Ticker

6/recent/ticker-posts

” اَنا “ کا بت چھپا ہے ہماری آستینوں میں

” اَنا “ کا بت چھپا ہے ہماری آستینوں میں


اَنا اور خودی دو جدا خصوصیات ہیں جن سے کوئی انسان مبرا نہیں ہے۔انا ایک منفی سوچ ہے جبکہ خودی شخصیت کی ارتقاء کا زینہ ہے۔ خودی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جبکہ انا خود کی نظروں میں گرنا ہے۔خودی میں عروج ہے اور انا میں زوال۔ خودی خدا کا رنگ ہے اور انا شیطان کی فطرت۔ یہاں انا کو مرکز بنا کر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ موجودہ دور میں اکثر انسان کسی نہ کسی طرح سے انا پرستی کا شکار ہو چکا ہے۔اس لفظ انا میں " میں"سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے جس سے تکبر کی بو آتی ہے جو ایک شیطانی صفت ہے۔انا دراصل تلبیس ابلیس ہے جو رنگ بدل بدل کر لوگوں کو اپنے نفس کا غلام بنا لیتا ہے۔انا غرور کا پیش خیمہ ہے جس نے ابلیس کو متکبر اور نامراد بنا دیا۔بیشتر لوگ انا کو عزت نفس سمجھتے ہیں جو ایک بڑی بھول ہے۔انا میں سختی ہے جبکہ عزت نفس میں نرمی پائی جاتی ہے۔ اپنی عزت نفس کے لئے دوسروں کے عزت نفس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے جبکہ انا دوسروں کی تذلیل کے لیے ہر وقت تیار رہتا رہتی ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں SELF یعنی انا انسان کے زوال کا نام ہے اور خودی یعنیEGO عظمت انسانی کی بنیاد۔

انا پرستی ایک ایسی چادر ہے جو عفو و درگزر کو چھپا دیتی ہے۔انا کا شکار انسان کسی دوسرے کو سننا پسند نہیں کرتا ہے۔عالم ہو یا جاہل،سمجھدار ہو یا نا سمجھ تقریباً سبھی کسی نہ کسی انا کی زد میں ہیں جس سے مسلم سماج میں انارکی قائم ہو چکی ہے ۔خاص طور پر اس دور میں مسلک کے نام پر ( عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے آپسی اختلافات کی بنیادی وجہ یہی ہے۔لوگ دین کی پیروی نہ کرکے مسلک کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں امت کا رعب ختم کردیا ہے،واللہ اعلم ) کوئی عالم کسی دوسرے عالم کو برداشت نہیں کر رہا ہے۔ ہر دانشور اپنے آپ کو مکمل ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ملی ادارے ہوں یا خانقاہیں ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہیں۔مساجد کی تعمیر کی بنیاد بھی انا کا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔ روایات کے ظاہری اختلافات کو" انا " کی بھینٹ چڑھا کر قرآن سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انا کو خودی میں تبدیل کرنے کے لئے قرآن ( اللہ کی مضبوط رسی) کی طرف پوری طرح سے لوٹنا ہوگا۔ الغرض ہر کوئی اپنے کو برتر ثابت کرنا چاہتا ہے۔ سماج کے بڑے مسائل پر بھی سبھی ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتے ہیں۔ سمجھدار کو اپنی سمجھداری پر ناز ہے تو ناسمجھ اپنے کو مکمل طور پر عقلمند سمجھ رہا ہے۔گویا سماج کا تقریباً ہر طبقہ اپنے آپ کو صحیح سمجھنے کی بھول کر رہا ہے۔اب بحث و مباحثہ ہار اور جیت کا کھیل بن گیا ہے نہ کہ افہام و تفہیم کا۔ مزاج میں ایسی تنگی کہ کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ اپنے غیر اسلامی موقف کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ دلائل کے بغیر اپنی بات کو ثابت کرنے کی ضد عروج پر ہے۔ اپنے مسلک کو ہی برحق ثابت کرنے کا مزاج تو اب ایک بیماری بن گئی ہے۔ اب تو حالات کے مدنظر سر جوڑ کر بیٹھنے کا نظام بھی تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ پتہ نہیں لوگ کہاں مشغول ہیں؟ آپسی اعتبار کی کمی کیوں ہو گئی ؟حالات حاضرہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انا کے 360 بتوں میں سے کوئی نہ کوئی بت ہر انسان اپنے اندر چھپائے بیٹھا ہے،الا ماشاءاللہ

”انا“ یعنی سیلف انسان کو مغرور اور خود پرست بناتی ہے۔ ”انا“ کے باعث انسان خود کو برتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں خود کو ہمیشہ درست اور دوسروں کو غلط قرار دیتا ہے۔ یہی ”انا“ ہے جو معاشرتی اور گھریلو نااتفاقیوں اور جھگڑوں کو جنم دیتی ہے۔ ایسا انسان اپنی غلطی مان لینے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یوں سب اپنی جگہ پر اڑے رہتے ہیں اور اس طرح آپس میں فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس دنیا میں ایسا بھی دور گزرا ہے جب ایک شخص نے دوسروں کی خودی کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی جھوٹی انا کو قربان کر دیا۔کون شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ دوسروں کی دنیا آباد کرنے کے لئے سینکڑوں لوگوں نے اپنی دنیا برباد کی ہے۔اپنی انا کو دوسروں کے لئے کبھی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔اپنی انا کا غلط استعمال کرکے دوسروں کی عزت نفس کا مذاق نہیں اڑایا۔

ترک " انا " کی ایک تاریخی مثال :-

ملک کا صدر بننے کے بعد ایک دن جنوبی افریقہ کے صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا : ’’چلو! آج شہر دیکھتے ہیں، تقریباً 27 سال قید خانے میں گزارنے کے بعد آج اپنی آنکھوں سے اپنا شہر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ ریسٹورنٹ میں پہنچے جہاں ایک عمر رسیدہ شخص کو بلا کر ساتھ والی کرسی پر بٹھایا۔

ساتھیوں نے وہاں کھانے کے دوران اپنے شہر کی تبدیلی اور اس کی ترقی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ ساتھ بیٹھا وہ عمر رسیدہ آدمی ٹھیک سے کھا نہیں پا رہا تھا۔ اسے پسینہ چھوٹ رہا تھا اور اس کا ہاتھ اس بری طرح کانپ رہا ہے کہ جب وہ کھانا منہ تک لے جا جاتا تو کھانا پلیٹ میں ہی گر جاتا۔ پھر منڈیلا نے اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا منہ صاف کیا۔

وہ شخص ہمیں الوداع کہہ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے جسم میں کپکپاہٹ طاری تھی اور کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ لہذا منڈیلا نے اپنے ہاتھوں سے کھڑے ہونے میں اس کی مدد کی اور اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ اسے دروازے تک چھوڑ آئے۔

جب وہ ہوٹل سے باہر جا رہا تھا تو منڈیلا کے ایک ساتھی نے کہا: ’’یہ آدمی تو شدید بیمار ہے، ایسی حالت میں وہ گھر تک کیونکر پہنچ پائے گا ‘‘۔ لہذا منڈیلا نے انہیں بتایا کہ : ’’وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس سیل کا انچارج تھا جہاں مجھے قید کیا گیا تھا۔ قید خانے میں مجھے مارپیٹ کرنا، اذیت دینا اور مجھ پر تشدد کرنا اس کے فرائض میں تھے۔ جب کبھی شدید مار پیٹ اور تشدد کے بعد مجھے بری طرح پیاس لگتی اور میں پانی کے لئے چیختا تو وہ میرے منہ اور جسم پر پیشاب کر دیتا‘‘۔

آج جب میں اس ملک کا ایک طاقت ور صدر بننے کے بعد اسے اچانک دیکھا اور اسے اپنے ٹیبل پر بلایا تو اپنے اُن دنوں کی باتوں کو یاد کر کے وہ بوڑھا ڈر گیا اور اسے اتنی شدید خوف لاحق ہوئی کہ اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔

منڈیلا نے کہا کہ اقتدار میں آکر بے اختیار لوگوں کو سزا دینا میرے نظریہ کے خلاف ہے، یہ میری زندگی کے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہے۔ لہذا سزا دینے کی بجائے میں نے اسے پیار دیا۔ جب وہ طاقت میں تھا تو وہ میرے منہ پر پیشاب کرتا تھا۔ آج میں طاقت میں آکر اپنے ہاتھوں سے اس کے منہ میں کھانا کھلایا۔ وہ میرا چہرہ گندہ کرتا تھا، آج میں نے اس کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔

میں جیسا آپ کا صدر ہوں اسی طرح اس کا بھی صدر ہیں۔ ہر شہری کا احترام کرنا میرا اخلاقی فرض ہے۔ منڈیلا نے اپنی "انا" کو اپنی خودی میں تبدیل کر دیا اور اس بوڑھے کی خودی کی لاج بھی بچا لی۔ہمارے یہاں اب ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں پھیل جائے احمد فیض کی شاعری


افسوس کہ آج ہم مسلمانوں میں ایسی سوچ کم ہی پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ فتح مکہ کے دن انسانی رواداری، صبر وتحمل، برداشت اور عفو و درگزر کی وہ روشن مثال پیش کی گئی جس کا عشر عشیر بھی ہماری عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات ہمارے لئے اور پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔

لیکن آج ہم کسی کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔اپنی انا سے باہر نکل کر اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذی الحجہ میں لوگ بظاہر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں لیکن اس کے مقصد پر کھرے نہیں اترتے ہیں اور پھر بقیہ مہینوں میں خود کے " میں" پر ہی قائم رہتے ہیں ۔ اے اللہ امت کے ہر فرد کو اَنا سے باہر نکل کر خودی کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے دلوں سے اَنا و عِناد کو ختم فرما دے، ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر دے اور ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین۔
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے