Ticker

6/recent/ticker-posts

علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی Allama Iqbal Ke Halat E Zindagi Biography

علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی Allama Iqbal Ke Halat E Zindagi Biography

شیخ محمد اقبال ۲۲ / فروری ۱۸۷۳ء کو پنجاب کے شہر، سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد کشمیری برہمن تھے۔ اقبال کی ابتدائی تعلیم سیال کوٹ میں ہوئی۔ پھر اسکاچ مشن کالج میں داخل ہوئے۔ یہاں انہیں مولوی میر حسن تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ایف۔ اے کا امتحان انگریزی اور عربی میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کرنے کے بعد 1899ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے فلسفہ میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ لاہور میں اقبال نے فلسفہ کے پروفیسر میٹرآرنلڈسے بھی بڑا علمی استفادہ کیا۔ اوریئنٹل کالج لاہور میں فلسفہ، تاریخ اور معاشیات کے پروفیسر رہے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور انگریزی کی تعلیم دیتے رہے۔ اس دوران آپ نے اردو کتاب علم الاقتصاد " شایع کی ۱۹۰۵ء میں اعلی تعلیم کے لیے لندن گئے۔ اور وہاں ٹرینٹی کالج کیمبرج یونی ورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی۔

انگلستان میں پروفیسر براؤن نکلسن اور سارلی سے بھی استفادہ کیا۔ اقبال وہاں سے جرمنی گئے اور میونیخ یونی ورسٹی سے " ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقاء" کے موضوع پر مقالہ لکھ کر، ڈاکٹر آف فلسفہ کی ڈگری حاصل کی۔ اور قانون میں بیرسٹری کا امتحان میں بھی کمیابی حاصل کی۔ قیام انگلستان کے دوران عارضی طور پر لندن یونی ورسٹی میں پروفیسر عربی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۰۸ء میں اقبال ہندوستان واپس ہوئے اور لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔ ۱۹۲۲ میں حکومت برطانیہ نے ان کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں " سر کا خطاب دیا۔ اقبال ۱۹۲۶ء میں صوبہ پنجاب کی مجلس قانون سازکے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں مدراس گئے جہاں انہوں نے اسلامی افکار کی تشکیلِ جدید کے موضوع پر اہم خطبات پیش کیے۔ 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے الہ آباد کے اجلاس میں تاریخی خطبہ پڑھا۔ 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے اور واپسی میں ہسپانیہ، ترکی اور فلسطین وغیرہ ممالک کی سیر کی۔ ۱۹۳۲ ء میں سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہم راہ نادر شاہ کی دعوت پر کابل کے جشن استقلال میں شرکت کے لیے افغانستان گئے۔ ۱۹۳۵ء میں پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے، اسی زمانے میں ان کی طویل علالت کا سلسلہ شروع ہوا اور ۲۱ / اپریل ۱۹۳۸ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ لاہور کی شاہی مسجد میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
 
 

اقبال اپنے عہد کے ایک بڑے مفکر اور بلند پایہ شاعر اور نثر نگار

اقبال اپنے عہد کے ایک بڑے مفکر اور بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے۔ وہ بچپن ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ ان کے استاد میر حسن نے ان کی ہمت افزائی کی۔ شاعری کے ابتدائی دنوں میں مشہور شاعر داغ دہلوی سے انہوں نے اپنے کلام پر اصلاح لی تھی۔ ان کے ابتدائی دور کے کلام میں چند غزلیں داغ کے رنگ میں بھی ہیں۔ اقبال کا پہلا مجموعہ کلام بانگ درا ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ ابتدائی دور کی شاعری میں اقبال نے زیادہ تر وطنی نظمیں کہی ہیں اور بعض نظموں میں انسان اور فطرت کا تقابل کرتے ہوئے انسان کی حقیقت کو جاننے اور انسانی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش متی ہے۔ اقبال نے اپنے تصورِ خودی کے وسیلے سے فرد کی شخصیت کی تعمیر کے لیے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ایک نہایت بلند پایہ مفکر اور شاعر تھے اور انہوں نے اپنی بلند پایہ نظموں کے ذریعے سے اردو شاعری کی وقعت و حرمت میں اضافہ کیا ہے۔ فارسی میں انہوں نے اسرار خودی، رموز بے خودی اور جاوید نامہ وغیرہ جیسے عظیم شعری کارنامے پیش کیے ہیں۔ فارسی شاعری میں ان کے اور مجموعے پیام مشرق اور زبور عجم وغیرہ بھی ہیں۔ اور بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ان کے اردو مجموعہ کلام کے نام ہیں۔ اقبال کی شاعری میں ایک فلسفی کی بصیرت اور شاعرانہ حسن کاری اور اثر انگیزی کا غیر معمول امتزاج ملتاہے۔ اقبال کی شاعری نے کروڑوں انسانوں کے دلوں کو متاثر کیا ہے اور ان کے طرز فکر میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ ان کے وسیلے سے انسانوں کو قوم نسل، ملک اور زبان وغیرہ کے امتیازات سے بلند ہو کر ساری نوع انسانی کی فلاح و بہبود کو اپنا نصب العین بنانے کی تلقین کی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے