Ticker

6/recent/ticker-posts

رسالہ معاصر اور ان کے چند قلم کار

رسالہ معاصر اور ان کے چند قلم کار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

ڈاکٹر محمد نور اسلام علیگ (ولادت 3/ اگست 1964ء) بن ولی احمد مرحوم حال مقام 301، حق انکلیو آشانہ روڈ پٹنہ۔14، انسپکٹر وناظم امتحانات بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں، ملازمت کی پیشہ وارانہ خشکی کے باوجود انہوں نے لکھنے پڑھنے کا معمول جاری رکھا، جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں خشکی نہیں پیدا ہو سکی، وہ سدا بہار شخصیت کے مالک ہیں، ان کے ہونٹوں پر کبھی مرئی اور کبھی غیر مرئی لکیریں تبسم کی رواں رہتی ہیں، وہ مختلف انداز کی مجلسوں میں تشریف فرماہوتے ہیں، اور ہم لوگ انہیں صائب الرائے سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر نور اسلام سے میرے تعلقات نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہیں، اس کا آغاز دا رالعلوم مؤ سے ہوا تھا،جہاں ہم دونوں مولانا حسین احمد ناصری دامت برکاتہم کے زیر سایہ تعلیم پا رہے تھے، پھر ہم دونوں دو الگ سمت کے راہی ہو گیے، میں مدرسہ کی تعلیم میں لگا رہا اور وہ عصری علوم سے وابستہ ہو گیے، راہیں الگ ہو گئیں لیکن دل آج بھی ویسے ہی لگا رہتاہے۔ انہوں نے پی ایچ ڈی تو قاضی عبد الودود پر کیا ہے، لیکن مہارت مدرسہ بورڈ کے نصاب تعلیم، نظام امتحان میں ہے، نصاب کے سلسلے میں ان کے مشورے انتہائی اہم ہوا کرتے ہیں، امارت شرعیہ جو اسکول کا نصاب تیار کر ارہی ہے اس کے وہ اہم رکن ہیں، اور اپنی معلومات سے اسے مفید اور کار آمد بنانے میں اپنی حصہ داری نبھاتے ہیں۔

انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے ایم اے اردو، ایم فل، پی اچ ڈی کیاہے، یہیں کے جامعہ اردو سے ادیب کامل کی سند حاصل کی اور للت نرائن متھلا یونیورسیٹی دربھنگہ سے ایم اے سماجیات میں ڈگری حاصل کی، وہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے کئی ادبی رسائل کے ایڈیٹوریل بورڈ میں بھی ہیں، مسلم یونیورسیٹی علی گڈھ کے ابنائے قدیم ہیں تو اس کے ممبر تو ہوں گے ہی، یہ ممبری ابناء قدیم کی علی گڈھ یونٹ اور دربھنگہ یونٹ میں بھی قائم ہے، وہ سخاوت ایجوکیشنل سوسائٹی سمستی پور کے ممبر اور سر سید سوسائٹی آف سوشل ویلفیر دربھنگہ کے سکریٹری ہیں، ان کی کئی کتابیں قاضی عبد الودود کی علمی وادبی خدمات،مدارس ملحقہ کے نظم وضبط کے اجزاء ترکیبی، معاصر کا توضیحی اشاریہ اور بہت سارے مضامین ومقالات شائع ہو کر اہل علم میں مقبول ہو چکے ہیں۔

”رسالہ معاصر اور ان کے چند قلم کار“ ڈاکٹر محمدنور اسلام کی تازہ تالیف ہے، اس میں انہوں نے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ”معاصر“ کے چند اہم قلم کاروں کا مختصر اور تفصیلی تعارف کرایا ہے، اس کی ترتیب کیف ماا تفق ہے، نہ ان میں حروف تہجی کا خیال رکھا گیا ہے اور نہ ہی تاریخ ولادت ورحلت کا، بیش تر قلم کا روں کے تذکرے میں ان کی تاریخ وفات درج نہیں ہے، حالاں کہ تاریخ وفات عمومی طور پردستیاب ہو تو تذکرہ تاریخ وفات کے بغیر مکمل نہیں ہوا کرتا، ہر بڑا آدمی اور قلم کار پیدا تو عام انسانوں کی طرح ہی ہوتا ہے اور بہت ساروں کے یہاں تاریخ ولادت حقیقی محفوظ بھی نہیں ہوتی، لیکن تاریخ وفات کا معاملہ الگ ہے، مرنے کے وقت وہ اتنا متعارف ضرور ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ وفات لوگ محفوظ رکھتے ہیں، یہ ایک فطری عمل ہے، اس کی کمی اس کتاب میں کھٹکتی ہے۔

جس رسالہ کے قلم کار کا تذکرہ اس کتاب میں ہے، اس کا نام معاصر تھا، اس رسالہ کا پہلاشمارہ نومبر 1940ء میں آیا تھا، اور جلدہی اس نے معیاری تحقیق وتنقید،اعلی نظمیں بہترین افسانے اور لائق ذکر تبصروں کی اشاعت کی وجہ سے علمی دنیا میں ایک مقام بنا لیا، اگر اس کی کتابت، طباعت، کاغذ اور ٹائٹل قارئین کی ذوق کی تکمیل کرتا تو اسے دشواریوں کا سامنا نہیں کرتا، لیکن درمیان میں اس کی اشاعت مالی بحران کی وجہ سے رکی بھی، اس کا آخری شمارہ دسمبر 1938ء میں نکل کر بند ہو گیا، دائرہ ادب نے اس رسالہ کے ذریعہ چالیس سال تک اردو صحافت کو فروغ دیا، یہ خود اپنے میں بڑی بات ہے، معاصرنے نمبروں کی اشاعت کی طرح نہیں ڈالی، اس کا صرف ایک شمارہ قاضی عبد الودود کے نام پر نکلا تھا اور بس، معاصر میں ہی ماسٹر عبد الحکیم کا وہ طویل مضمون ”حاجی پور مرحوم“کے نام سے چھپا تھا جو آج بھی حاجی پور اور اس کے نواح کی تاریخ جاننے کے لیے ماخذ کا درجہ رکھتا ہے، میں نے بھی تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی میں اس سے بہت استفادہ کیا تھا ۔

ڈاکٹر محمدنور اسلام صاحب نے اس کتاب میں ”معاصر“ کے چند اہم قلم کاروں کا ذکر کیا ہے، جن حضرات کا ذکر ہے ان میں سید حسن، سید محمد محسن، سید محمد حسنین، شکیلہ اختر، حافظ شمس الدین احمد شمس منیری، مختار الدین، آرزو، سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی، قاضی عبد الودود، ڈاکٹر عظیم الدین احمد، کلیم الدین احمد، عندلیب شادانی، پروفیسر فضل الرحمن، اختر اورینوی، کل ایک درجن قلم کارشامل ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے، مثال کے طور پر احمد حسن، احمد ذو السیفین، ظفیر الحسن وارث، سید احمد، عزیز احمد ارکوی، سید عزیز حیدر کچھوی، سید علی اکبر قاصد، سید عبد الرؤف، اشفاق حسین، معین الدین دردائی، بدیع مشہدی، سید صدر الدین فضا، رضیہ رعنا، مناظر الاحسن روش، نصیر حسین خیال، سید حسن عسکری، قیام الدین وغیرہ،ا ن میں سے کئی کا شمار تو مشاہیر میں ہوتا ہے۔

اور وہ معاصر کے مستقل قلم کار کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں، انتخاب کا یقینا پورا حق مصنف کو حاصل ہوتا ہے اور ہونا چاہیے، لیکن جن کو چھوڑ دیا گیا اور جن کو لے لیا گیا، اس کی وجہ ترجیح بھی ذکر کر دینی چاہیے تاکہ قاری مصنف پر ایک خاص زاویہئ نظر کا الزام لگا کر بد گمانی کا شکار نہ ہو۔ اس کتاب کا مقدمہ بڑا وقیع ہے، لیکن یہ معاصر کے توضیحی اشاریے میں پہلے چھپ چکا ہے، اس مقدمہ میں ڈاکٹر محمدنور اسلام صاحب نے معاصر کے مالہ وما علیہ کو تفصیل سے ذکر کیا ہے،ا س میں تحقیق بھی ہے او رمعاصر کے حوالہ سے احوال واقعی بھی، مصنف نے اس مقدمہ میں اردو میں اشاریوں کی کمی کا شکوہ کیاہے اور چند رسائل کے اشاریہ کا ذکر کرکے لکھا ہے:

”یہ ہے اردو میں اشاریوں کی کل کائنات، انہیں کسی بھی طرح کا فی وشافی نہیں کہا جا سکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید رسالوں کے اشاریے تیار کیے جائیں۔

ڈاکٹر محمدنور اسلام صاحب کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوگی کہ جس زمانہ میں وہ معاصر کے توضیحی اشاریے کی ترتیب کا کام کر رہے تھے، اسی زمانہ میں تہذیب الاخلاق کے دو اشاریے مزید مرتب ہو چکے تھے، ایک اشاریہ توڈاکٹر ضیاء الدین انصاری کا مرتب کردہ ہے اور جس کا ذکر مؤلف نے اس کتاب میں کیا بھی ہے، اس کے علاوہ اس رسالہ کا دوسرا اشاریہ 1991ء میں آفتاب عالم نے ترتیب دیا تھا، یہ ڈاکٹر ضیاء الدین کے اشاریہ 1870کے بعد کا ہے اور 1876تک کے شماروں کو اشاریے میں لیا گیا ہے، تیسرا اشاریہ فرح تبسم نے 1997میں ترتیب دیا ہے جو 1879سے 1894تک کے شماروں پر مشتمل ہے۔

اسی طرح معارف کے اشاریے کی طباعت بھی ہو چکی ہے۔ 1916سے 1970تک کے معارف کا اشاریہ ڈاکٹر عابد رضا بیدار کے دور میں خدا بخش خاں اورنٹیل پبلک لائبریری سے شائع ہوا تھا، معارف کا دوسرا اشاریہ محمد سہیل شفیق پاکستان کا مرتب کردہ ہے جو 1916سے 2005تک کے شماروں پر مشتمل ہے، معارف کا تیسرا اشاریہ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی کا مرتب کردہ ہے، جس میں 1916سے 2011تک کے شمارے کا احاطہ کیا گیاہے، اسی طرح سہ ماہی فکر ونظر اسلام آباد کا اشاریہ جو لائی 1963سے جون 1978کل پندرہ جلدوں کا اشاریہ احمد خان اور 1978سے جون 1993کا اشاریہ شیر نور وز خان نے مرتب کر دیا ہے، ماہنامہ محدث لاہور کا اشاریہ 1970تا2011، سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڈھ1982سے 2006تک پچیس برسوں کا اشاریہ سلیقہ سے مرتب کیا جا چکا ہے۔ معیار، سچ،صدق جدید، بیسویں صدی اور نگار وغیرہ کے اشاریے بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔یہ اشاریوں کی پوری فہرست نہیں ہے، یہاں نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش۔

ڈاکٹرمحمد نور اسلام کو اشاریہ مرتب کرنے کا تجربہ حاصل ہے، اگر وہ توجہ دیدیں تو امارت شرعیہ کے ترجمان، امارت اور نقیب کا بھی اشاریہ سامنے آجائے تو بعید نہیں۔

ڈاکر نور اسلام کی تحریری زبان صاف اور شستہ ہے، وہ اردو نثر میں سر سید اسکول کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے ان کی تحریر میں سادگی کے ساتھ زولیدگی اور تعقید لفظی ومعنوی سے پاک ادبی نمونے ملتے ہیں، ان کی تحریروں میں صنائع وبدائع کا استعمال کم ہوتا ہے، ”آمد“ کے ساتھ لکھتے ہیں ”آورد“ کا گذر ان کی تحریروں میں نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے معنی ومفہوم کی ترسیل میں آسانی ہوتی ہے۔قاری کو کسی الفاظ کے معنی کی تلاش کے لیے لغت کی ورق گردانی پر مجبور نہیں ہونا پڑتا، میں اس اہم کتاب کی اشاعت پرمؤلف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ ان کا قلم اسی طرح گہربار رہے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے