Ticker

6/recent/ticker-posts

فیض احمد فیض کی نظم میرے ہمدم میرے دوست کا تنقیدی جائزہ

نظم میرے ہمدم میرے دوست کے ذریعہ فیض احمد فیض نے کیا پیغام پیش کیا ہے اس کی وضاحت

سوال : نظم میرے ہمدم میرے دوست کے ذریعہ فیض احمد فیض نے کیا پیغام پیش کیا ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔ یا جناب فیض احمد فیض کی نظم میرے ہمدم میرے دوست کا تنقیدی جائزہ پیش کیجئے۔

جواب : جناب فیض احمد فیض مشہور مارکسی نظریہ کے حامل شاعر ہیں ۔ان کی شاعری میں اشتراکیت کے پیغام کی جھلک ملتی ہے ۔ اس نظم میں انھوں نے ایک پیغام دیا ہے کہ انسان خودا پنی قسمت کا خالق ہوتا ہے ۔کوئی دوسرا شخص کسی کے لئے کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ د نیا خود غرضوں اور ستم گروں کی ہے۔ یہاں مونس وغم خوار نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ ظالم و جابربلوگ ہوتے ہیں، دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مزدوروں اور محنت کش پر جو ظلم و جوار کیا جا تا ہے۔

ان کی صلاحیت کا استحصال ہوتا ہے۔ وہ ایسے مزدوروں کے ہمدم اور دوست بن کر سوال کرتے ہیں کہ میرے دوست کیا تیری اداسی تیرے سینے کی صرف حرفِ تسلی دور ہو جاۓ گی؟ کیا تیری ذلت آمیز زندگی میں کسی کے نغمہ شیر یں سے بہار آ جائے گی؟ اگر یہ ممکن ہے تو ٹھیک ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ فیض فرماتے ہیں کہ تیری خاطر میں اپنے نغمات کا تارہوں گا تجھ کو تاریخی عظمت کی کہانیاں سناتا رہوں گا۔

شاید ماضی کے افسانے کی گرمی سے تیری افسردگی دور ہو جائےب اور تیری زندگی انقلاب سے ہمکنار ہو جائے ،لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسی شاعر کا کلام کسی کے دکھ درد کو دور کرنے سے قاصر ہے کیونکہ کلامِ شاعر میں فاسد مادوں کو نکال کر نئی زندگی اور بھرپور تاز کی دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ۔ صرف غم خواری یا مرہم آزاری کی صفت پائی جاتی ہے۔

فیض احمد فیض کی شاعری

’’ نغمۂ جراح نہیں، مونس وغم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے نہیں

اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا ، تیرے سوا ‘‘


اس طرح شاعر موصوف نے بیان فرمایا ہے کہ انسان خود اپنی تقدیر بنا تا ہے۔ کوئی دوسرا کسی کے اندر تحریکیت کا شعلہ روشن نہیں کر سکتا ہے۔ اگر خودفرد کے اندر شعور نہیں ہو۔ اس نظم میں انسان کو باشعور بننے کی تاکید کی گئی ہے تا کہ وہ اپنے دوست او ر دشمن کو پہچان سکے اور اپنی بھلائی کے لئے کچھ کر سکے کیونکہ جولوگ شعور سے نابلد ہوتے ہیں وہی دوسروں کے ذراید ستاۓ جاتے ہیں۔ب مصائب و آلام کی گردش سے وہی لوگ نجات پا سکتے ہیں جو خود اپنی بہتری کی کوشش کریں ورنہ دوسرا کوئی اس دنیا میں ایسا نہیں ہے جس کے دل میں دوسروں کے لئے درد ہو ۔ اس نظم کے ذرایہ شاعر موصوف نے دوستوں کو آزمانے اور پر ھنے کا بھی شعور دیا ہے خود انحصاری اور خودداری کے جذ بہ کوفروغ پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے