Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی کی تعریف اور اجزائے ترکیبی Masnavi Ki Tareef aur Ajzaye Tarkeebi In Urdu

مثنوی کی تعریف اور اجزائے ترکیبی Masnavi Ki Tareef aur Ajzaye Tarkeebi In Urdu

مثنوی عربی لفظ’ شنا‘‘ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی دو کے ہیں۔ عربی میں ان چار دانتوں کو کہتے ہیں جودواوپر کے اور دو نیچے کے دوسرے دانتوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح شا کے معنی دو دو علاحدہ كرنا ہے۔ اس لحاظ سے کہ مثنوی کے ہر شعر میں دومصرعوں کے قافیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس لئے اس صنف شاعری کو مثنوی کا نام دیا گیا، اس لئے مثنوی کا ہر شعر ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتا ہے۔


مثنوی کی تعریف

مثنوی ایسی طویل نظم کو کہا جاتا ہے جس میں کسی بھی قصہ یا کوئی واقعہ کو تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ مثنوی میں لبی لمبی بات کو تفصیل سے بیان کیا جا تا ہے۔ غزل کا شعر کم وقت میں کہا جا سکتا ہے لیکن مثنوی کا معاملہ مختلف ہے، اس کو کم وقت میں نہیں کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اس میں داستان کو نظم کی شکل میں پیش کیا جا تا ہے۔ مثنوی لکھنے والوں کے لئےیہ ضروری ہے کہ قلم اٹھانے سے پہلے مکمل مثنوی کا خاکہ ذہن میں تیار کر لیا جائے، اس کے بعد مستقل مزاجی کے ساتھ اسے تکمیل کو پہنچایا جائے۔ واقعات کی ترتیب و تشکیل ایسی ہو کہ قصہ مر بوطار ہے۔


مثنوی کی تعریف

فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں مثنوی ایک اہم صنف سخن ہے۔ اس میں جن، پری، دیو، بھوت کے قصے اور مافوق الفطرت عناصر سے لے کر عام انسانوں کے حسن وعشق کی وارداتوں، خوشیوں اور غموں، شادی اور طلاق کی رسموں، اخلاقی قصوں، تصوف کے مسئلوں اور مذہبی تعلیم کا بیان کیا جا تا ہے۔ اس میں غزل کی سادگی سوز و گداز، قصیدے کا جوش وخروش، ہجو کی ظرافت نگاری، مرثیے کا نوحہ و غم، سب ہی کچھ ہوتے ہیں۔

مثنوی کے مضامین

مثنوی میں سیاسی، سماجی حالات، معاشرتی رسم و رواج، رہن سہن کے طریقے، لباس وزیورات وغیرہ کا بیان کیا جا تا ہے۔ مثنوی کو حالی نے اردوشاعری کی سب سے زیادہ کار آمدصنف قرار دیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے بھی اصلاً شاعری کے لئے مثنوی کی اہمیت تسلیم کی ہے۔

اردو کی پہلی مثنوی فخر دین نظامی کی ’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘

اردو کی پہلی مثنوی فخر دین نظامی کی ’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ ہے۔ دکن کے ابتدائی زمانے سے سترہویں صدی کے اواخر میں ولی کے ابھرنے سے پہلے اردو کی سب سے معتبر صنف مثنوی تھی ’’ قطب مشتری‘‘ ( ملا وجہی ) سیف الملوک و الجمال‘‘ ( غواصی ) ’’ پھول ( ابن نشاطی) گلشنِ عشق‘‘اور’علی نامہ‘‘ ( نصرتی ) جیسی مثنوی نہ صرف دکن کی نمائندہ مثنویاں ہیں بلکہ انہیں اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

اٹھارہویں صدی میں میر کی مثنوی

اٹھارہویں صدی میں میر کی مثنوی کے علاوہ میر اثر کی مثنوی خواب و خیال ‘‘ ولی کی یادگارمثنویاں ہیں لیکن دکن کے بعد مثنویوں کا دوسری بار عروج ارض لکھنو پر ہوتا ہے، جہاں’’سحر البیان‘‘ ( میر حسن )’’ گلزار نسیم ( دیا شنکر نسیم ) زہر عشق ( مرز اشوق لکھنوی ) جیسی مثنویاں لکھی گئیں۔

مثنوی کے اجزائے ترکیبی

مثنوی کے اجزائے ترکیبی میں قصہ گوئی کے تمام اجزا پاۓ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی تشکیل میں با قاعد ہ ایک خاص ترتیب کو برتا جا تا ہے۔ مثنوی کی شروعات حمد پاک سے کی جاتی ہے۔شاعر سب سے پہلے اللہ کی تعریف کرتا ہے اور اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، اللہ کوسب سے بڑا اور سارے جہاں کا مالک مانتا ہے اور اس کی بزرگ و برتر ہونے کی تعریف کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد رسول کی شان میں نعت پیش کرتا ہے۔ نعت میں اللہ کے آخری رسول کی تعریف کرتا ہے اور آپ کو سارے نبیوں کا سردار مانتا ہے۔ اس کے بعد اولیا اللہ کے تعریف میں منقبت اور مناجات لکھی جاتی ہیں، اور اس کے بعد مدح فرمارواۓ۔ وقت کے عنوان سے اپنے زمانے کے بادشاہ یا و زیر یا رئیس کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ بعد میں شاعر کبھی کبھی تعریف سخن کا حسن بھی شامل کرتا ہے۔ جس میں وہ سخن‘‘ کی اہمیت اور اپنی فنکاری کی مدح و توصیف کرتا ہے۔ کبھی کبھی مثنوی قلم بند کرنے کے مقصد پر بھی سبب تصنیف‘‘ کے عنوان سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ تمام حصے درحقیقت تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے۔ چونکہ مثنوی میں داستان کو نظم کی شکل میں پیش کیا جا تا ہے اور داستان میں قصہ ہوتا ہے۔اس کے لئے مثنوی میں وہ تمام اجزا پائے جاتے ہیں جو قصہ میں ہوتے ہیں جیسے پلاٹ نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظر نگاری، جذبات نگاری وغیرہ۔

مثنوی کی پلاٹ نگاری

کسی بھی کہانی میں واقعات کی ترتیب کو پلاٹ کہا جا تا ہے۔ مثنوی کے قصے میں بھی پلاٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مثنویوں کے پلاٹ سادہ ہوتے ہیں اور قصہ ابتدا اور ارتقا کی منزلوں سے گزرتا ہوا اختتام کو جاتا ہے۔

مثنوی کی گردار نگاری

کردار نگاری مثنوی کا اہم حصہ ہے۔ اردو مثنوی کے قصوں میں عام طور پر بادشاہ، شہزادہ، شہزادی، وزیرزادے، مائیں، کنیزیں، جادوگر، نجومی اور د یوجن اور پری جیسے کردار ملتے ہیں۔

قدیم مثنویوں میں فوق الفطری عناصر

قدیم مثنویوں میں فوق الفطری ہستیوں کو بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ فوق الفطری کردار مختلف حیوانی یا انسانی شکلیں اختیار کر کے انسان سے اپنی من مانی کروانے کی کوشش کر تے ہیں ایک شکل سے دوسری شکل میں تبد مل ہو جانے کی قدرت بھی ان میں پائی جاتی ہے۔

فوق الفطری ہستیوں کو بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ فوق الفطری کردار مختلف حیوانی یا انسانی شکلیں اختیار کر کے انسان سے اپنی من مانی کروانے کی کوشش کر تے ہیں۔ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہو جانے کی قدرت بھی ان میں پائی جاتی ہے۔

مثنوی میں جذبات نگاری

مثنوی نگار کرداروں کے جذبات کی تمام باریکیوں کو اپنے پیش نظر رکھتا ہے، جب دو کرداروں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو صداقت اور حقیقت پسندی سے کام لے کر کرداروں کے حسب مراتب ان کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ قدیم اردو کی مثنویاں غواصی مینا ستونتی، نصرتی کی گلشن عشق‘‘ میں پھر میرحسن کی ”سحرالبیان میں اور میر کی ’’در یاۓ عشق‘‘ وغیرہ میں جذبات نگاری کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔

مثنوی میں مکالمہ نگاری

مکالمہ نگاری داستانوی مثنویوں کی کامیابی کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ جز و دوسری اصناف سے کہیں زیادہ مثنوی میں اپنا اثر دکھا تا ہے، کیوں کہ یہاں نظم کا پیمانہ نثر کے مقابلے میں نہایت محدود اور نپا تلا ہوتا ہے۔ بہترین مکالمہ نگاری کی مثالیں کئی مثنوی میں ملتی ہیں خصوصا گلزارشیم‘‘ کو اس سلسلے میں بیحد مقبولیت حاصل ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

پوچھا اے آدم پری رو
 انسان ہے پری ہے کون ہے تو

 کیا نام ہے اور وطن کدھر ہے
 ہے کون سا گل ؟ چن کدھر ہے

 دی اس نے دعا کہا با صد سوز
 فرخ ہوں شہا! میں ابن فیروز

مثنوی منظر نگاری

کسی قدرتی منظر یا واقعہ کے خارجی ماحول اور مادی عناصر کی آئینہ داری کو منظر کشی کہا جا تا ہے۔ داستانوی مثنوی کے علاوہ راست طور پرلکھی جانے والی مثنویوں میں بھی منظر نگاری کے انتہائی کامیاب نمونے مل جاتے ہیں۔ صنف مثنوی میں اشعار کی تعداد پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ مثنوی دس اشعار کی بھی ہوسکتی ہے اور دس ہزار اشعار کی بھی ہوسکتی ہے۔ رستمی کی مثنوی خاور نامہ‘ جو میں ہزار اشعار پر مشتمل ہے یہ اردو کی سب سے زیادہ طویل مثنوی ہے۔

مثنوی میں شاعر اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کسی بھی موضوع کو اپنا سکتا ہے۔ وہ قصیدہ گو کی طرح کسی کی تعریف بیان کر سکتا ہے۔ مرثیہ نگار کی طرح کسی کی موت پر رنج وغم کا اظہار کر سکتا ہے۔ غزل گو کی طرح عشقیہ فضا پیدا کر سکتا ہے، اخلاق یا اصلاح کی باتیں پیش کر سکتا ہے، تصوف یا مذہب پر اظہار خیال کر سکتا ہے، کسی جنگ کا نقشہ قلم بند کر سکتا ہے یاکسی تقریب کی روادا بھی پیش کر سکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے