Ticker

6/recent/ticker-posts

اسرار الحق مجاز کی نظم آوارہ کا خلاصہ | نظم آوارہ کی تشریح

اسرار الحق مجاز کی نظم آوارہ کا خلاصہ | نظم آوارہ کی تشریح

سرمایۂ ادب (حصّہ ظم)
سوال : جناب اسرارالحق مجازی نے نظم’’ آوارہ ‘‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی وضاحت کیجئے۔
جواب : اسرارالحق مجاز می ۱۶نومبر ۱۹۱۳ء کورود لی میں پیدا ہوئے آگر ہ اور علی گڑھ میں رہ کر تحصیل علم میں مشغول رہے۔ ۳ دسمبر ۱۹۵۴ء کو بمقام لکھنو میں رحلت فرمائی ۔ اکتالیس (۴۱ ) برس کی قلیل : زندگی میں انھوں نے اردو ادب کے سرمایہ میں دو مجموعوں کا اضافہ کیا جو سازنو‘‘اور’’ آہن۔ کلام‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ مجازی کی شاعری میں لطافت کی گلکاری ہوتی ہے۔ انھوں نے ملک وقوم کے انتہائی پرلطف پیرایہ میں اپنی نظموں کے ذرایہ دعوت فکر دی ہے ۔

" آوارہ ‘‘ ان کی مشہور نظم ہے۔ جس میں ملک پر چھاۓ ہوۓ افلاس کے اندھیروں کی طرف بڑی کسمپری کے عالم میں اشارے گئے ہیں۔ اندازِ بیان کی اطافت اور رومانیت ایک ناکام عاشق کی آوارہ گردی اور در بدری کی شکل میں بھی نظر آتی ہے ۔

زمانے کی ستم ظریفی بے وفائی اور نا مساعد حالات میں گرفتار شخص دل برغموں کا بوجھ لے کر دہشت زدہ شہروں کی چمک دمک اور رعفائی میں بے سہارا بے یارو مددگارآوارہ پھر رہا ہے۔ ماضی کی حسین تمناؤں کا ٹوٹا ہوامحل اور زندگی کی موہنی تصویر اس کو فریب دے کر رخصت ہو چکی ہے ۔اب نہ کوئی ہمدم ہے اور نہ کوئی راز دار ہے ۔

وہ تنہا وحشت زدہ ہے۔ اس کے دل پر جوشد ید چوٹ لگی ہے۔ وہ نا قابل برداشت ہے ۔وہ رات کی تنہائی میں بھلاتا ہے۔ کبھی اس کو مئے خانہ کی لذت یاد آتی ہے۔ کبھی شہناز ،گل اندام کی بزم طرب پکارتی ہے ۔ لیکن اب اس کے پاس افلاس کی پونچی ہے ۔ خاص داں کے لئے نذرانہ پیش کر نے والی رقم نہیں ہے ۔یہ دنیا دولت مندوں کی ہے! یہاں پیسہ کے بدلے تماشے ہوتے ہیں۔ اپنی صلاحیت اور توانائی کو کھو کر لوگ سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں پاتے ہیں ۔ آوارہ پھرنے والا انسان ایک طرف نشاط طرب کی محفلوں کو دیکھتا ہے تو دوسری طرف عشرت کدہ ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس رسوائی و ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنی زندگی کو مصائب و آلام کے طوفان میں گھرا ہوا پا تا ہے ۔

اس بے بسی کے عالم میں وہ اپنے اندرشدید کشمکش کی کیفیت پا تا ہے۔ کبھی اپنی ہلاکت اور بربادی کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتا ہے اور کبھی باغی اور سرفروش بن کر بزم کی رونق کو ویران کر دنیا چاہتا ہے۔ اس کے ارمانوں کو مٹانے والے، اس کی مسرتوں کے پھول کو چھیننے والے ظالم و جابر سلطان چنگیزوں، نادر خان جیسے نظر آتے ہیں۔ دہ ان تمام لوگوں سے شدید انتقام لینا چاہتا ہے۔ وہ محفلوں کو کھنڈر میں بد لنے، قصر شاہی کو پھونک دینے کے جذبات کو لے کر غم زدہ اور وحشت ناک ادھر ادھر پھرتا ہے ۔

یہ نظم مظلوم زد ہ جذ بات کی ایک اچھی تصویر پیش کرتی ہے ۔ ایک نادار، مفلس اور استحصال زدہ انسان ردِعمل کے جذبات میں حالت جنون میں ہوتا ہے ۔ اس پر نفسیاتی دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کو اپنی حالت کو دوبارہ سدھارنے کی فکر نہیں ہوتی ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے