتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قبول ہوئی اور اور اپنے امتحان میں کامیابی حاصل کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں ان کے اس عمل کو نافذ کردیا گیا، اور یہ فرمایا گیا کہ جو کوئی بھی خدا کے حکم پر آنکھیں موند لے اور محض اسی کی رضا مندی مقصد ہو تو پھر اس کا پرینام یہی ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی آیت کریمہ صاف کہ رہی ہے۔۔۔۔۔ تم ہر گز نیکی نہیں پا سکتے یہاں تک کہ تم وہ چیز خرچ نہ کرو جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے۔

حدیث شریف میں فرمایا گیا۔۔۔۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں۔

قربانی کی جو کیفیات ہیں وہ کچھ اسی طرح سے ہیں

سنت ابراہیم سمجھ کر قربانی کی نیت سے جانور خریدا جاتا ہے، اور اس کی قربانی کردی جاتی ہے لیکن کیا نیتوں کا محاسبہ ہوا ؟؟؟ کیا اخلاص کو ٹٹولا گیا ؟؟!

کیا زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئی، جب خواہشات کی تکمیل اور گوشت کھانا ہی مقصد ہو جائے تو پھر قربانی کی روح ختم ہو جاتی ہے،۔ یقیناً گوشت کھانا حلال ہے لیکِن اس کا مظہر یہ ہونا چاہیۓ کہ ہماری زندگی بھی فرمانبرداری کی ڈگر چلے، ہم میں اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ پیدا ہو، جس طرح ہم جانور قربان کردیتے ہیں ایسے ہی اپنے اندر سے بغض۔ حسد۔ نفاق، آپسی عداوت، دشمنی کو بھی قربان کردیں، ہم ماں باپ کے اطاعت گزار بن جائیں، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کیلئے جب اور جس چیز کا بھی ہم سے مطالبہ ہو بلا کسی قیل و قال کے ماننے والے بن جائیں۔

یہی قربانی کی روح ہے، یہی قربانی کی حقیقت ہے اور ہم سے اسی چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے