Ticker

6/recent/ticker-posts

جنوبی ہندوستان میں اردو کا منظر نامہ

جنوبی ہندوستان میں اردو کا منظر نامہ

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

جب ظلمت کی تاریکی پھیلتی جارہی ہو، ظلم و ناانصافی کی زبردست آندھی کی آہٹ سے فضا لرزہ براندام ہو اور یوں لگ رہا ہو کہ حق اور انصاف کی روشنی سیاسی جبر کے بلیک ہول میں کھونے لگی ہے تو ایسے میں سچائی کی نوید بن کر ماحول میں روشنی کی ہلکی سی کرن بکھیرنے والی موم بتی بھی بہت ہوتی ہے۔ با لکل اسی طرح جس طرح ظلم و جبر کے تپتے ہوئے صحراؤں میں انصاف کی ایک بوند بھی سچ کے پرستاروں کو زندگی کی امید بخش دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ حال بھارت میں اردو بولنے والی آبادی نے محسوس کیا جب اپریل پندرہ تاریخ 2025 کو ہندوستان کی عدالتِ عالیہ سے یہ فیصلہ صادر ہوا کہ "اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی ہے۔ یہ رائے ہی غلط ہے کیونکہ مراٹھی اور ہندی کی طرح اردو بھی ایک ہندوستانی زبان ہے۔ اس زبان نے اسی سرزمین پر جنم لیا ہے۔" عدالتِ عالیہ کا یہ فیصلہ جہاں اردو برادری میں زندگی اور امید کی نئی کرنیں لے آیا وہیں یہ یقین بھی دلا گیا کہ سچائی اور انصاف کو تعصب اور ظلم کے قبروں میں زندہ ہی دفن کیوں نہ کردیا جائے وہ ایک نہ ایک دن باہر آکر اپنے آپ کو منوا کر رہیں گے۔

اردو کے تعلق سے عدالتِ عالیہ کا یہ فیصلہ اردو کے بارے میں جان بوجھ کر سیاسی مفادات کی خاطر پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے اور ساتھ ہی وطن عزیز میں اردو زبان کے موجودہ حالات اور اس کے مسائل پر بحث و مباحثہ کے نئے دروازے کھول گیا ہے، جس سے یہ امید جاگنے لگی ہے کہ اردو بولنے والوں میں اپنے زبان کے مستقبل کو لے کر جو مایوسی پھیل چکی تھی اس میں کمی آئے گی اور وہ پھر سے ایک بار اردو کی ترقی اور ترویج کی کوششوں میں لگ جائیں گے بالخصوص شمالی ہند میں۔ ویسے جنوبی ہندوستان میں اردو بنسبت شمالی ہندوستان کے آج کل کہ نا مساعد حالات میں بھی زندہ اور جوان ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔

وطن عزیز میں اردو بولنے والوں کی کل آبادی کا ایک مختصر فیصد ہی جنوبی ہندوستان میں پایا جاتا ہے، اس میں کی ایک بڑی تعداد تلنگانہ میں بستی ہے پھر کرناٹکا اور آندھرا پردیش کا نمبر آتا ہے، تھوڑی بہت تعداد ٹمل ناڈو میں اور آخر میں کیرلا میں بھی ایک مختصر آبادی اردو بولنے والوں کی موجود ہے۔ جنوبی ہندوستان کے ان پانچوں ریاستوں میں اردو کے تعلق سے فضا کافی ساز گار ہے، یہاں اس بیچاری کو اس قدر تعصب اور سیاسی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے جتنا اسے شمال میں جھیلنا پڑ رہا ہے۔ آزادی اور تقسیم کے بعد سے اردو نے جنوبی ہندوستان میں کافی ترقی کی ہے بنسبت شمالی ہندوستان کے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہاں اس کی راہیں پھولوں سے بھری ہوئی ہیں، یہاں بھی اس کے راستے سخت پتھریلے اور خاردار ہی ہوتے ہیں اور کئی موڑ پر اس کا سامنا ایسی گہری کھائیوں سے بھی ہوتا کہ اگر کسی وجہ سے یہ اس میں گر گئی تو وہی اس کا مدفن بن جائے، پھر بھی یہ باحوصلہ زبان یہاں اپنی الگ پہچان بنا کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں کامیاب ہے۔ علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے کی جانے والی کوششوں میں چاہے وہ ریاستی حکومت کی جانب سے ہو یا خود ہمارے فلاحی یا منافع خوری میں حد سے تجاوز کر جانے والے تعلیمی اداروں ہوں، ان کی جانب سے پہلا اور آسان نشانہ اردو ہی بنتی ہے اور اسی کو صلیب پر چڑھا کر یہ اپنی سیاسی اور معاشی مفادات مضبوط کرتے ہیں۔ پھر بھی بنسبت شمالی ہندوستان کے جنوب میں اردو ایک مضبوط زبان کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہے۔ اگر تفصیلی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اردو جنوب کے پانچوں ریاستوں میں برگد کے پیڑ کی طرح پھیلی ہوئی ہے جس کے سائے کی ٹھنڈک سے نہ صرف اس کے بولنے والے مستفیظ ہوتے ہیں بلکہ علاقائی زبانوں کی زمینوں پر بھی وہ چھائی ہوئی ہے اور اس کی جڑیں ان کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہیں۔

کیرلا جنوبی ہندوستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی ریاستی سرکاری زبان ملیالم ہے اور یہی یہاں کی کل آبادی کی بلا تفریق مذہب وملت، ذات پات، مادری زبان ہے۔ سرکاری ریکارڈس میں اردو بولنے والوں کی تعداد یہاں چند ہزار ہی بتائی جاتی ہے لیکن جس حساب سے یہاں اردو کے اسکولس اور ادبی ادارے موجود ہیں انہیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اعدادو شمار صحیح ہوں گے۔

کیرلا میں اردو کی آمد چودھویں صدی کے دوران ہوئی جب یہ ہندوی اور دکنی وغیرہ کے نام سے جانی جاتی تھی اور آگے چل کر دکن کے بہمنی اور عادل شاہی سلاطین کے دور میں اور پھر اٹھارویں صدی میں ٹیپو سلطان کے دور میں اردو نے یہاں کافی ترقی کی۔ ان سلطنتوں کے علاوہ آرکاٹ کے نوابوں، کاروبار کے لئے آنے والے کچی میمن خاندانوں، مذہبی صوفیوں اور کاثرگوڈ کے حنفیوں نے اور انیسویں صدی کے اواخر میں ریاست میں کھلنے والے عربی مدارس نے بھی یہاں اردو کی ترویج میں بڑا کردار ادا کیا۔

آزادی اور تقسیم کے بعد اردو کے حوالے سے ریاست میں ایک عرصے تک جمود کی فضا چھائی رہی، 1967ء میں پورے کیرلا میں صرف سات اسکولوں میں اردو تعلیم کی سہولت مہیا تھی مگر 1970ء کے بعد اردو والوں نے انجمن اشاعت اردو اور اردو پرچار سبھا جیسی تنظیمیں قائم کرکے ان اسکولوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچا دیں۔ ریاست میں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تیرہ اضلاع کے اسکولوں میں اردو تعلیم کی سہولت مہیا ہے، سب سے زیادہ اردو پڑھنے والے طلبا ملا پورم اور کالی کٹ ضلع کے ہیں، پوری ریاست میں پانچویں سے دسویں تک اختیاری زبان کی حیثیت سے اردو پڑھنے والے طلباء کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی ہے اور ریاست میں اردو اساتذہ کی گنتی بھی ہزاروں میں آتی ہے۔ ریاست کے کئی کالجوں میں اردو کی تعلیم کا انتظام ہے، جیسے گورنمنٹ برنن کالج تلہشیری،گورنمنٹ کالج ملا پورم، شری شنکر آچاریہ یونیورسٹی کالج کوئی لانڈی، فاروق کالج کالی کٹ اور سر سید کالج تلی پرمبا وغیرہ۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کی سطح پر شری شنکر آچاریہ سنسکرت یونیورسٹی کوئی لانڈی اور کنور یونیورسٹی میں اردو میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کی سہولیات مہیا ہیں۔ حیدر آباد مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے کئی سنٹر بھی ریاست میں موجود ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کئی اردو کمپیوٹر سنٹر بھی ریاست بھر میں اردو کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔

کیرلا میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے قائم کی گئی سب سے پہلی انجمن، انجمنِ اصلاح اللسان ہے جسے عبدالستار سیٹھ اور عبدالکریم سیٹھ نے 1931 میں قائم کیا تھا۔ اس کے تحت 1943 میں کالی کٹ کے ٹاؤن ہال میں ایک اردو کانفرنس منعقد کی گئی جس میں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر عبدالحق شریک رہے تھے اور اس جلسے میں انجمن ترقی اردو کی شاخ کا قیام بھی عمل میں آیا تھا کافی عرصے کی خاموشی کے بعد 1991 میں جس کی از سرِ نو تشکیل ہوئی اور یہ تنظیم اب کیرلا میں ایک فعال اردوتنظیم کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ انجمن اشاعتِ اردو نے بھی ریاست میں اردو کی بقا کے لئے کافی کوششیں کی ہیں۔ کیرلا اردو ٹیچرس اسوسی ایشن جس کا قیام 1947 میں ہوا، یہ بھی ریاست میں اردو کی ترقی و ترویج کے لئے جدوجہد میں بہت فعال ہے۔

اردو پرچار سبھا یعنی بزمِ حسنات جس کی بنیاد 1951 میں رکھی گئی تھی، وہ بھی ریاست میں اردو کے پرچم کو بلند رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ عربی مدارس میں وژاکاڈ دارالعلوم عربک کالج، کوڈیاتور سراج العلوم مدرسہ، ترورنگاڈی یتیم خانہ، ترورنگاڈی نورالسلام مدرسہ، تروورکاڈ الٰہیہ مدرسہ، الجامعہ اسلامیہ شانتا پورم، جیسے عربی مدرسوں نے بھی ریاست میں اردو کی ترقی میں بڑا کردار ادا کیا ہے تروورکاڈ کا الہیہ مدرسہ جو اب ایک مشہور عربک کالج بن چکا ہے اپنے علاقے میں اردو زبان کا سرخیل بن چکا ہے۔ عربی مدرسوں اور عصری تعلیمی اداروں کے علاوہ مذہبی اصلاحی جماعتیں جیسے جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت وغیرہ نے بھی اپنے اپنے حلقہءِ اثر میں ریاست میں اردو کی موجودگی کو مضبوط کرنے کے باعث ثابت ہوئے ہیں۔

موجودہ دور میں کیرلا اردو سنٹر کے تحت بھی ریاست میں اردو کے حوالے سے بہت سارا کام ہورہا ہے۔ امید ہے آنے والے دنوں میں ریاست کیرلا میں اردو کے چاہنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگا اور اس کی ترقی اور ترویج کی راہیں ہموار اور وسیع ہوں گی۔

ریاستِ ٹمل ناڈو میں اردو زبان کی آمد سولہویں صدی کے اواخر اور سترھویں صدی کے اوائل میں ہی شروع ہوگئی تھی، اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو زبان کبھی عادل شاہی سلاطین، کبھی ٹیپو سلطان، کبھی نوابان آرکاٹ اور آخر میں انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں خوب پھلی پھولی۔ فورٹ سینٹ جارج کالج جس کا اردو کی تاریخ میں ایک اہم مقام ہے جس کے ذریعے ریاستِ مدراس ( جس میں موجودہ کرناٹکا بھی اس وقت شامل تھا ) میں اردو کی قابل ذکر ترقی ہوئی اسی دور کی یادگار ہے۔ آزادی کے بعد جب لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل نو ہوئی تو اس کا سب سے زیادہ نقصان اردو زبان کو اٹھانا پڑا۔ ریاستِ مدراس کی اردو بولنے والی بڑی آبادی تمل ناڈو، کرناٹکا اور کیرلا میں بٹ گئی۔

تمل ناڈو میں قائم ہونے والی ریاستی حکومتیں شروع ہی سے اردو کے تئیں تعصب کا شکار رہی ہیں۔ آزادی کے کچھ عرصے بعد قائم ہونے والی دراوڑی سرکاروں کی پہلی کوشش یہی رہی کہ ریاست یک لسانی بن جائے، اس کے لئے اس نے اردو کو اپنی راہ کا روڑا سمجھا اور اس کو مٹانے کی ہر کوشش کو جائز رکھا۔ کئی اضلاع سے دھیرے دھیرے اردو اسکولوں کو ایک پالیسی کے تحت ختم کردیا گیا، جہاں اس میں حکومت کی ریشہ دوانیاں شامل رہیں وہیں اردو والی کی کم ہمتی اور جی حضوری بھی برابر کی شریک ہے۔ ایک دور میں ترچی سیلم اور کوئمبتور جیسے شہر جو اردو کے تعلق سے بہت زرخیز ہوا کرتے تھے آج وہاں اردو بولنے والےتو موجود ہیں مگر اردو پڑھنے اور لکھنے والے ندارد۔ گویا وہاں اردو موجود تو ہے مگر قبرستانوں کے کتبوں پر اور درگاہوں کے دیوراوں پر لیکن ان کو پڑھنے والے ختم ہوچکے ہیں۔

تملناڈو میں اردو آجکل صرف جنوبی آرکاٹ کے چند شہروں میں اور مدراس (جو اب چنئی ہوگیا ہے) کے کچھ علاقوں میں بولی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہاں موجود فعال اردو تنظیمیں، عربی مدرسے،عصری تعلیم گاہیں، اردو کو زندہ اور تابندہ رکھنے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ گورنمنٹ اردو میڈیم اسکولس جو کبھی ساری ریاست میں جگہ جگہ پائی جاتی تھیں اب سمٹ کر چند مخصوص شہروں تک محدود ہوگئی ہیں۔

ریاستی حکومتوں کی مسلسل دو لسانی پالیسی پر زور کی وجہ سے اردو عصری تعلیم گاہوں میں تقریباً حاشیہ پر چلی گئی تھی۔ ایسے میں ریاست ٹمل ناڈو نے سن 2006 میں ٹمل لیرننگ ایکٹ کے نام سے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ہر طالب کو تمل زبان کا پڑھنا لازمی قرار دیا گیا اور پھر سن 2009 میں سمچیر کلوی یعنی مساوی نظام تعلیم کے نام سے ایک قانون بنایا گیا اور اس میں مادری زبانوں کو خارج کر کے ان کی جگہ تمل زبان کا پڑھنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ جس کو لے کر اردو دان طبقے نے سخت احتجاج شروع کیا۔ استاد یعقوب اسلم عمری مرحوم کی تحریک سے شروع ہوئی اس مخالفت کی قیادت مولانا ولی اللہ رشادی مرحوم نے مجلس تحفظ اردو کے بینر تلے شروع کی۔ اس کے علاوہ اومیت ( آرگنائزیشن آف مسلم ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ اینڈ اسوسیشن آف ٹمل ناڈو) نے لمفاٹ ( لنگویسٹک مائنارٹیس فورم آف ٹمل ناڈو) کے ساتھ مل کر عدالت میں اس مسئلے کو لے کر کیس درج کیے جس پر سنوائی کرتے ہوئے عدالت نے عارضی چھوٹ دی اور دسویں جماعت میں لازمی تمل کی جگہ اردو کو پھر سے موقع دیا۔ یہ عارضی چھوٹ گزشتہ سال اختتام کو پہنچی اور عدالت نے گیند پھر سے ریاستی حکومت کی طرف اچھال دی۔ ریاستی حکومت موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دو لسانی پالیسی پر کسی بھی قسم کی ہلکی سی بھی تبدیلی کرنے کی موڈ میں نہیں ہے۔ راست بات چیت میں اس کے ذمہ داروں نے واضح کیا کہ اردو کو دی جانے والی کوئی بھی چھوٹ ہندی کے لئے راستہ ہموار کرے گی جو حکومت کسی بھی حال میں نہیں چاہتی۔ یوں تو ریاستی حکومت نے ایک ریاستی اردو اکیڈمی بھی بنا رکھی ہے جس کے ایک عدد چئیرمین بھی موجود ہیں مگر اس کی حیثت کاغذی پھولوں کی جیسی ہے جو کسی کام کے نہیں بس نمائشی ہیں۔ ان سخت حالات میں بھی اردو اگر یہاں باقی ہے اور اپنی وجود برقرار رکھے ہوئے ہے تو یہ اس کے چاہنے والوں کی وجہ سے ہے۔

تعلیمی میدان میں آج بھی کئی فلاحی ادارے اردو میڈیم اسکولوں اورکالجوں کے ذریعے اردو کی ترقی اور ترویج میں مشغول ہیں۔ جس میں نیو کالج چنئی، گورنمنٹ قائد ملت کالج چنئی، سی عبدالحکیم کالج میل وشارم، مظہر العلوم کالج آمبور، اسلامیہ کالج وانم باڑی، جمال محمد کالج ترچی قابل ذکر ہیں۔ تحقیق اور پوسٹ گریجوشین کے لئے یونیورسٹی لیول میں مدراس یونیورسٹی آج بھی اردو کے حوالے سے ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔ میاسی اردو اکیڈمی چنئی نیو کالج نے سہ ماہی آن لائن اردو کورس بھی شروع کر رکھی ہے جس سے کئی لوگ مستفیض ہورہے ہیں۔ عصری تعلیم گاہوں کے علاوہ عربی مدارس بھی اردو کی ترویج میں بڑا کردار نبھاتی آرہی ہیں جن میں جامعہ دارالسلام عمر آباد، باقیات الصالحات ویلور، مدرسہ لطیفیہ ویلور، مدرسہ منبع الانوار لال پیٹ، مدرسہ معدن العلوم وانم باڑی،مدرسہ احیاالعلوم وانم باڑی، مدرسہ جمالیہ چنئی، مدرسہ محمدی چنئی قابل ذکر ہیں۔

جہاں تک اردو تنظیمیوں کی بات ہے وہ بھی کافی تعداد میں ریاست میں سر گرم عمل ہیں۔ ٹمل ناڈو لیٹریری اسوسی ایشن چنئی، اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن تملناڈو اور کرناٹک چیپٹر، میاسی اردو اکیڈمی چنئی، انجمن خواتین اردو چنئی، انجمن ترقیء اردو ہند تمل ناڈو شاخ چنئی، امیر خسرو سنگیت اکیڈمی چنئی، کمال اکیڈمی چنئی، ٹمل ناڈو اردو تحقیقی مرکز وانم باڑی، انجمن فروغ اردو وانم باڑی، کاروان شعر و ادب وانم باڑی، بزم شاکر وانم باڑی، اردو اکیڈمی وانم باڑی، ادارہء ادب اسلامی وانم باڑی و آمبور وغیرہ کے تحت پورے سال اردو کے حوالے ریاست بھر میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ان میں انجمن فروغ اردو وانمباڑی کی جانب سے یومِ مادری زبان کے موقع پر منعقد ہونے والا اردو میلہ ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغ اردو کی جانب سے گزشتہ سالوں میں ایک کتاب میلہ اسلامہ کالج وانمباڑی میں بھی منعقد ہوا جو کئی زاویوں سے منفرد ثابت ہوا۔

صحافتی میدان میں چنئی سے 1927 سے مسلسل شائع ہونے والا مسلمان اخبار آج بھی اسی رفتار سے شائع ہورہا ہے بھلے سے وقت کی گردشوں میں الجھ کر اس کے پڑھنے والوں کی تعداد محدودہوگئی ہو مگر اس کی اشاعت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ اس کے علاوہ وانم باڑی سے ماہانہ نشان منزل، گزشتہ 26 سالوں سے بلا ناغہ شائع ہورہا ہے اور کئی سالوں سے پندرہ روزہ زبانِ خلق کی اشاعت بھی ریاست میں جاری ہے۔

ریاستِ تمل ناڈو میں اردو بولنے والوں کی آبادی صرف 75۔1 فیصد ہے، حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس امداد انہیں اپنی مادری زبان کی ترقی و تریج کے لئے حاصل نہیں ہے، اس کے علاوہ خود اس کی صفوں میں ایسے افرا د کی کمی نہیں ہے جو معاشی مفادات کی خاطر اردو کو قربان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، اس کے باوجود یہ آبادی اپنی سی کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی طرح اپنی مادری زبان کا تحفظ کرتے ہوئے اس کی بقا، ترقی اور ترویج کا عمل مسلسل جارہی رہے۔

ریاستِ کرناٹکا میں اردو کی کہانی ریاستِ ٹمل ناڈو کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے کیونکہ آزادی سے پہلے یہ دونوں ایک ہی ریاست کا حصہ تھیں۔ بہمنی، عادل شاہی اور ٹیپو سلطان کے دور میں یہاں اردو کی روایتیں مضبوط ہوئیں۔ آزادی کے بعد جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی از سر نو تشکیل ہوئی تو اردو بولنے والی کی ایک ایسی بڑی آبادی بھی کرناٹکا کے حصے میں آگئی جس کا تعلق ریاستِ حیدر آباد سے تھا۔ یوں کل ملا کر کرناٹکا میں اردو بولنے والوں کی آبادی 83۔10 فیصد ہے جو ریاست میں کنڑا بولنے والوں کے بعد دوسری زبان بولنے والی دوسری بڑی آبادی ہے۔ ریاست کا ماحول شروع سے ہی اردو کے حق میں کافی خوشگوار رہا ہے۔ یہاں لسانی تعصب بنسبت کیرلا اور تمل ناڈو کے کم پایا جاتا ہے۔ حکومتوں نے بھی آبادی اور ووٹ بینک کے مد نظر اردو کی کافی پذیرائی کی، جس کی وجہ سے ریاست بھر میں اردو کی ترقی اور ترویج میں کافی آسانی رہی۔

ریاست بھر میں گورنمنٹ اردو میڈیم پرائمری سے ہائر سکینڈری لیول تک کے اسکولوں کے علاوہ کافی تعداد میں پرائیویٹ اسکولس بھی اردو زبان کی تعلیم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرر ہے ہیں۔ ریاست کے 33 سے زیادہ ٹاپ کالجس میں اردو زبان کی تعلیم کا انتظام ہے اس کے علاوہ ریاست کے تمام بڑے یونیورسٹیوں میں اردو کے حوالے سے تحقیقی کورسس کی سہولتیں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ کرناٹکا اردو اکیڈمی جو ریاستی حکومت کی اقلیتی فلاح و بہبودی کے ماتحت ایک ادارہ ہے بڑی حد تک فعال ہے۔ اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے حکومتی فنڈ کے سہارے یہ ادارہ ریاست بھر میں انواع و اقسام کے پروگرام منعقد کرتا رہتا ہے۔

عصری تعلیم گاہوں کے علاوہ عربی مدرسوں کی ایک لمبی قطار بھی ریاستِ کرناٹکا میں اردو کی ترقی اور ترویج میں ارادی اور غیر ارادی طور پر عرصے سے مصروف عمل ہے جس میں دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کافی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

ریاستِ کرناٹکا کے ہر اس شہر میں جہاں اردو والوں کی آبادی پائی جاتی ہے اردو انجمنوں اور ادبی اداروں کا ہونا یقینی ہے۔ادراہ ادب اسلامی کی شاخیں ریاست کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ ان اداروں اور انجمنوں کی زیرِ اہتمام سال بھر اردو پروگراموں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

اردو صحافت کی دنیا میں کرناٹکا کے اردو اخباروں کی الگ ہی پہچان ہے۔ روزنامہ سالار بنگلور جو اب ریاست کے دوسرے بڑے شہروں سے بھی شائع ہونے لگا ہے، اس کے علاوہ روزنامہ راشتریہ سہارا بنگلور، ڈیلی پاسبان، روزنامہ تاثیر بھی ریاست میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے مقدور بھر جٹے ہوئے ہیں۔ ریاست کرناٹکا میں اردو کا مستقبل کافی روشن ہے، معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اردو بولنے والوں کا ایک بڑا طبقہ اردو سے دور ہورہا ہے پھر بھی دوسری ریاستوں کی بنسبت اردو کی ترویج میں یہاں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور امید ہے اس کی رفتار یوں ہی برقرار رہے گی۔

ریاست آندھرا پردیش اور ریاست تلنگانہ ابھی ماضیء قریب تک ایک ہی ریاست ہوا کرتے تھے۔ ریاست کی زبان تلگو تھی اور اردو کا نمبر ریاست میں دوسری زبان کا تھا مگر ریاست کی تشکیل نو کے بعد آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد بٹ گئی۔ اس کے باوجود دونوں ریاستوں میں اردو دوسری ریاستی زبان کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے۔

آندھرا اور تلنگانہ کی مشترکہ ریاست میں اردو کی تاریخ علاؤ الدین خلجی کے بعد سے شروع ہوتی ہے جب یہ یہاں ہندوی اور دکنی کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھی۔ قطب شاہی سلاطین کے دور میں اس کو عروج حاصل ہوا اور بادشاہ وقت قلی قطب شاہ اس کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قرار پایا اور وہ ریاست کے شرفاء اور حاکموں کی زبان ٹہری اور اس کی یہ حیثیت ریاست حیدر آباد کے خاتمے تک برقرار رہی۔

آزادی اور ریاست حیدرآباد کے خاتمے کے بعد جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل ہوئی تو مشترکہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں اردو بولنے والے کافی بڑی تعداد میں تھے۔ جب ریاست کی از سر نو تشکیل ہوئی اور آندھرا پردیش سے تلنگانہ کو الگ کر دیا گیا تو یہ اردو آبادی پھر دونوں ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔

ریاست آندھرا پردیش میں اردو بولنے والوں کی تعداد 55۔6 فیصد بتائی جاتی ہے۔ ریاست کے ان اضلاع میں جو کبھی ریاستِ حیدر آباد کا حصہ ہوا کرتے تھے اردو بولنے والے کافی تعداد میں موجود ہیں۔ پوری ریاست میں اردو میڈیم اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے اور اردو کالجوں کی تعداد بھی معقول ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لئے ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول، یوگی ویمنا یونیورسٹی کڈپہ، شری وینکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی، آچاریہ ناگرجونا یونیورسٹی گنٹور جیسے تعلیمی ادارے اردو کا پرچم بلند کئے موجود ہیں۔

ریاستِ آندھرا پردیش میں عربی مدارس بھی اردو کی ترقی اور ترویج میں فعال کرادار ادا کررہے ہیں اور یہ تقریبا ریاست کے ہر ضلع اور ہر شہر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اردو انجمن اور ادبی ادارے بھی ریاست میں فعال ہیں۔ ادارہ ادبی اسلامی کی شاخیں یہاں ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔

ریاست کی اردو اکیڈمی بھی کافی فعال ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے بھی اردو کو ریاست کی دوسری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں اردو کے تئیں دلچسپی موجود ہے، عام لوگوں میں اردو کا چلن اس بات کی بڑی دلیل ہے۔

ریاست تنلگانہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد 1۔12 فیصد بتائی جاتی ہے۔ حیدر آباد جو ریاستی دارالخلافہ ہے زمانے سے اردو کا گڑھ رہ چکا ہے اور آج بھی اس کی یہ حیثت مسلم ہے۔ اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ ریاست تلنگانہ کی ریاستی اردو اکیڈمی بھی کافی فعال ہے جس کا اندازہ اس کے ویب سائٹ سے ہوجاتا ہے۔

اردو میڈیم اسکول اور اردو کورسس مہیا کرانے والے کالجس بھی ریاست بھر میں معقول تعداد میں موجود ہیں۔ اردو میں تحقیقی کورسس اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف حیدر آباد، تلنگانہ یونیورسٹی اپنی خدمات مہیا کرر ہی ہیں۔ ریاست بھر میں بڑی تعداد میں موجود عربی مدارس بھی اردو کی بقاء میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ صحافتی لائن سے حیدار آباد کے اردو اخباروں کی پہچان اور شہرت پورے ملک میں ہے۔ روزنامہ سیاست، روزنامہ منصف، روزنامہ رہنمائے دکن، روزنامہ صحافی دکن، روزنامہ اعتماد کے علاوہ بھی کئی روزنامے ہفتہ واری، پندرہ روزہ، اور ماہنامے، یہاں سے شائع ہو کر اردو کی شان بڑھا رہے ہیں۔

جہاں تک اردو اداروں اور ادبی انجمنوں کی بات ہے وہ یہاں کی ہر گلی اور ہر نکڑ میں موجود ہیں جن کے تحت اردو کی شاندار محفلیں سجتی رہتی ہیں۔ ریاست کے ہر بڑے شہر میں ادارہ ادبِ اسلامی کی شاخیں بھی فعال ہیں۔

ریاست تلنگانہ میں شہر حیدر آباد کی وجہ سے اردو کی ترقی گویا پورے جنوبی ہندوستان میں اردو کی ترقی جیسی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہاں قائم مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی ہےجس کی شاخیں پورے ہندوستان میں موجود ہیں جسں سے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں طلباء مستفیض ہورہے ہیں وہ اردو کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہورہی ہے۔ جہاں تک شہر حیدر آباد کی بات ہے وہ گویا جنوبی ہندوستان کی اردو برادی کا سرخیل ہے۔ اردو کے تعلق سے جتنا کام یہاں ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ شاید آج کل کے حالات میں شمالی ہند کے کسی بھی شہر میں مشکل ہے، شہر دلی اس سے استثناء ہے۔

جنوبی ہندوستان کی تمام پانچ ریاستوں میں کسی بیرونی اور سرکاری امداد کے بغیر اردو کی ترقی اور ترویج میں جو کوششیں جاری ہیں وہ یہاں کے اردو سے والہانہ لگاؤ رکھنے والوں کے خلوص اور محبت کا ثبوت ہے۔ اردو یہاں کے اردو دان طبقہ کی عوامی زبان ہے، گھر سے لے کر کاروبار تک، مسجد کے منبروں سے لے کر اصلاحی اور مذہبی بیانوں تک، بچوں کو سنائی جانے لوری سے لے کر تدفین کے وقت کی جانے والی دعا تک، گویا محد سے لے کر لحد تک اردو زبان یہاں کی اردو برادری کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے اور ہر سو ہر سمے، اسی کا رواج ہے۔

انگریزی زبان کی چکا چوند میں، ریاستی زبانوں کی گھما گھمی میں، اردو کی شیرینی پورے جنوبی ہندوستان میں تمام سرکاری، نیم سرکاری، اپنوں اور غیروں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے باوجود اپنی پہچان برقرار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ قوی امید ہے شمال ہندوستان سے دھیرے دھیرے نکالے جانے والی اس مظلوم زبان کو جنوبی ہندوستان والے جس طرح آج بانہیں وا کر کے سمیٹ رہے ہیں ویسے ہی اس کو آنکھوں اور پلکوں پر رکھ کر اس کی حفاظت کریں گے اور جب صحیح معنوں میں اچھا وقت آئے گا تو یہ پیاری زبان اپنی شیرینی اور من موہ لینے والی لطافت سے پورے ہندوستان کو مسخر کر لے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے