Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ: گمراہی کی قیمت - Gumrahi Ki Qeemat Urdu Story

افسانہ: گمراہی کی قیمت

غلام جیلانی قمر


غلام جیلانی قمر
خیرا، بانکا (بہار)

فہمیدہ، ایک معصوم کلی تھی جس نے ابھی دنیا کے نشیب و فراز نہ دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک نمایاں تھی۔ ذہانت اور محنت اس کی فطرت میں خون کی طرح رچی بسی تھی۔ اس کے والد، ایک خاموش طبع معلم، اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے جیسے کسی گہرے کنویں میں اترا ہوا پانی، جبکہ بڑا بھائی، نادر جمال، ریلوے کی معمول کی زندگی میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ اس کی غیر معمولی ذہانت نے والدین کی آرزوؤں کو پروان چڑھایا، جہاں وہ اسے ایک کامیاب ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ گھر میں فہمیدہ، اس کا بھائی نادر جمال اور ان کی والدہ رشیدہ بیگم کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ رشیدہ بیگم، ایک ایسی دیندار خاتون تھیں جن کا دل نورِ ایمان سے منور تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ فہمیدہ کو طب کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے دین کی تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ مگر بھائی اور والد اس خیال کو محض وقت کا ضیاع اور پرانی سوچوں کا بوجھ سمجھتے تھے۔ فہمیدہ کی غیر معمولی ذہانت اور اسے ڈاکٹر بنانے کا مشترکہ خواب بالآخر ان تمام تحفظات پر غالب آ گیا، اور یوں اس کا داخلہ ممبئی کے ایک نامور میڈیکل کالج میں کرا دیا گیا۔

ممبئی کا میڈیکل کالج اس کے لیے ایک بالکل نیا جہان تھا، جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ممبئی کی رنگینیوں نے فہمیدہ کی آنکھوں کے سامنے ایک نیا پردہ سرکا دیا تھا۔ اگرچہ اس کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانے سے تھا، مگر بیرونی دنیا کی رنگینیوں سے وہ یکسر ناواقف تھی۔ کالج کے نئے ماحول میں اسے اکثر اپنے گھر اور اپنوں کی یاد ستاتی، اور تنہائی کا احساس اسے گھیرے رہتا، جیسے کوئی اَن جانی پرچھائی اس کا پیچھا کر رہی ہو۔ مگر وہ ان جذباتی لہروں کو دبا کر اپنے مقصد پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتی۔

کالج میں فہمیدہ کے قدم جمنے لگے تھے۔ وہ اپنی پڑھائی میں محو رہتی، اکثر تنہائی کا انتخاب کرتی۔ اس کی سادگی اور مشرقی حیا اس مغربی ماحول میں ایک انوکھی خوشبو کی طرح تھی جو ہر خاص و عام کی نظروں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ بہت سے لڑکے اس کی طرف مائل ہوئے، مگر فہمیدہ کی نظریں صرف اپنے مقصد پر جمی تھیں۔

کالج کے چند دن گزرے تو فہمیدہ کی توجہ راہل کی طرف گئیں۔ راہل، جو اپنی دلکش شخصیت اور نمایاں ذہانت کے باعث پورے کالج میں مرکزِ نگاہ بنا رہتا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک خاص کشش تھی، اور اس کی باتوں میں ایک ایسا سحر جو سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ فہمیدہ نے اسے ایک ذہین اور باوقار طالب علم سمجھا۔ راہل کی نظر کسی شیشے کی مانند شفاف دل پر پڑ چکی تھی جو اسے اپنے فریب کے لیے آسان دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے فہمیدہ سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں پہل کی۔ وہ اکثر اس سے پڑھائی کے بارے میں پوچھتا، نوٹس کا تبادلہ کرتا، اور کبھی کبھار کسی موضوع پر بحث بھی کرتا۔ اس کی باتوں میں مٹھاس اور اس کے رویے میں خلوص جھلکتا تھا۔ فہمیدہ کو اس کی توجہ اچھی لگتی اور وہ اسے ایک اچھا دوست سمجھنے لگی۔ راہل کی نظریں فہمیدہ کی ذہانت اور اس کے اچھے خاندانی پس منظر پر تھیں۔ اس نے محسوس کیا کہ فہمیدہ ایک معصوم اور حساس لڑکی ہے جسے آہستہ آہستہ اپنے دامِ فریب میں پھنسایا جا سکتا ہے۔

کالج میں ان کی قربت بڑھتی گئی۔ وہ لائبریری میں ایک ساتھ پڑھتے، کینٹین میں چائے پیتے اور کبھی کبھار کالج کے بعد بھی کچھ دیر ساتھ گھومتے۔ راہل ہمیشہ فہمیدہ کی تعریف کرتا، اس کی رائے کو اہمیت دیتا اور اس کی تنہائی میں اس کا سہارا بنتا۔ فہمیدہ کو محسوس ہوتا کہ راہل اسے سمجھتا ہے اور اس کی پرواہ کرتا ہے۔

کالج میں فہمیدہ اور راہل کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید گہرے ہوتے گئے۔ وہ اب اکثر ایک ساتھ وقت گزارتے، پڑھائی کرتے اور اپنی رائے کا تبادلہ کرتے۔ ایک سہ پہر، جب وہ لائبریری سے نکل رہے تھے، راہل نے فہمیدہ سے رکنے کو کہا۔ "فہمیدہ،" اس نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا، "دراصل، اس ہفتے میری سالگرہ ہے۔ میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کر رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تم ضرور آؤ۔ تم میرے لیے ایک اچھی دوست ہو، اور تمہاری موجودگی میرے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔"

فہمیدہ، راہل کی اس دعوت پر ہلکی سی مسکرائی۔ اسے خوشی ہوئی کہ راہل نے اسے اپنی خاص تقریب میں یاد رکھا۔ "ضرور راہل، میں ضرور آؤں گی۔ سالگرہ مبارک پیشگی!" اس نے دوستانہ انداز میں کہا۔

تین دن بعد، راہل نے اپنی سالگرہ کی ایک شاندار تقریب منعقد کی جس میں کالج کے بیشتر طلباء شریک تھے۔ فہمیدہ بھی وقت پر وہاں پہنچ گئی۔ محفل میں فہمیدہ اور راہل کو ایک ساتھ گھلتے ملتے دیکھ کر کالج کے لڑکوں میں یہ افواہ پھیلنے لگی کہ ان کے درمیان صرف دوستی سے بڑھ کر کوئی گہرا تعلق ہے۔ فہمیدہ، اپنی سادگی میں، ان باتوں سے بے خبر رہی، لیکن راہل کی قربت اسے ایک انجانی کشش ضرور محسوس ہوتی تھی۔

ایک دن، جب فہمیدہ اپنے گھر کی یاد میں گم تھی، راہل نے اسے کالج کے سبزہ زار میں ایک بینچ پر تنہا بیٹھے دیکھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور اس کے قریب جا کر پوچھا، "فہمیدہ، کیا بات ہے؟ تم اتنی پریشان کیوں ہو؟" فہمیدہ نے، راہل کو ایک ہمدرد دوست سمجھ کر، اپنے دل کی بات کہہ دی۔ راہل نے اسے تسلی دی اور کہا کہ اگر یہاں اس کے گھر والے نہیں ہیں تو وہ ہے نا، اسے اپنا سمجھ لے، ان الفاظ میں ایک پوشیدہ لالچ اور فریب کارانہ تسکین تھی۔ راہل نے محسوس کیا کہ فہمیدہ اب اس پر بھروسہ کرنے لگی ہے۔ اس اعتماد کو پختہ کرنے کے لیے، راہل نے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ وہ فہمیدہ کو ہر موڑ پر یہ احساس دلاتا کہ وہ اس کے لیے کتنا خاص ہے، اس کی تنہائیوں کا ساتھی اور اس کے خوابوں کا محافظ ہے۔ وہ کالج کی مصروفیات کے بعد بھی اکثر ایک ساتھ وقت گزارتے، شہر کی سیر کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات بانٹتے۔ ان ملاقاتوں کے دوران، راہل کی باتوں میں ہمیشہ ایک دھیمی سی رومانیت چھپی رہتی تھی، جو فہمیدہ کے دل میں ایک انجانی مٹھاس گھولتی جاتی۔ فہمیدہ، جو ابھی دنیا کے داؤ پیچ سے ناواقف تھی، اسے اپنی زندگی کا سب سے سچا اور ہمدرد دوست سمجھنے لگی تھی، آہستہ آہستہ یہ دوستی محبت کے دھارے میں بدلنے لگی، اور فہمیدہ کا معصوم دل پوری طرح سے اس کے سحر میں جکڑا جا چکا تھا، اسے یہ ادراک ہی نہ تھا کہ وہ کن گہری سازشوں کا شکار ہو رہی ہے۔ ایک شام، کالج کے بعد جب وہ اکٹھے چائے پی رہے تھے، راہل نے فہمیدہ کی آنکھوں میں دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ اسے ایک خاص دوست سے بڑھ کر سمجھتا ہے۔ اس نے فہمیدہ کی سادگی اور معصومیت کی تعریف کی اور اشاروں کنایوں میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ فہمیدہ، جو پہلے ہی اس کی طرف مائل ہو رہی تھی، اس کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے بھی اپنے دل میں راہل کے لیے ایک نرم گوشہ محسوس کیا، جسے اس نے غلطی سے محبت سمجھ لیا۔ راہل نے صورتحال کو اپنے حق میں پایا اور اپنی کوششیں مزید تیز کر دیں۔ اب وہ اکثر ایک ساتھ وقت گزارتے، فلمیں دیکھتے اور مستقبل کے سہانے سپنوں کی باتیں کرتے۔

اب فہمیدہ اور راہل کے درمیان وقت بڑی تیزی سے گزرنے لگا۔ فہمیدہ اس کی صحبت میں کھوئی رہتی، مستقبل کے رنگین خواب بُنتی اور زندگی کے حسین منصوبے سجاتی، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ راہل کے دماغ میں ان خوابوں سے متعلق کچھ اور ہی گردش رہا ہے۔ فہمیدہ اگرچہ راہل سے محبت کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایک مستقبل کی امید لگائے بیٹھی تھی، لیکن گھر والوں کی ناراضگی اور سماجی بندھنوں کا خیال کبھی کبھی اس کے دل میں ایک انجانی بے چینی پیدا کر دیتا تھا۔ راہل بظاہر اس کے ساتھ تھا، لیکن اس کے ذہن میں فہمیدہ کے ساتھ ایک سچے تعلق کے بجائے دیگر دنیوی فوائد کا تصور زیادہ نمایاں تھا۔ یوں ہی دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے کالج کا آخری سال قریب آ پہنچا۔ فہمیدہ کے دل میں مستقبل کے لیے ایک خاص جوش و خروش تھا، وہ اپنے ڈاکٹر بننے اور راہل کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی، لیکن ایک مبہم سا خوف بھی اس کے اندر موجود تھا۔ کالج کا آخری سال آ گیا، اور جدائی کی گھڑی قریب تھی۔ اسی دوران، وہ شام ایک یادگار شام تھی، جب ممبئی کے سمندر کنارے، سورج اپنی آخری کرنوں کے ساتھ افق پر غروب ہو رہا تھا اور ہوا میں نمکین سی تازگی رچی تھی، جس سے ماحول میں ایک دلکش رومانیت گھل گئی تھی۔ راہل نے فہمیدہ کا ہاتھ تھامے، اس کی آنکھوں میں گہرائی سے دیکھا اور پھر دھیمے، محبت بھرے لہجے میں شادی کی تجویز پیش کر دی۔

تجویز سن کر فہمیدہ کے دل میں محبت کی ایک شیریں لہر ضرور اٹھی، مگر عین اسی لمحے اس کے اندر ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا، جہاں خواب اور حقیقت ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ اس نے ایک لمحے کے لیے راہل کی آنکھوں میں جھانکا، جہاں اسے دنیا بھر کی دلکشی نظر آئی، پھر اپنی نظریں جھکا کر ایک ٹھنڈی سانس لی اور دھیمے، لرزتے لہجے میں کہا، 'راہل، یہ تم بھی جانتے ہو کہ ہمارے لیے یہ راستہ کتنا کٹھن ہے، یہ دو مختلف دنیاؤں کا سفر ہے۔ ہمارے گھر والے اسے کبھی قبول نہیں کر پائیں گے، ہماری بنیادیں ہی الگ ہیں۔ پھر اس کے بعد معاشرے کی نظروں میں ہماری کیا حیثیت رہ جائے گی؟ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا ہم کبھی اس دیوار کو گرا سکیں گے جو ہمارے درمیان حائل ہے؟ اور اگر خدا نخواستہ، اس راستے پر چلتے ہوئے تم نے مجھے بیچ منجھدار میں اکیلا چھوڑ دیا تو میں کہاں جاؤں گی؟ میری تو دنیا تم سے شروع ہو کر تم پر ہی ختم ہوتی ہے، تمہاری جدائی کا تصور بھی میری سانسیں روک دیتا ہے اور مجھے زندگی سے بے زار کر دیتا ہے۔ لیکن میرے اپنے عقائد اور میرے گھر والوں کی عزت، میری سب سے بڑی مجبوری ہے۔'

راہل نے فہمیدہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا، اس کی آنکھوں میں گہرائی سے دیکھتے ہوئے جھوٹی تسلی کا ایک نیا جال بُنا۔ اس کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی جو ہر شک کو پگھلا دے، 'فہمیدہ، میری جان! تمہاری یہ ساری پریشانیاں بے بنیاد ہیں۔ کیا تمہیں میری محبت پر اتنا بھی بھروسہ نہیں؟ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا، یہ میرا وعدہ ہے، میری زندگی کی قسم! ہم ایک ایسی دنیا بسائیں گے جہاں صرف ہماری محبت کی حکمرانی ہو گی، جہاں کوئی دیوار حائل نہیں ہو گی، کوئی رسم ہمیں روک نہیں سکے گی۔ میں تمہارے لیے ہر حد پار کر جاؤں گا، دیکھنا ایک دن تمہارے گھر والے بھی ہماری محبت کے سامنے سر جھکا دیں گے، یہ معاشرہ بھی ہمیں تسلیم کرے گا۔ ہم ایک حسین اور خوشحال مستقبل بنائیں گے، جس کی مثال دنیا دے گی۔ وہ اسے سنہرے مستقبل کے ایسے دلکش خواب دکھانے لگا،حالانکہ اس کے دل میں محبت کے نام پر کچھ اور ہی منصوبے پنپ رہے تھے۔

فہمیدہ اس کی باتوں میں آ گئی اور اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کورٹ میرج کرنے پر اڑ گئی۔

کورٹ میرج کے بعد فہمیدہ نے اپنے گھر والوں سے دوری اختیار کر لی، جس کا اسے گہرا دکھ تھا۔ لیکن راہل کی محبت کے سہارے اس نے ایک نئی زندگی کی امید باندھ لی تھی۔ شادی کے ابتدائی چند مہینے خوشگوار گزرے۔ راہل، جس نے کالج کے بعد کچھ عرصے تک عارضی کام کیے تھے، اب اپنی کیریئر کو سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ شادی کے تقریباً چھ ماہ بعد اسے ایک نجی کمپنی میں بہتر تنخواہ والی نوکری مل گئی۔ یہ نیا دفتر نئے ماحول کا حامل تھا، جہاں مختلف مزاج اور خیالات کے لوگ کام کرتے تھے۔

اسی دفتر میں راہل کی ملاقات "ریما" سے ہوئی۔ ریما، جو اسی کے شعبے میں کام کرتی تھی، انتہائی حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مالدار گھرانے سے بھی تعلق رکھتی تھی، ایک بااثر اور خود اعتماد خاتون ریما کا جدید اندازِ گفتگو، کام کرنے کا پیشہ ورانہ طریقہ اور زندگی کو بے باکی سے جینے کا سلیقہ راہل کو بہت متاثر کرتا تھا۔ دفتر میں ساتھ کام کرنے کے دوران، کام کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت کے علاوہ لنچ بریک میں اور کبھی کبھار کام کے بعد بھی راہل اور ریما کے درمیان دوستانہ تعلقات بڑھنے لگے۔ ریما کی باتوں میں ایک ایسی کشش تھی جو راہل کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ فہمیدہ کی سادگی اور گھریلوپن کے مقابلے میں ریما کی دنیا داری راہل کو زیادہ پرجوش اور اپنے کیریئر کے لیے فائدہ مند محسوس ہونے لگی۔ راہل ریما کی طرف نہ صرف اس کی جسمانی کشش کی وجہ سے راغب ہو رہا تھا، بلکہ اس کے مال و دولت نے بھی اس کے دل میں ایک لالچ کی آگ بھڑکا دی تھی۔

راہل اب گھر پر بھی کم ہی توجہ دیتا۔ دفتر کی مصروفیات کا بہانہ کر کے وہ دیر سے آتا اور تھکا ہوا ہونے کا کہہ کر فہمیدہ سے زیادہ بات نہیں کرتا۔ فہمیدہ جب اس سے اپنے دن کے بارے میں یا مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتی تو وہ ٹال مٹول کرتا یا پھر کسی کام کا بہانہ بنا دیتا۔ فہمیدہ اس تبدیلی کو محسوس کر رہی تھی اور اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی، جیسے کوئی پھول پانی کے بغیر مرجھا رہا ہو۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک راہل اتنا بدل کیوں گیا ہے۔ کیا اس کی محبت اتنی کمزور تھی کہ ایک نئے ماحول اور ایک نئی شناسائی کے سامنے ماند پڑ گئی تھی؟

ریما کے ساتھ دفتر میں بڑھتی ہوئی قربت نے راہل کے دل میں فہمیدہ کے لیے وہ جذبہ کم کر دیا جو کبھی بے پناہ تھا، گویا ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا ہو۔ ریما کی موجودگی نے اسے ایک نئی دنیا کا احساس دلایا، ایک ایسی دنیا جو فہمیدہ کی سادہ زندگی سے بالکل مختلف تھی اور جس میں اسے اپنے کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی نظر آتے تھے۔ اس تبدیلی نے راہل کے ذہن میں فہمیدہ سے دوری اختیار کرنے اور ریما کے ساتھ ایک مختلف مستقبل کے خواب دیکھنے کی خواہش پیدا کر دی تھی۔

اب ان کے درمیان جھگڑے ہونے لگے، جو پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ راہل اب فہمیدہ سے بیزار رہنے لگا تھا، جیسے کوئی بوجھ اتار رہا ہو۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی تھی جو کبھی فہمیدہ کے لیے ہوا کرتی تھی۔ اس کی توجہ اب کسی اور کی طرف مبذول ہو چکی تھی۔ فہمیدہ اس تبدیلی کو محسوس کر رہی تھی اور اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی، اس کا دل ہزار ٹکڑوں میں بٹ رہا تھا۔ راہل اب اس سے کئی کئی دن بعد ملتا، اور جب ملتا بھی تو باتیں خشک اور بے روح ہوتیں۔ فہمیدہ اس سرد مہری سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، جیسے کوئی شیشہ ریزہ ریزہ ہو گیا ہو۔ اس نے کئی بار راہل سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھنے کی کوشش کی، لیکن راہل ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا۔ فہمیدہ کے دل میں ایک انجانا خوف ڈیرے ڈالنے لگا تھا۔

راہل کے ذہن میں فہمیدہ سے چھٹکارا پانے کا خیال جنم لے رہا تھا۔ وہ ریما کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا اور فہمیدہ اب اس کے راستے کی ایک بھاری زنجیر تھی۔ اس نے ایک خوفناک منصوبہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ فہمیدہ اب بھی اس پر اندھا اعتماد کرتی ہے، جیسے کوئی پتھر پر لکھا نقش ہو، اور وہ اس اعتماد کا فائدہ اٹھائے گا۔

شادی کی پہلی سالگرہ قریب تھی۔ راہل نے فہمیدہ سے اس دن کو یادگار بنانے کے لیے کشمیر جانے کی تجویز پیش کی۔ "فہمیدہ، ہماری پہلی سالگرہ ہے، کیوں نہ ہم کشمیر چلیں؟ وہاں کا موسم بہت خوبصورت ہوتا ہے، اور یہ ہمارے لیے ایک رومانوی سفر ہوگا!" اس کی باتوں میں وہ مٹھاس لوٹ آئی تھی جو کبھی فہمیدہ کو دیوانہ بنا دیتی تھی۔ فہمیدہ، جو اس کی بے رخی سے اداس رہتی تھی، اس اچانک محبت بھرے رویے سے حیران اور خوش ہو گئی۔ اسے لگا کہ شاید راہل کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ اب سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں ایک ہلکا سا شک بھی موجود تھا، ایک بے چینی جو اسے اس اچانک تبدیلی پر پوری طرح یقین کرنے سے روک رہی تھی۔

راہل نے کشمیر کے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ وہ پرجوش نظر آ رہا تھا، فہمیدہ کے لیے تحائف خرید رہا تھا اور ان کے گھومنے پھرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ فہمیدہ اس تبدیلی پر یقین نہیں کر پا رہی تھی، لیکن اس نے اپنے دل میں امید کی ایک کرن محسوس کی۔ اسے کیا خبر تھی کہ یہ سب ایک بھیانک فریب ہے، اور راہل اس خوبصورت وادی کو اس کی ابدی نیند گاہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ جنت نظیر وادی اپنی سکون اور خوبصورتی کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے تیار تھی، بے خبر کہ یہاں ایک معصوم روح ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی جائے گی، جیسے کوئی شمع بے وقت بجھ جائے۔

کشمیر پہنچ کر راہل نے فہمیدہ کو مختلف پرسکون اور دلکش مقامات پر گھمایا۔ وہ بظاہر بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہا تھا۔ فہمیدہ بھی اس کے بدلے ہوئے رویے سے مطمئن تھی اور اپنے دکھوں کو بھول چکی تھی۔ ایک شام، جب وہ ایک تنہا اور پرفضا مقام پر پہنچے، جہاں دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا، راہل نے فہمیدہ کو ایک گہری نظر سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ پیار نہیں تھا جو فہمیدہ ڈھونڈ رہی تھی، بلکہ ایک سرد اور سفاک عزم تھا۔ فہمیدہ نے اس نگاہ میں ایک لمحے کے لیے خطرے کی جھلک دیکھی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی، سب کچھ ختم ہو گیا۔

فہمیدہ راہل کے ساتھ کشمیر تو گئی، لیکن واپس نہیں آئی۔ اس کی لاش برف پوش پہاڑوں میں خاموشی سے دفن کر دی گئی، اس کی زندگی ایک بے رحم دھوکے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جب فہمیدہ کے گھر والوں کو اس المناک خبر ملی تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کا وہ خواب چکنا چور ہو گیا جو انہوں نے اپنی ہونہار بیٹی کے لیے دیکھا تھا۔ پولیس نے تحقیقات شروع کی اور جلد ہی راہل کو گرفتار کر لیا گیا۔

لیکن اس المناک قتل کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ صرف راہل ہے، جس نے اپنی مکاری اور فریب سے اس کی زندگی چھین لی؟ یا کیا ان حالات نے بھی اس جرم میں شریک کردار ادا کیا جنہوں نے فہمیدہ کو اس بنیادی بصیرت سے محروم رکھا جو اسے صحیح اور غلط کی تمیز سکھاتی؟ کیا اس کی دینی تعلیم اور تربیت سے دوری، جس نے اسے جائز اور ناجائز رشتے کی پہچان سے محروم کر دیا، بالواسطہ طور پر اس قتل کا سبب نہیں بنی؟ ایمان کی روشنی سے دور، وہ دنیا کے دھوکے میں آسانی سے آ گئی، لیکن کیا اس کی اس گمراہی کا فائدہ اٹھانے والا اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے والا صرف راہل ہی مجرم ہے؟ آپ کیا سوچتے ہیں؟ اس قتل کا اصل ذمہ دار کون ہے - صرف وہ جس نے خنجر چلایا، یا وہ بھی جنہوں نے اسے اس تاریکی میں تنہا چھوڑ دیا جہاں کوئی روشنی نہ تھی؟ اور کیا اس معاشرے پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس نے فہمیدہ جیسی بے شمار لڑکیوں کو صحیح رہنمائی اور دینی تعلیم سے محروم رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسے بھیڑیوں کا آسان شکار بن جاتی ہیں؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے