غربت میں بھی جینے کا ہنر جانتے تھے ہم
شیخ سعدی کا قول ہے:
خوردن برائے زیستن است
نہ زیستن برائے خوردن
آج تقریباً ہر آدمی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی فکر میں مبتلا ہے مگر شاید بہت کم لوگوں کو اس کا اندازہ ہوگا کہ زیادہ دولت اس وقت آزمائش بن جاتی ہے جب اس کے حقوق و تقاضے پورے نہ کئے جائیں۔شاید بیشتر لوگوں کو یہ بھی فکر نہیں ہے کہ ایسی دولت، برکت سے خالی ہوتی ہے جس کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں۔جیسے ہی ذمہ داری سے مال کے تقاضے پورے ہوتے ہیں ویسے ہی مال میں برکت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی کم دولت میں بھی آسانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اللہ کی برکت کے بغیر دولت سے سکون و اطمینان میسر نہیں ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ان دنوں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔جتنی دولت اتنی پریشانی عام طور پر دکھائی دیتی ہے۔غیر ضروری اخراجات اور فضول خرچی اس کی واضح پہچان ہے۔مہلک بیماریاں بھی عام ہو چکی ہیں۔لہٰذا کم خرچ کو کامیابی کی کنجی بنا کر چلیں، اسی میں دین و دنیا کی کامیابی مضمر ہے۔
کبھی کم آمدنی میں زندگی پر لطف تھی آج امیری میں بھی زندگی بد مزہ لگتی ہے۔ تقریباً نصف صدی پیچھے چلئے اور برکت والی زندگی کو یاد کیجئے۔
"خوردن برائے زیستن" کا دور تھا تو جسم و روح میں ایمانی حلاوت کا سرور بھی تھا۔ گھر گھرانہ خوشیوں سے لبریز تھا۔ گھر میں ایک کمانے والا اور درجنوں افراد کھانے والے پھر بھی کسی کو کوئی شکایت نہیں تھی۔آج " زیستن برائے خوردن" کے دور میں کئی افراد کمانے والے پھر بھی برکتوں سے خالی گھر اور ہر فرد شکایتوں کا بھنڈار نظر آتا ہے۔ آمدنی کم تھی مگر خالص اور برکتوں سے بھر پور تھی، شاید اسی لئے آنگن میں خوشیاں رقص کیا کرتی تھیں۔ کھانا خالص اور حلال تو مہلک بیماریاں بھی کم تھیں۔ تربیت ایسی کہ پریشانیاں بھی پریشان نہیں کرتی، بلکہ ان سے لڑنا سکھاتی تھیں۔آج ذرا سی پریشانی پر طعن تشنہ اور بے صبری کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ کھانے میں ایک سے دوسرا سالن بننا اچھی آمدنی کی پہچان ہوا کرتی تھی اور آج دسترخوان پر مزیدار کھانے کی بھر مار نہ ہو تو سماج میں ہنسی اڑ جانے کا ڈر کھائے جاتا ہے۔ شادی کی دعوت میں پلاؤ، گوشت ( وہ بھی مادر کفارکا )، دہی کا مٹھہ، خاص لوگوں کے لئے چھوٹی کٹوری میں مرغ کا ایک قورمہ اور میٹھا کے نام پر ذردہ کافی ہوا کرتا تھا جبکہ آج ٹیبل پر درجنوں قسم کے کھانے، پھر بھی سماجی دباؤ میں کمی کا احساس باقی رہتا ہے۔آج ہم سب کچھ کھا رہے ہیں پھر بھی جسم بیماریوں کا بھنڈار اور دماغ غلاظتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
یہ بھی یاد کیجئے کہ تقریباً ہر اوسط فیملی میں ایک ہی تھان سے عید کے کپڑے بنتے اور سبھی پہن کر خوشی خوشی ایک رنگ ہو جاتے تھے۔ کسی کے ذہن میں شکایت کا گمان بھی نہیں ہوتا بلکہ سب خوشی سے اتراتے پھرتے تھے۔آج تقریباً اوسط گھروں میں ہر فرد کے پاس کم و بیش درجنوں کپڑے، پھر بھی نئے کپڑوں کی چاہت برقرار رہتی ہے۔عورتوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کا کیا کہنا، گودریج الماری بھی شرما جائے۔مرد حضرات بھی کم از کم ایک درجن جوڑے ہر وقت موجود رکھتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔فضول خرچ شیطان کا بھائی ہے، پھر بھی زندگی فضول خرچیوں سے بھری پڑی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائی میں والد کے ساتھ مینا بازار سے تقریباً 1000 روپیے میں مہینے بھر کا راشن کا سامان لے آتے تھے۔میں خود کہتا تھا کہ جو 5000 روپیہ ماہانہ کمالے تو ہر طرح سے ایک اعلیٰ درجہ کی زندگی کے لئے کافی ہو جائے مگر مجھے آج خود یہ ایک کہانی لگتی ہے۔روپے کی قیمت ایسی گری کہ 50 روپے 500 روپے کے برابر معلوم پڑتا ہے۔حالانکہ آج بھی جائز کھانے پینے پر کم ہی خرچ ہوتا ہے اور دیگر فضول چیزوں پر بہت زیادہ، واللہ اعلم۔ مہنگائی کے باوجود خوبصورت اور مزین گھر تیزی سے بن رہے ہیں۔متوسط درجہ کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن اخلاقی قدریں لگاتار گھٹتی جارہی ہیں۔
گزشتہ صدی تک گھروں میں بس اتنا سامان ہوا کرتا تھا جتنا زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے۔ آج تقریباً اوسط درجے کا ہر گھر سہولیات کے نام پر سامان سے بھرا پڑا ہے۔ نتیجتاً تن آسانی کی وجہ سے سینکڑوں بیماریاں ہم پر مسلط ہو چکی ہیں۔یاد کیجئے لالٹین کے دور سے ایئر کنڈیشن کے دور تک کے سفر میں ہماری زندگیوں میں بے شمار سہولیات بڑھیں، تو ان گنت بیماریاں بھی بڑھیں۔نتیجہ کچھ بھی ہو اب کوئی کم سامان کے ساتھ زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ موسم، آمدنی اور حالات کے مطابق زندگی کو آسان بنانے کا سب کو حق ہے لیکن تمام تر بیجا سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
وہ دن بھی یاد کیجئے جب رشتے ناطوں کا ڈور ایسا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ ہر خوشی و غم میں پورا خاندان ایک جگہ حاضر رہتا تھا، مگر آج دنیا کی چکا چوندھ میں کسی کو فرصت ہے نہ الفت۔ اب تو دوسروں کی خوشی وغم سے باخبر رہنا بھی ایک احسان کی بات بن گئی ہے، الا ماشاءاللہ۔اب تو صاحب حیثیت رشتہ دار بھی کمزور رشتہ داروں کی پریشانی سے دور رہنا چاہتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کے کام آنا پڑے۔ امیر اس وقت بھی تھے لیکن غربت پر حاوی نہیں تھے، ان کا مذاق نہیں اڑاتے بلکہ ان کے معاون تھے۔ان دنوں لگ بھگ تمام انسانی رشتوں کے بیچ دوریاں بڑھ گئی ہیں۔
نئی نسل تو کہتی ہے کہ یہ سب کہانیاں ہیں۔ پتہ نہیں آپ لوگوں نے کیسی زندگی گزاری ہے..! ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی کم سہولتوں کے ساتھ زندگی گزر سکے۔ دراصل ان کی اس سوچ کے ذمہ دار بھی وہی والدین ہیں جنہوں نے غربت میں تربیت پائی تھی مگر اپنے بچوں کی تربیت نہ کرسکے۔ ہم نے انہیں صبر و قناعت کی تعلیم ہی نہیں دی ہے۔مال کی زیادتی اور آرام دہ زندگی کا حصول نئی نسل کا خاصہ بن چکا ہے۔ موجودہ دور میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بدتر سے بہتر زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔حالانکہ حقیقتاً ہم بہتر سے بدتر کی طرف گامزن ہیں اور اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔زندگی میں سہولت کے سامان تو بڑھے لیکن انسانی جسم بیماریوں کا گھر بن گیا۔کینسر جیسی مہلک بیماریاں شاید تن آسانی کا ہی نتیجہ ہے۔ہر بچے کی آنکھوں پر عینک تو اب عام بات ہو گئی ہے۔
آج 7 اکتوبر 2023 سے جاری فلسطین اسرائیل کی جنگ کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ جو فلسطینی تمام سہولیات کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے آج وہ پریشان حال ہیں۔اس لئے سہولیات زندگی کو اوڑھنا نہ بنائیں بلکہ پریشان حال لوگوں کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو بھی پورا کریں۔ضرورت سے زیادہ سہولیات کو زندگی کی کمزوری نہ بنائیں۔یاد رہے کہ ضرورت سے زیادہ آسانیاں زندگی کو کمزور بناتی ہیں، بیماریاں لاتی ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ ایک دن ساری سہولیات زندگی چھوڑ کر چل دینا ہے۔ان سہولیات کا کیا استعمال کیا، اس کا جواب بھی دینا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے نمونہ عمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم امیروں کے بھی رسول تھے، اور غریبوں کے بھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں دونوں چیزیں ملتی ہیں، امیری بھی اور غریبی بھی، تاکہ امیر و غریب ہر امتی اپنی غربت اور مالداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر سکے، ورنہ حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زمین و آسمان کے تمام خزائن پیش کیے گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمائے، وہ چاہتے تو دنیا کے سب سے امیر ترین انسان بن سکتے تھے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا۔
علاوہ ازیں احادیث کی کتب میں کئی صحیح احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفقر سےاللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے، اور امت کو ترغیب دی ہے کہ وہ بھی فقر سے پناہ مانگیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مالداری سے پناہ مانگنا بھی ثابت ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں، بنیادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور مالداری سے پناہ نہیں مانگی، بلکہ فقر کے شر اور مالداری کے شر سے پناہ مانگی ہے، جیساکہ صحیح روایت میں موجود ہےکیوں کہ فقر کا شر انسان کو ذلت و رسوائی اور کفر تک لے جاتا ہے جبکہ مالداری کا شر سرکشی، نا فرمانی اور تکبر کی طرف لے جاتا ہے۔
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کو ضرورت سے زیادہ سہولیات سے بچا کر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کی پریشانیوں سے پاک کردے اور ہمیں برکتوں والی زندگی عطا فرما، آمین۔
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373
0 تبصرے