میری ماں، میری زندگی – جو خاموشی سے رخصت ہو گئی!!!
از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : الفیض ماڈل اکیڈمی بابوآن بسمتیہ ارریہ بہار
زندگی میں کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو لمحہ بھر میں انسان کی ہنستی کھیلتی دنیا کو ویرانی میں بدل دیتے ہیں۔ 08.07.2025 بروز منگل میرے لیے ایسا ہی دن تھا۔ میری ماں، میری روح، میری دعاؤں کا وسیلہ، اچانک مجھے داغِ مفارقت دے گئیں۔ ایک ایسی جدائی، جس نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا، ایک ایسا صدمہ جس کے بعد میں کبھی مکمل نہیں ہو سکوں گا۔
امی بالکل ٹھیک تھیں۔ نہ کوئی بیماری، نہ کوئی شکایت۔ ایک دن پہلے، یعنی پیر کی رات، عشاء کے بعد، ہم سب گھر والے روز مرہ کی طرح کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں، میرے والد اور میرا بھانجہ ایک ساتھ کھانے کے لیے بیٹھے۔ امی عشاء کی نماز کی نیت باندھ رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا:
"امی! آپ بھی آ جائیں، ساتھ کھاتے ہیں۔"
امی نے بڑے اطمینان سے کہا:
"نہیں بیٹا، آپ لوگ کھا لیجیے، میں نماز پڑھ لوں، پھر کھاؤں گی۔"
یہ ان کی عادت تھی۔ نماز کو ہمیشہ مقدم رکھتیں۔ دنیاوی امور سے پہلے اللہ سے تعلق کو مضبوط رکھتیں۔ وہ دن بھی معمول کا ہی دن لگتا تھا، کوئی خاص بات نہ تھی۔ کھانے کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ والد صاحب امی کے پاس بیٹھے رہے، یہاں تک کہ امی نماز سے فارغ ہو کر کھانے بیٹھیں۔ والد صاحب نے تب جا کر کمرہ چھوڑا۔ ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔ رات بھر سکون تھا۔ ہم نے کیا جانا کہ صبح ایسی قیامت ساتھ لائے گی جو ہمارے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دے گی۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ امی پر بے چینی طاری ہونے لگی۔ ان کا چہرہ پریشان سا ہو گیا۔ انہوں نے جیسے کچھ محسوس کیا ہو۔ میں اپنے کمرے میں تھا۔ اتنے میں میری بھابھی ہڑبڑاتی ہوئی میرے پاس آئیں۔ ان کی آواز گھبرائی ہوئی تھی :
"امی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے!"
میں تڑپ کر اٹھا اور امی کے کمرے کی طرف دوڑا۔ امی بستر پر لیٹی تھیں، اور ان کے چہرے سے درد صاف جھلک رہا تھا۔ میں نے فورا ڈاکٹر کو فون کیا۔ تب تک میں ان کے پیروں کے تلوے میں سرسوں کے تیل سے مالش کرنے لگا۔ ان کی ٹھنڈی ہوتی جلد میرے دل کو لرزا رہی تھی، لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
ڈاکٹر صاحب پہنچے۔ وہ ہاتھ کی نس تلاش کر رہے تھے تاکہ انجیکشن لگا سکیں۔ امی نے آنکھیں کھولیں، اور اتنا کہا :
"مجھے لگتا ہے اب میں نہیں بچ پاؤں گی۔"
یہ جملہ میرے دل میں بجلی بن کر گرا۔ میں لرز گیا۔ ان کی آنکھوں میں ایک خاموش تسلیم تھی۔ اور پھر... صرف پانچ منٹ کے اندر وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
وہ ماں، جو کل رات تک میرے ساتھ باتیں کر رہی تھیں، جو نماز کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتی تھیں، جو میری ہر بے چینی پر پریشان ہو جاتی تھیں، آج مجھے خاموش کر کے خود ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔
اس حادثے سے چند دن پہلے کا ایک اور منظر میرے دل سے چپک گیا ہے۔ میں موٹر سائیکل خریدنے ارریہ شہر گیا ہوا تھا۔ دیر رات ہو چکی تھی۔ امی بار بار دروازے پر آ کر میرا انتظار کرتیں۔ گلی کے نکڑ تک جا کر دیکھتیں۔ کبھی جنوب، کبھی شمال، شاید میرا بیٹا ابھی آ جائے۔ ان کی یہ بے چینی ایک ماں کے دل کی عکاسی تھی۔ آخر کار انہوں نے کسی سے فون لیا اور مجھے کال کی :
"بیٹا! کہاں ہو؟ کب آؤ گے؟ دل بہت گھبرا رہا ہے!"
میں نے کہا:
"امی! بس آ رہا ہوں، آپ آرام کریں۔ باہر نہ جائیں۔"
لیکن ماں کا دل بھلا آرام سے کیسے بیٹھتا؟ جب تک میں گھر نہیں پہنچا، وہ ایک پل کو نہ ٹک سکیں۔
جب میں گاڑی کے ہارن کے ساتھ گھر پہنچا، دروازہ کھلا، امی کھڑی تھیں۔ ان کے چہرے پر ایک عجب سکون، خوشی اور ہلکی سی ناراضگی تھی :
"اب آتے ہو؟ اتنی دیر کیوں لگائی؟"
پھر میرے سر پر ہاتھ رکھا، دعا دی، اور چپ ہو گئیں۔
آج جب وہ وجود اس دنیا میں نہیں، تو یہ سب لمحے ایک فلم کی طرح نظروں کے سامنے دوڑتے ہیں۔ میں اس وقت کو روک نہیں پایا، اس موت کو ٹال نہیں پایا، اس درد کو بانٹ نہیں پایا۔
ماں کی موت صرف ایک رخصتی نہیں ہوتی، یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا خلا ہوتی ہے۔ وہ دعائیں دینے والا ہاتھ، وہ سرد راتوں میں لحاف دینے والی محبت، وہ تھکن میں تسلی دینے والی آواز... اب کہیں نہیں رہی۔
میرے لیے زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ ان کے بغیر گھر سنسان ہے۔ ان کی جائے نماز، ان کی مسکراہٹ، ان کی آواز، سب کچھ مجھے ہر لمحے رلاتے ہیں۔ لیکن میں ان کی دعاؤں کے صدقے باقی زندگی کو جینے کی کوشش کروں گا۔
اب میں ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتا ہوں، اور دل سے کہتا ہوں :
> "اے میرے رب! میری ماں کو اپنی خاص رحمتوں میں جگہ دے۔ ان کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے۔ ان کے درجات بلند فرما۔ انہیں صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ جگہ عطا فرما۔ آمین!"
اختتامیہ :
ماں صرف ایک ہستی نہیں، وہ ایک پورا جہاں ہوتی ہیں۔ وہ چلی گئی ہیں، مگر ان کی یادیں، ان کی دعائیں اور ان کی تربیت میرے ساتھ ہے۔ اب میں جتنا جیوں گا، انہی کے نام جیتا رہوں گا۔ اور ہمیشہ ان کے لیے دعاؤں میں، آنسوؤں میں اور خاموشیوں میں ان کا انتظار کرتا رہوں گا۔
0 تبصرے