Ticker

6/recent/ticker-posts

آسمان صحافت کا خورشید تاباں غروب ہوا

آسمان صحافت کا خورشید تاباں غروب ہوا


مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ

پھریرا بدن، وجیہ چہرہ، رعب دار آنکھیں، کٹ داڑھی، سر پر لمبے لمبے بال، ضعف کی وجہ سے ہلکی سی خم کمر، آواز میں گرج، زبان میں سلاست، بلا کی ذہانت، فکر مستقیم کا علمبردار، آسمان صحافت کا خورشید تاباں عالی جناب خورشید پرویز صدیقی مرحوم 9/1/25 کو راہئ دیار غرب ہوئے۔ مرحوم کی رخصت سے جھارکھنڈ کی صحافت میں ایک ناقابل تلافی خلا پیدا ہوگیا۔

خورشید پرویز صدیقی صاحب

خورشید پرویز صدیقی صاحب نے صحافتی میدان جس بے باکی کے ساتھ خدمات انجام دیں یہ انہیں کی خصوصیت تھی، خورشید پرویز صدیقی نے 1944 میں غلام بھارت میں آنکھیں کھولی، بڑے ہوئے تو دل میں چھپی چنگاری کو شعلہ بنانے کیلئے قلم کا سہارا لیا اور اس شعلہ کو عوام میں پہچانے کیلئے روز نامہ.. سنگم۔۔ جو پٹنہ سے نکلنے والا مشہور اخبار تھا منسلک ہوئے۔ خوب تیور بکھیرے، لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی چنانچہ رانچی جھارکھنڈ میں شفٹ ہوئے اور یہاں کے مقبول ترین اخبار۔۔ فاروقی تنظیم۔۔ کے اداریہ کی ذمہ داری سنبھالی پھر کیا تھا لکھنا شروع کیا اور خوب لکھے، حق بیانی اور بے باکی کی مثال قائم کردی، حکومت پر بھی تنقید سے باز نہیں آئے قلم سے تیر برساتے رہے، آپ کا اداریہ عوام و خواص میں بہت مقبول ہوا قریب تیس سال تک قلم سے گیسوئے اردو کو سنوارا۔

خورشید پرویز صدیقی کا قلم بے تکی باتیں لکھنے کا عادی نہیں تھا بلکہ الفاظ کے ساتھ ساتھ عنوان تحقیقی اور معلومات سے پر ہوتی، جس عنوان پر بھی قلم چلایا اس کی تہوں میں اتر کر لکھے اور ہر بات صاف و شفاف آئینہ کی طرح عیاں کرکے رکھ دیا، ذہن محققانہ تھا جہاں سکونت اختیار کی وہاں کی تاریخ بھی لکھ ڈالی۔

یکم دسمبر 2024 کو رانچی سرتاج ہوٹل میں۔۔ پروفیسر احمد سجاد شخصیت و کارنامے۔۔ کے عنوان سے ایک پروگرام تھا جس میں راقم الحروف بھی مدعو تھا خوشی کی بات یہ رہی کہ اسی پروگرام میں خورشید پرویز صدیقی صاحب بھی مدعو تھے، خوشی کی انتہا نہ رہی حالانکہ ان کی تحریریں پہلے میری نظروں سے گزر چکی تھیں اور خاص طور پر۔۔ سیرت پر ان کا مجموعہ۔۔ بعد از خدا بزرگ توئی۔۔ مجھ تک پہنچ چکی تھی، میں ہال میں بیٹھا تھا کہ اچانک بیساکھی کے سہارے ہال میں داخل ہوئے چہریث میرے لئے غیر شناسا تھا لیکن شخصیت عیاں تھی اپنے بغل والے سے پوچھا تو بتایا کہ خورشید پرویز صدیقی صاحب ہیں، میں اٹھا اور مصافحہ کیا، خندہ پیشانی سے ملے علیک سلیک ہوا تھوڑا سا تعارف بھی ہوا، بعد میں ان کا خطاب بھی ہوا، جملے سے ان کی قابلیت اور تحقیقی ہنر ظاہر تھا، یہ میری آخری ملاقات تھی۔ کون جانتا تھا کہ اردو کا یہ خادم ہمیشہ کیلئے ایک ہی ملاقات کے بعد رخصت ہو جائے گا۔ لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔

امراض قلب میں مبتلا ہوئے، تقریباً ایک مہینہ ہاسپٹل میں رہے، وصال سے ایک دو دن پہلے افاقہ ہوا اور گھر چلے آئے لیکن مرض نے پھر دستک دی جانبر نہ ہوسکے، اور ہسپتال ہی میں جان جان آفریں کے سپرد کر دی،
اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے،
ان کی ادبی کاوشوں کو قبول فرماکر ذریعہ نجات بنائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے