Ticker

6/recent/ticker-posts

اقبال کی شاعری کی خصوصیات | اقبال کی غزل گوئی کی خصوصیات

اقبال کی شاعری کی خصوصیات | اقبال کی غزل گوئی کی خصوصیات

علامہ اقبال کی شاعری سے پہلے اُردو شاعری کا موضوع زیادہ تر عشق ومحبت کے حسین جذبات واقعات اور کیفیات سے پر ہوتے تھے۔اس دور کی شاعری میں واردات قلب کو خاص اہمیت اور اولیت حاصل تھی۔اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ اُردو شاعری کی تہذیب کا گہوار عام طور سے شہنشاہوں کے دربار میں ہوا کرتا تھا۔

محبوب سے محبت کا اظہار کرنا، بوس و کنار کی باتیں کرنا، عاشق معشوق کی بے وفائی اور دل ٹوٹنے کا بیان جیسے موضوعات سے اردو شاعری بھری ہوئی تھی۔ اردو کے اکثر شعرا اپنی اپنی محبت کی کہانی کو سنوارنے اور نکھارنے میں اپنی زندگی تمام کر دیتے تھے اور اسی کو شاعری کا کمال بھی سمجھتے تھے۔

علامہ اقبال کی شاعری کی خصوصیات

اقبال کی شاعری میں ان سب چیزوں کے لئےکوئی جگہ نہیں ہے۔ حالانکہ اقبال کی شاعری میں بھی عشق کا بھرپور بیان ملتا ہے لیکن اقبال کی شاعری میں عشق کا تصور مجازی اور دنیاوی نہیں بلکہ اقبال کی شاعری میں عشق کا مطلب اللہ اور پیغمبر سے ہے اور محبت کا مطلب وطن سے سچی محبت ہے۔ یہ اقبال کی شاعری کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیات ہے۔

اقبال نے اپنی فکری قوت اور تخلیقی صلاحیت کی بدولت شاعری کے میدان میں لازوال اور باکمال فکری و فنی کمالات دکھائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔اقبال کی شاعری میں فلسفہ کی عظمت،تازگی، جدت اور خوشگوار اسالیب شامل ہیں۔

اقبال نے محبوب ِ مجازی کے لب و رخسار اور اس کی شریں بیانی کو بیان نہ کر کےمحبوبِ حقیقی سے خطاب کیا۔علاوه ازیں اقبال نے اپنے افکار پر شاعرانہ انداز میں روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں فقر و درویشی، تصوف و مذھب، معاشرت اور وطن پرستی، مرد ِمومن جیسے موضوعات کو مکمل طور پر شاعری میں پیش کیا ہے۔

اقبال کی شاعری میں فکر اور تخیل کی بلند پروازی ہے۔ لفظی رعایتوں کو برتنے میں اقبال کو قدرتِ کمال حاصل ہے۔ان کی شاعری شاعرانہ رمز نگاری کی بہترین مثال ہے۔شاعری کا جوشِ بیان اور الفاظ کا رکھ رکھاؤ اور تازگی، حکیمانہ اشارات اور شاعرانہ فنکاری کے ساتھ طنز و مزاح کی چاشنی وشگفتگی خوب پائی جاتی ہے۔اقبال کی شاعری میں جمالیاتی محاسن کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔

اقبال نے اپنی شاعری میں جس مضون کو پیش کیا اُس میں بھرپور زندگی اور توانائی ڈال دی۔ اقبال کی اکثر غزلیں ان کی نظم کے مزاج سے قریب تر نظر آتی ہیں۔اقبال کی شاعری بذات خود نئی روایت کا سرچشمہ ہے۔اقبال شاعری کو اس مفکرانہ آہنگ کے دروازے پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں سے وہ اپنی روایات کو ایک نئے موڑ تک پہنچاتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں استعاروں سے زیاده مجردات سے کام لیا ہے اور جب کبھی استواروں سے کام لیتے ہیں تو ان کی نوعیت شناختی نشانات کی ہو جاتی ہیں۔ ان استعاروں کی حد بندی اتنا مشکل تو نہیں لیکن اقبال کے مکالماتی انداز کی وجہ سے وہ اپنے باطن سے جا ملتے ہیں۔

اقبال کی غزلوں کی خصوصیات

اقبال کی غزلوں میں، ان کے ابتدائی کلام کو چھوڑ کر، عام شاعروں کی طرح، عشق و محبت اور ہجر ووصال کی باتیں نہیں پائی جاتی ہیں۔ ان کے کلام میں گہرا فلسفہ اور فکری عنصر شامل ہوتا ہے۔ اقبال انسانوں کو آزادی، عزت اور خودداری کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اور انسانوں کو، چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے سر گرداں رہنے کے بجاۓ اعلی نصب العین کے حصول اور اعلی مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ خود داری اور دلیری کی مختصر زندگی کو، بزدلی اور بے غیرتی کی طویل زندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ جو شخص اعلی انسانی قدروں کا احترام کرتا ہے، اور ان کے لیے سینہ سپر ہو جاتا ہے، وہی اقبال کے نزدیک اعلی انسان ہے۔ ایسا انسان اپنے بلند اور دیر پا کارناموں سے ماحول پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ عام طور پر اقبال کے۔ پر اقبال کے شعروں میں خودداری، بے باکی اور بہادرانہ زندگی گذارنے کی تعلیم ملتی ہے۔

اقبال کے کلام میں ظاہری اعتبار سے بھی، فنی اقدار کی پاس داری ہے۔ وہ جس صنف سخن کو اظہار خیال کا ذریعہ بناتے ہیں، اس پر اپنے فکر و فلسفہ کے زیر اثر، مہرے نقوش بھی ثبت کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر غزلوں او نظموں میں یہ خصوصیات عام طور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔

کلام اقبال کے الفاظ بھی نہایت شیر یں اور سادہ ہوتے ہیں اور موقع اور صنف کے تقاضے کا بھی انہیں احساس رہتا ہے۔ اس لیے، ان کے کلام میں استعمال ہونے والے الفاظ، سادہ اور سبک ہوتے ہیں۔ محاورے اور ضرب الامثال بھی برجستہ ہوتے ہیں۔ تراکیب میں زیادہ تر فارسی رنگ غالب رہتا ہے اور معانی کے تقاضے کے لحاظ سے جدید اور خوش نما تراکیب وضع کرنے پر بھی اقبال کو قدرت حاصل ہے۔

اقبال کی شاعری کا آغاز، غزل گوئی کی خصصیات

اقبال کی شاعری کا آغاز، غزل گوئی سے ہوتا ہے۔ ابتدائی دور میں اقبال نے داغ کی تقلید کی اور ان ہی کے رنگ میں غزلیں کہتے تھے۔ اس لیے ان کے ابتدائی دور کی غزلوں میں داغ کا لب و لہجہ اور انداز پایا جاتا ہے۔ لیکن اقبال عمر اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ بتدریج تقلید سے بلند ہو گئے۔ اور اپنے ذاتی رنگ اور اپنی خصوصیات کو غزل گوئی میں شامل کیا۔ اس دور میں ان کی غزلوں میں عام رجحانات اور میلانات نظر آتے ہیں۔ اور عشق و محبت کی فرضی داستانیں اور واردات کا ذکر نہیں ملتا۔ اقبال نے آگے چل کر اردو غزل میں حکمت فلسفیانہ افکار اور متصوفانہ خیالات جیسے موضوعات کو بھی شامل کیا۔ اس لحاظ سے اقبال کی غزلیں بڑی حد تک دوسرے شعرا کی غزلوں سے ممتاز اور منفرد بن جاتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں، سیاسی معاملات اور بین الا قوامی مسائل کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ اس طرح اقبال نے غزل کو متنوع بنایا۔ یوں تو اقبال نے مثنویوں اور نظموں کے ذریعہ اردو شاعری میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ اور اقبال ایک ایسے بلند اور عظیم شاعر ہیں جنہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر اقبال اردو کے ایک نامور شاعر حکیم اور فلسفی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان اور یوروپی ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اقبال اپنے طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر کہتے تھے اور علم کی پختگی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں حکمت و فلسفے کے عناصر شامل ہونے لگے۔

اقبال کو فطرنا نظم سے زیادہ رغبت تھی۔ اس لیے اقبال نے ہر اہم موضوع پر خوب صورت نظمیں کہی ہیں۔ اقبال نے جہاں اردو شاعری میں مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، وہیں اردو نثر میں بھی اپنے کارنامے چھوڑے ہیں۔ ان کے خطوط میں بھی علم و ادب سے متعلق بے حد اہم نظریات ملتے ہیں۔

جہاں تک اقبال کی غزلوں کا حصہ ہے، ابتدائی دور کی غزلوں میں عام اردو شعرا کی طرح حسن و عشق کے تذکرے ملتے ہیں۔ داغ کا سا انداز نمایاں ہے۔ آگے چل کر اقبال نے غزل گوئی میں تقلید سے الگ ہو کر اپنی شان پیدا کی۔ اور غزل کے دامن کو نت نئے خیالات، افکار اور تصورات سے اتنا متنوع بنایا کہ ان کے معاصرین بھی اقبال کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ مجموعی  حیثیت  سے  اقبال کا شمار اردو اور فارسی کے نامور شاعروں اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ اور خاص طور سے ان کی غزلوں میں قومیت، وطنیت، اسلام، حب عالم، مذہب، سیاست، حکمت، فلسفہ، اخلاقیات اور تصوف کے رموز و نکات کی گرہ کشائی کی گئی ہے۔

اقبال کی غزلوں میں ان کے ابتدائی دور کی غزلوں کو چھوڑ کر عام شاعروں کی طرح عشق و محبت اور اہجر و وصال کی باتیں نہیں ملتیں۔ اقبال نے بہت سی غزلیں کہی ہیں اور ان کی غزلوں میں ایک فلسفی کا تجسس اور غور و فکر کا عنصر پایا جاتاہے۔ اور ان کی غزلوں میں حکمت فلسفیانہ افکار اور متصوفانہ موضوعات بھی پائے جاتے ہیں لیکن غزل کا رنگ و آہنگ اور الفاظ اور دیگر لوازمات غزل بھی پاۓ تو جاتے ہیں لیکن اقبال نے غزل کے مروجہ الفاظ میں نئے معانی اور نئے تصورات بھر دیئے ہیں۔ ان کی غزلوں میں سیاسی معاملات اور اپنے عہد کے بین الاقوامی مسائل کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ اس طرح اقبال نے غزل کو متنوع خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا کیا۔

اقبال نے اپنی مثنویوں، نظموں اور نظریفانہ کلام سے اردو اور فارسی شاعری میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ اور اپنے عہد کے مسائل اور مستقل موضوعات جیسے قومیت وطنیت اسلام، محب عالم مذہب، سیاست، فلسفہ حکمت تصوف اور اخلاق کے رموز و نکات کی گرہ کشائی بھی کی ہے۔

اقبال کو زبان بیان اور الفاظ و محاورات پر بھی قدرت حاصل تھی۔ اور دیگر شعری لوازمات سے بھی وہ بہرہ ور تھے۔ لیکن ان کے کلام میں کہیں کہیں غلط مجاورے اور پنجابی زبان کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔

اقبال کو نظم نگاری سے خصوصی دلچسپی ہے اور انہوں نے بہت خوب صورت اور دل کش نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظموں میں مناظر کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ نادر اور حسین تشبیہوں اور استعاروں کا نظام بھی ملتا ہے۔

اقبال نے اپنے کلام میں یوروپی تہذیب اور وہاں کے طرز فکر اور طرز حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور وہاں کی مادہ، عریانیت اور اعلی انسانی اقدار کی کمی پر بہت افسوس کیا ہے۔

اقبال نے عام طور سے انسانوں کو اعلی نصب العین اپنانے اور اعلی انسانی اقدار پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی ہے۔ ان کے ہاں انسانی محبت اور اخلاص کا عالم گیر تصور ملتا ہے۔ وہ عام انسانوں کو رنگ و نسل، وطن اور مذہب و ملت سے بلند ہوکر انسانی بھائی چارگی کو عام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے اکثر تصورات میں مشرقی تعلیم و تربیت اور مشرقی تہذیب کی بڑی قدر دانی ملتی ہے۔

اقبال نے بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کی بصیرت میں بڑی گہرائی تھی۔ انہوں نے فکر و فلسفہ اور غور و فکر سے کام لیتے ہوئے، شاعری میں بھی ان اثرات کو شامل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال عام اردو شاعروں سے بہت ممتاز اور بے مثال شاعر سمجھے جاتے ہیں۔

اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں

اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں کہ باکل میر تقی میر کی طرح ان پر بھی ان ہی کا شعر اور اس کی حقیقت صادق آتی ہے۔آپ نے جذب میں ڈوب کر فرمایا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حضرت علامہ اقبال سیالکوٹ میں میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔والدین کی مذہب پرستی نے اقبال ؒ کے دل میں ایمان کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ اور بعد میں مولوی میر حسن کی صحبت نے مزید چار چاند لگا دئے۔ گریجویشن کے بعد فلسفیانہ رخ سر تھا مس آرنلڈ کی خاص تربیت کی وجہ سے میسر آیا۔ حضرتِ علامہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر انورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں۔

’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘

اٹھائے کچھ ورق لالے نے،کچھ نرگس نے،کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

آپ نے گلشنِ شعر و ادب کی روش روِش پر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو تا قیامت حضرتِ انسان کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔ شاید اس قبولِ عام کا احساس خود حضرتِ علامہ اقبالؒ کو بھی نہیں تھا۔اسی لیے عالمِ بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔

اِقبال بھی اِقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں مسخر نہیں واللہ نہیں ہے

علّامہ اقبال کے محاسنِ کلام

حضرت ِ علامہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی مالا میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کلام مجموعہ ہائے خصوصیات بن گیا۔ آپ کے چند محاسنِ کلام درج ذیل ہیں :

اقبال کا انوکھا اور اچھوتا اندازِ بیان

حضرتِ علامہ اقبال کا کل کلام خوبصورت اندازِ بیان کی دلیل ہے۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم، شیریں اور حسین لہجہ اختیار کیا۔ اپنے اس کلام کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔
اشعارملاحظہ ہو۔

اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید
پھر بھی اتر جائے ترے دل

اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید
پھر بھی اتر جائے ترے دل میں میری بات

نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے، جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی۔آپ کی شاعری ایونِ ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے۔آپ کا لہجہ،موضوعات،اور اندازِ بیان یکسر نرالہ اور نیا ہے۔

اقبا ل کی شاعری کے ادوار اور ان کی اہمیت

سر عبد القادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں آپ کی شاعری کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور داغ دہلوی کی شوخی اور فکرِ غالب سے آراستہ و پیراستہ ہے۔
اشعار ملاحظہ ہوں:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعده کرتے ہوئے عار کیا تھی

موت یہ میری نہیں اجل کی موت ہے
کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر پھر نہیں مرنا مجھے

فطری شاعر اقبال

علامہ اقبال کا ظہور بیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک اہم واقعہ ہے۔اقبال کو شعر کہنے کا عطیہ اللہ عزوجل کی خوص عنایت کے طفیل عطا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی آپ نے اساتذہ کے رنگ میں اشعار کہے۔نمونہ ملاحظہ ہو:

موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے

آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیالات کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالااور اپنی غزل میں قومی، اسلامی، نفسیاتی، اَخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی موضوعات۔ داخل کیے۔نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔

فردِ قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے — ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یو گویا ہوئے۔
’’ اِقبال کی شاعری آبِ حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔‘‘

آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ،سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو، آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔

صاحبِ پیغام شاعر اقبال

مولانا حالی نے جس شاعری کا آغاز کیا تھا اِقبالؔ اُسی شاعری کا نقطۂ کمال ہیں۔

وہ نقیبِ زندگی تھا نعرۂ جبرئیل ؑ تھا
بے حسی کی رات میں احساس کی قِندیل تھا

اقبالؔ اردو ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں اور صاحبِ پیغام بھی۔اسی لئے وہ وجدانی کیفیت میں پکار اُٹھتے ہیں۔

میری نوائے پریشانی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہو ں محرم راز درونِ مسیحانہ

آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں۔
” اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا۔حالیؔ،اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقشِ اوّل ہے اور حضرتِ اقبال کا کلام نقشِ ثانی۔

فلسفۂ خودی اور اقبال

اقبال کے تمام کلام میں اُن کا فلسفۂ خودی غالب ہے۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور،تکبر اور عز و ناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا۔اقبال نے خودی کے معنیٰ “قرب” کے لیے ہیں۔خودی یقین کی گہرائی ہے،سوزِ حیات ہے،ذوقِ تخلیق ہے،خود آگاہی ہے،عبادت ہے۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے۔
اسی لیے آپ خود سرشاری کی کیفیت میں فرماتے ہیں:
اشعار ملاحظہ ہوں۔

خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رِضا کیا ہے

عہد آفرین شاعر

اقبال کی شاعری ایک مسلسل سفر ہے،ایک مسلسل تجرِبہ ہے،اِن تجربات کی بھٹی میں تپ کر ہی وہ کُندن تیار ہوا ہے جس کی دمک نے ایک بار پھر اُن شاہراہوں پر اُجالا پھیلا دیا،جو دھندلکوں میں چھپ کر نظروں سے پوشیدہ ہو چکیں تھیں۔ اقبال ہی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ایک عہد پیدا کیا ہے اور اپنے عہد کے ذہن کو ترقی کی سمتوں سے روشناس کرایا ہے۔اسی کیفیت سے سرشار ہو کر آل احمد سرور فرماتے ہیں۔

” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔

اشعار ملاحظہ ہوں۔

اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ اُمراء کے در و دیوار کو ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو مُیَسّر نہ ہو روٹی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ ندم کو جلا دو

مُنظّم نظامِ فِکر

اقبال کے یہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے۔خودی،یقین، عشق اور عملِ پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کو فَقر کا پرتو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے۔یہاں آپ کی مراد مسلم نوجوان ہیں۔
اشعار ملاحظہ ہوں۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نِگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مذکورہ بالا اشعار و خصوصیات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو انقلابی سوچ کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بھی استحکام بخشا اور اسی مساعی کے نتیجے میں آج مستحکم پاکستان ساری دنیا میں اپنی ضو فشانیاں بکھیر رہا ہے۔گویا اسے مسللمانوں کی حیاتِ ثانیہ ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں فیض احمد فیض کی رائے بڑی مستحکم نظر آتی ہے وہ اقبال کی شاعرانہ اکملیت کی بابت فرماتے ہیں :

’’غرض اقبالؒ کے کلام سے شاعر کی جو تصویر نمایاں ہوتی ہے اُس میں فِراق نصیب عاشق کا سوز و ساز اور حسرت ہے۔بادشاہ کا سا غرور،گداز کا سا حِلم،صوفی کا سا استغناء، بھائی کی سی محبت اور ندیم کی سی مورت۔‘‘

الغرض اقبال کی شاعری میں ایک ایسا تنوع ہے جو آج کی نوجوان نسل کو کچھ کر گزرنے کا حؤصلہ بخشتا ہے۔ساتھ ساتھ ایک کامل مسلمان اور سلجھا ہوا دانشور بھی عطاکرتا ہے۔

آپ کی شاعری میں فکر و فلسفے کا ایسا گہرا رچاؤ ہے کہ جب ان کے کلام کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس اعتبار سے بھی ایک بہت عظیم شاعر ہیں۔

بلا شبہ آپ کے کلام میں روانی بھی ہے اور متانت بھی،برجستگی بھی ہے اور شائستگی بھی،ندرتِ خیال بھی ہے اور جذبات کی مصوری بھی۔آپ کی شاعری میں صنائع و بدائع کا بڑا چنیدہ انتظام و انصرام موجود ہے۔اسی خصوصیت کی بناء پر آپ کا کلام ایک مومن کیلیے چنگاری کا اثر رکھتا ہے۔

لہٰذا اسی کیفیت سے متاثر ہوکر اقبال ؒ کے شاعرانہ کمالات کے بارے میں ہم بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کی اس رائے سے متفق ہیں کہ :
’’ اقبال برِ صغیر ہی کے نہیں،بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک بر گزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔”
آپ نے کیا خوب فرمایا :

یقینِ محکم، عملِ پیہم،محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

تکلفانہ استعال اردو غزل کی سرگزشت میں کم و بیش ایک ان ہو نی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فلسفہ تہذیب اور سماجی علوم کے مختلف شعبوں کی اصطلا میں جو اقبال کی نظر سے گزر کر ان کے شاعرانہ وجدان نکل گئی تھیں۔ بال جبریل کی غزلوں میں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ اقبال کی یہ کوشش غزل کے نقاد کے لئے ایک نیا مسئلہ ہے اور اس سے ایک نئی بوطیقا کی ترتیب کا تقاضا کرتا ہے۔

بال جبریل اقبال کی مقبول ترین لیتی ہے کیونکہ اس میں فلسفہ قدرے کم اور شاعری زیاده ہے۔ ان غزلوں میں قدیم اور جدید دونوں طرزوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ تصوف اور تنزل کو شیر و شکر کر دیا گیا ہے۔ محجوب حقیقی سے خطاب کرتے ہیں عورت اور روائتی محجوب کا کہیں بھی تذکرہ نہیں یہ انداز اردو غزل کی وسعتوں میں فرائی پیدا کرتا ہے۔

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الامان بتکدہ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
 میری نگاہ سے حلل تیری تجلیات میں

عشق کے حوالہ سے بھی ان کا محبوب روایتی نہیں اور نہ ہی کوئی عورت ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اشعار میں اقبال کے نزول کا کمال دیکھئے۔

کانٹا وہ دے کہ جس کی کٹھک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

اس کے بارے میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں کہ اقبال کی غزل کی خصوصیت ان کا جوش بیاں اور روز بیت ہے ان کے الفاظ میں بلا کی ایمانی قوت پوشیدہ ہوتی ہے اور وہ حسن ادا کے جادو سے انسانی زمین کو مسحور کردیتے ہیں۔ ایک غزل میں انہوں نے مغ بچے کی زبانی درد اشتیاق کی شرح بیان کی ہے۔

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے

اقبال نے اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں ایک غزل لکھی تھی جس کا ایک شعر بطور نمونہ پیش خدمت ہے دیکھئے اس میں اقبال کا جوش بیاں کا اظہار کس طرح ہوتا ہے۔ اقبال کی اس مصرع سے اندازہ ہوتا ہے۔

موتی مجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطر جو تھے مرے عرق الفعال کے

مزاح کی شوخی و شگفتگی اور ان کا استعمال بھی اقبال بڑے دلکش انداز میں کرتے ہیں۔

تمام مضمون میرے پرانے کلام میرا خطا سراپا
ہر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے جو کا

جو ہے نماز بھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
بلا کے در سے مجھے کو امام کرتے ہیں

اقبال کی غزل میں سلاست اور سادگی کا عنصر بھی ان کی غزلوں میں پایا جاتا ہے۔ انہوں بند فلفیانه انگار کوسلاست اور بلافت سے ادا کیاہے۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں ہے
ذرا نم ہو تو مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ایک اور جگہ اقبال کہتے ہیں کہ۔

کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اقبال کے ہاں سوز و گداز بہت زیادہ ہے۔ اس کے بغیر غزل میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اقبال اور میر دونوں کی غزلوں کی جان سوز و گداز ہے۔ دونوں عشق کے بچے جذبے کے عکاس ہیں۔ ایک کا محبوب حقیقی ہے تو دوسرے کا مجازی۔

چنین دور آسمان کم دیدہ باشد
کہ جبرئیل امین را دل خراشد

چہ خوش دیری بنا کردند آنجا
پرستد مومن و کافر تراشد

ترجمہ۔۔ آسمان نے ایسا دور کم ہی دیکھا ہو گا، یہ جس نے جبریل امین (علیہ) کا دل بھی زخمی کر دیا۔ 
یہ کیسا اچھا بتخانہ تعمیر کیا گیا ہے، جہاں کافر بت تراشتا ہے اور مسلمان اس کی پوجا کرتا ہے (یعنی مسلمان کافروں کے نظریات کی پیروی کر رہے ہیں)۔

ارمغانِ حجاز

اقبال نے جگہ مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ مسلمان ملت کی خواب غفلت ختم ہو راہ سنت پر ہو مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔

اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

تشریح:اس شعر میں علامہؒ مسلمانوں کی حالتِ زار کا بیان فرما رہے ہیں کہ اس دور میں کفر سے نبرد آزما ہونے کے لیے قوتِ ایمانی کی ضرورت ھے جو کہ اے مرد مسلم! تجھ میں نہیں ھے تو اقبالؒ طنز کہہ رہے ہیں کہ (راہبی) کی طرز پہ کسی غار میں بیٹھ جا اور اللہ کو یاد کر۔ کیونکہ تو یہی سمجھتا ھے کہ محض نماز ,روزہ ہی عبادات ھیں! جبکہ جہاد اور کفر کے خلاف محاز آرائی تجھے گوارا نہیں۔

آج اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو یہ عقیدہ ہم میں بھی راسخ ہوتا جا رہا ھے۔اور ہمارے ناخلف حکمران امن کی آڑ میں اپنی بزدلی کو چھپا رہے ھیں۔ کیا کبھی تلوار کے فیصلے امن سے حل ہوۓ؟اور اگر جہاد اتن ا ہی برا ہوتا تو اللہ اس کو ہم پہ فرض نا کرتا۔ اللہ تعالی قرآن میں جا بجا جہاد کا حکم دیتا ھے۔ اور یہ بھی حکم دیتا ھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ان عورتوں اور مظلموں کے لیے جو کسی ظالم کے زیرِ نگیں ہیں اور مظلوم و محکوم ھیں۔ کیا کشمیرو فلسطین و برما کے مسلمانوں سے زیادہ کوئی مظلوم و محکوم ہو سکتا ھے؟مگر افسوس ہمارے ذہنوں میں (کولڈ وار کے ایک پراثر جال کے تحت) یہ بات ڈالی کہ جی اسلام امن کا درس دیتا ھے مگر ہمیں یہ کبھی نا سیکھایا گیا کہ اسلام جہاد کا بھی حکم دیتا ھے۔ افسوس

اقبال کے یہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے۔خودی،یقین، عشق اور عملِ پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کو فَقر کا پرتو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے۔یہاں آپ کی مراد مسلم نوجوان ہیں۔
اشعار ملاحظہ ہوں۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نِگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

 ناقدین کی آراء

مختلف تنقید نگاروں نے اقبال کی شاعری پر تبصرہ کیا اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت بجا سہی، لیکن وہ خود شاعری کی نسبت اپنے تصورات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے دَور کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پس منظر میں عالمی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
تمام ’شاعرانِ اثبات‘،مثلاً دانتے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں، انھی کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے 

فیض احمد فیض

’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر انور سدید)۔
اقبال اُن معدودے چند شعرا میں سے ہیں، جو محض جذباتی خلوص کے بل پر ایک فلسفیانہ پیغام کو شاعری کی سطح تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔دوسری جانب وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اقبال فلسفی، مفکر،قومی راہبر اور مبلغ بھی تھے، لیکن جس نے ان کے پیغام کو اصل قوت اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی، وہ ان کی شاعری ہی تھی۔
( فیض احمد فیض)۔

” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔”
۔(آل احمد سرور)۔

علامہ اقبال اردو اور فارسی زبان کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری روح کو تڑپانے والی اور قلب کو گرمانے والی شاعری ہے۔ ان کے یہاں ایک فلسفہ ہے ایک درس اور پیغام ہے۔ ان کی شاعری ایک مخصوص فکری و تہذیبی پس منظر میں سانس لیتی ہے۔ وہ ایک غیر معمولی فہم و ادراک اور شعور و بصیرت رکھنے والے شاعر تھے۔ علامہ اقبال نے ایک ایسے دور میں شاعری کی ابتداء کی جب ہندوستانی برطانوی حکومت کے زیر اقتدار تھا اور انگریزوں کا ظلم و جبر روز بروز بڑھتا جارہا تھا اور ہر طرف خوف و ہراس اور مایوسی و بے چارگی کی فضا طاری تھی۔ علامہ اقبال اس حالت سے بے حد متاثر ہوئے ان کے دل میں وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے ابتدائی دور میں چند انتہائی متاثرکن قومی اور وطنی نظمیں لکھیں۔ جیسے ہمالہ، صدائے درد، ترانۂ ہندی، نیا شوالہ اور تصویر درد اسی نوعیت کی مقبول نظمیں ہیں۔

علامہ اقبال کی اردو زبان میں پانچ کتابیں شائع ہوچکیں ہیں ان کی سب سے پہلی کتاب اردو نثر میں ’’علم الاقتصاد‘‘ ہے جو معاشیات کے موضوع پر اردو کی پہلی کتاب ہے۔ یہ 1903 میں شائع ہوئی اردو زبان میں علامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز شائع ہوچکے ہیں۔

علامہ اقبال اپنے حیات ہی میں عالمگیر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ آپ کے کلام کے متعدد ترجمے کئی بین الاقوامی زبانوں میں کئے گئے ان کے کلام میں عشق کی داستاں اور فراق کی نوحہ گیری نہیں بلکہ اس میں قومی ہمدردی کے جذبات ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایک جوش اور ولولہ ہوتا تھا۔ مسلمانوںکی گرتی ہوئی حالت اور سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے پیش نظر اقبال نے ایک ایسا نسخہ کیمیا پیش کیا جس کے اجزا حوصلہ مندی اور خودداری تھے، وہ اپنی نظموں کے ذریعہ اپنی قوم کی توجہ مادہ پرستی سے ہٹا کر خدا پرستی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک مفکر، مصلح قوم، اخوت کے پیکر اور دانائے قوم بھی تھے۔ جس کے لئے انہیں ’’سر‘‘ اور ’’علامہ‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔

علامہ اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری حب وطن کے جذبہ سے سرشار ہے۔اپنے وطن ہندوستان سے ان کی والہانہ محبت اور پھر فرنگیوں کے تحت ان کی غلامی نے انہیں بہت متاثر کیا اور اسی لئے انہوں نے تصویر درد اور نیا شوالہ جیسی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ 1905 کے دورۂ یوروپ نے اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقاء میں ایک انقلاب پیدا کردیا یہاں سے ان کی فکر میں وسعت اور دل میں ایک عالمگیر اخوت کا جذبہ پیدا ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ وطنیت کے نظریہ کیعلاوہ ایک ایسی عالمگیر جمعیت کا تصور ڈھونڈنے لگے جس میں سب کے لئے اخوت و ہمدردی اور عدل و انصاف ہو اور وہ انہیں اسلامی تعلیمات میں نظر آیا۔ اسی وقت سے وہ ملی شاعر ہوگئے اور مسلمانوں کی ذہنی تعمیر نو میں لگ گئے اور ’’حکیم الامت‘‘ کے نام سے یاد کئے جانے لگے۔ ان کے دوسرے مجموعے ’’بال جبریل‘‘ میں لینن، مسولینی اور نپولین جیسے سیاسی رہنماؤں پر بھی نظمیں ملتی ہیں اور ان کا تیسرا مجموعہ کلام ضرب کلیم ہے جو 1936 ء میں شائع ہوا اس کی بیشتر نظمیں وہ ہیں جن کا تعلق حالت حاضرہ سے ہے، مثلاً اشتراکیت، کارل مارکس کی آواز، انقلاب، جمہوریت اور جمعیت الاقوام ان سب موضوعات پر ان کی نظمیں بہت بصیرت افروز ہیں اس مجموعہ کلام کو علامہ اقبال نے حالت حاضرہ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا۔

علامہ اقبال اردو شاعری کے وہ گوہر آبدار ہیں جن کی چمک نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے ان کی فکر ان کے موضوعات اور ان کے فن کی کوئی حد نہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کے رخ کو موڑ دیا اور زندگی کے حقائق کا ایک وسیلہ بنایا۔ علامہ اقبال کی شاعری نے اردو شاعری کا مزاج بدل دیا۔ اس میں بے چارگی، اداسی اور محرومی کا جو انداز تھا اس کی جگہ ایک توانائی، امنگ اور ولولہ پیدا کیا۔ علامہ اقبال کا کلام آزادیت کا علم بردرا اور حریت کا آئینہ دار ہے اور شاعری کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسرا شاعر ہو جس نے شعوری طور پر اپنے زمانے کو اتنا متاثر کیا ہو ان کی شاعری بلاشبہ عہد آفریں شاعری ہے۔

علامہ اقبال نظم کے ساتھ ساتھ غزل کے بھی ایک کامیاب اور مقبول شاعر ہیں۔ انہوں نے غزل کی حریفانہ کیفیت کو یکسر بدل دیا اور ایک صحت مند اور پاکیزہ قلب عطا کیا اور غزل میں ایک نئی جان ڈال دی۔ علامہ اقبال کی غزلوں میں فکر انگیز جوش بیان اور صحت مند روایات کا اظہار ملتا ہے۔ ان کا جذبہ و مستی ان کی غزلوں کی روح رواں اور جان ہے۔ تشبیہات واستعارات، اصلیت جوش، شاعرانہ مصوری، جوہر، بلاغت ان کی غزل کے خاص جوہر ہیں۔ علامہ اقبال نے غزل کو عامیانہ روش سے الگ رکھا۔ ان کی غزلوں میں اچھی اور معیاری شاعری کے تمام لوازم پائے جاتے ہیں۔ مثلاً تنوع، تاثر،شائستگی، نزاکت اور نغمگی سبھی ان کے غزلوں میں موجود ہیں۔

اقبال کے تجربات اور شاعری کی دنیا بڑی وسیع ہے انہیں مناظر فطرت، انسانی سیرت اور بین الاقوامی مسائل کو پیش کرنے میں انہیں یدطولی حاصل ہے۔ ان کے کلام کی صرف یہی خوبی نہیں کہ وہ اپنے دور کی خصوصیات کی ترجمان ہیں بلکہ ان کے کلام میں زندگی سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کا تخیل گوئٹے، رومی، شکسپیئر، ملٹن اور غالب سے ہمنوائی کرسکتا ہے۔ اقبال کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ ایک نئے دور کے بانی تھے اور ترقی پسندانہ خیالات کے اور ان کی غیر معمولی شخصیت نے قدیم و جدید علوم کے ذخیروں کو کھنگال کر اپنی ذاتی غور و فکر سے خودی، جنون، ذات، فرد و عشق کے مضامین کو ایک مستقل نظام کی شکل میں ترتیب دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا ان کے کلام میں درد و سوز بھی ہے، عقل و عشق کا بیان بھی ہے اور حسن کی تعریف بھی ہے۔ان کے نغموں کی سچائی انسانی ضمیر کو روشن کرتی ہے۔ غرض اردو ادب میں اقبال ایک ایسے عظیم شاعر ہیں جس پر دنیا ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔
سرزمین ہندوستان کے آسمان ادب کا جگمگاتا ستارہ اپنی شاعری کی روشنی سے ساری قوم و ملک کو بصیرت عطا کرکے 21 اپریل 1938 میں خود بے نور ہوگیا، لیکن جب تک اردو زبان و ادب زندہ رہیں گے علامہ اقبال کا نام بڑے ہی ادب و احترام سے لیا جائے گا کیونکہ وہ صرف ایک عہد ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ عالمگیر شخصیت کے مالک تھے ان پر اردو ادب جتنا بھی ناز کرے کم ہے

اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ

اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ، مرزا اسد اللہ خان غالب اور علامہ محمد اقبال میں بہت کچھ مشترک ہے۔ اگر میں اوتار دیوتا قائل ہوں تو میں یہ کہوں گا کہ مرزا اسداللہ خان غالب کو اردو اور فارسی شاعری پسند ہے۔ وہ پھل پھولے اور شاعری کے لان کو سیراب کرے اور وہ پنجاب کے ایک کونے میں پیدا ہوا جس کا نام سیالکوٹ ہے اور اس کا نام محمد اقبال تھا۔،،

اقبال کی پہلی کتاب کی پیش کش میں، سر عبد القادر نے غالب کی شاعری سے مماثلت کی نشاندہی کی۔ اسی سے ہمیں اقبال کی شاعری کے بہت سے مصنوعی عناصر معلوم ہوئے ہیں۔ غالب نے فلسفیانہ مضامین کو بیان کرکے اردو شاعری میں ایک نیا انداز متعارف کرایا تھا جسے اقبال نے کمال میں لایا۔ اقبال گہری فکر و دانش کے شاعر ہیں۔ اقبال نے تہذیب و ثقافت کے تمام پہلوؤں اور انسانی زندگی میں مذہب کے کردار پر غور کیا۔ 

ادب کی ثقافتی اہمیت۔ 
کائنات میں انسان کا مقام میں ایک نیا جمالیاتی پیدا ہوتا ہوا دیکھ دکھائی دیتا ہے۔

کسی بھی بڑے شاعر کے بارے میں بات کرتے وقت ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شاعری اور ادب کی اپنی ایک منطق ہے جو فلسفہ اور زندگی سے بہت مختلف ہے۔ لہذا، کسی کو شاعری اور ادب سے حتمی نتیجہ اخذ کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اور جلد بازی کے نتائج اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو شاعری کی مجموعی تفہیم کے مطابق نہیں ہیں۔

فکری اور فنکارانہ طور پر اقبال کی شاعری کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کا موازنہ دنیا کے عظیم شاعروں سے فنکارانہ انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے مربوط افکار اور دینی تعلیمات کو شامل کرکے اردو شاعری میں ایک نیا انداز پیدا کیا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کا استعمال مسلم قوم کے زوال کے خاتمے اور مسلم احیا کا عظیم کام کرنے کے لئے کیا۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں۔

اقبال کی شاعری اردو ادب کے لیے بہت اور اس کی بہترین خیالات کی دولت بے مثال ہے۔ شاعری کو عام طور خوشی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، نیکی کا کام نہیں۔ زیادہ تر شاعری ایسی ہی ہے، لیکن ایک قسم کی شاعری ایسی ہے جو گرہیں بلند کرتی ہے اور تھکے ہوئے لوگوں کے دلوں کو تقویت دیتی ہے۔ انگریزی کے شاعر ٹینی سن نے کہا ہے کہ ایسی شاعری جو قوم کے قلب کو تقویت بخشتی ہے اور اس کی روحیں بلند کرتی ہے ان کو اعلی خوبیوں میں سے ایک سمجھا جانا چاہئے۔ ‘‘

خلیفہ صاحب نے بجا طور پر اقبال کی شاعری کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے جو خود اقبال کو بہت پسند آیا تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے ملاقاتوں میں یہ کہتے رہتے تھے کہ وہ شاعر نہیں ہیں اور فنی خوشنودی پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں، لہذا ان کی شاعری وہ پیغام دینا تھی جو وہ اپنے لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ ان کے واضح اعتراف کے باوجود، اقبال کو شاذ و نادر ہی تکنیکی خامیاں مل گئیں جن کو ناقص سمجھا جاسکتا ہے۔ اقبال نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا جس کی وجہ سے انھیں شعری علامتوں کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اقبال کے معاملے میں، الفاظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور الفاظ اور معنی کامل ہم آہنگی میں ہیں۔ اگر ہم اقبال کی شاعری لغت کو دیکھیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری لغت میں بہت سے الفاظ شامل کیے جو عام طور پر غیر شاعرانہ سمجھے جاتے تھے اور انہیں شاعری سے دور رکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ، اقبال نے بہت سے الفاظ نئے معنی میں استعمال کیے۔ اس ضمن میں عابد علی عابد کا بیان معروف ہے۔

"اقبال ان شاعروں میں سے ایک ہیں جو نہ صرف اپنے کلام کی ادبی خوبیوں کی وجہ سے بلکہ ان کے مطالبات اور معانی کی وجہ سے بھی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ تر الفاظ اور تراکیب علامتوں کا مجموعہ ہیں۔ تغزل کی شرائط اور اپنے قدیم معانی میں تصوف، گویا کہ انہوں نے الفاظ اور طاقت اور غصے سے ایک نئی زندگی کا سانس لیا۔ نشانات اور علامتوں کو سمجھنا ابھی مشکل ہے، لیکن جب الجھن میں ہے۔ اگر کسی لفظ یا فقرے پر اثر پڑتا ہے۔اگر ایسا ہے تو، چہرہ اکثر علامتی شکل اور اس کی علامتی اہمیت کے سوا کوئی دوسرا علامتی معنی پیدا کرنے کے لئے قاری کو گمراہ کریں۔اقبال کے معاملے میں، نشانیاں واضح اور الگ ہیں، کیا علامتیں پیچیدہ اور پراسرار ہیں؟


اپنے بیان میں، عابد صاحب نے اقبال کے طریقہ کار اور ان کی علامتوں اور طلسموں کی اہمیت کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کا کوئی دوسرا واقعہ ان کے لئے مشکل نہیں ہے، جس کی وجہ سے اقبال کی تقریر بھی قارئین کے لئے پیچیدہ اور مبہم ہے۔ ہے کبھی کبھی یہ مشکل اور پیش کش کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب میں، عبد اللہ اقبال کے قواعد اور افہام و تفہیم کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن کا اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ وہ اقبال کو سمجھنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔ اقبال نے خاکہ خود تیار کیا۔ اقبال نے بڑی مہارت سے اس راستے کا انتخاب کیا اور اپنی منزل تک پہنچا۔ اقبال کے فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور اس کے بارے میں لکھنا ابھی باقی ہے۔

یہاں ہم اس سمت میں ایک مختصر نقطہ بنانا چاہیں گے۔ اقبال نہیں چاہتے تھے کہ جنات کی آواز اور افکار کو شاعری میں پیش کیا جائے، یہ اردو شاعری تھی۔ یہ آپ کے افکار کی آرٹ دنیا ہے۔ وہ اس فکر کی مطلقیت پر مبنی تھا، دونوں طبقات کے مابین مشترکہ تذکرہ شاعری کی تخلیق ہے۔ ڈاکٹر عبد المغنی کا بیان قابل ذکر ہے۔

"اقبال کی فکری پختگی اور ان کا آرٹ بلاگ الگ الگ ادارے نہیں ہیں، وہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ تخلیق کے لمحے میں، شاعری مکمل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اور اس انضمام کا نتیجہ صرف یہی ہے۔ ترکی کی ترتیب اجزاء، جس کے اجزاء ایک علیحدہ ترک شہری سے کھو گئے ہیں اور ایک لازمی جزو بن گئے ہیں۔جوش اور فن دونوں کے ایک ہی وقت میں۔یہ سب اقبال کے نظریات اور اشاعتیں ہیں۔نہ صرف ان کے مشاہدے اور مطالعات ہیں۔وہ بھی ہیں احساسات اور جذبات۔یہی ہے کہ تجربات اور بونے بارہ بن جاتے ہیں۔ واقعات بدل جاتے ہیں حقائق وحدت۔کائنات اور زندگی کے تمام مناظر اور تخلیقات اتحاد میں بدل جاتی ہیں۔ اقبال کے فن میں وحدت و اتحاد ہے افکار و نظریات کا مرکب۔ تمام عناصر۔ تمام ضروری عناصر۔ "

ڈاکٹر عبد المغنی نے اقبال کی فکر و فن کے فضل سے تخلیق کردہ نظموں کے کردار اور اہمیت کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ تاہم، اس بیان پر طویل بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس میں بہت کچھ شامل کیا جاسکتا ہے، لیکن یہاں ہم اقبال کے فن پر بحث ختم کردیتے ہیں کیوں کہ بعد میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم اقبال کی شاعری پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔۔ کیا جائے گا

اقبال کی غزل گوئی

اردو شاعری کی صنف اس صنف کا ایک عمدہ تخلیقی تجربہ ہے جس میں وہ ڈوبا ہوا تھا۔ اردو شاعری میں کسی بھی شاعر کے فیصلے کا معیار نہیں تھا۔ ولی، میر، درد، سوڈا، غالب، آتش، داغ اور بہت سارے مشہور شاعر اردو شاعری میں ان کے عظیم مقام کی وجہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گانے کے میدان میں عمدہ تخلیقی تجربہ ہے۔

اقبال نے شاعری کا آغاز بھی کمپوز کیا۔ ابتدائی طور پر اس میں بھی اصلاح کی ضرورت تھی جو پھر ہندوستانی شاعرانہ منظر پر حاوی تھا۔ اقبال کا غزہ کا ابتدائی دورہ واضح ہے۔ اس میں غزالی یات بنگی دارا کا پہلا حصہ بھی شامل ہے۔ اس میں ان گانے بھی شامل ہیں جو اقبال کے بنگی دارا میں شامل نہیں تھے، وہ اقبال کی باقیات میں شامل تھے۔

مجموعہ اقبال

 (صفحہ 124)
موجودہ صدی کے آغاز میں اگر ہم برصغیر میں مذکورہ بالا گانا برصغیر میں اردو شاعری کا کوٹ (جس میں داگ تمام شعراء کے درمیان چھٹے نمبر پر تھا) پڑھیں تو عقل میں ایک مندر تھا۔ ہمارے پہلے گانے کی آواز ہمیں اس کا احساس دلاتی ہے، ہم اردو گانوں کی آواز کو ہلکا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس گیت کے شاعرانہ دائرے میں نظریاتی اور حیران کن مشاہدہ ہے۔ ایک لڑکے کا رومانس جو کبھی کبھی پوری زندگی شاعروں کا پیچھا کرتا ہے ہمارے شاعر سے دور نہیں ہے۔ شاعر مقبول مضامین میں فحش بیانات دے کر مطالبات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک ہی وقت میں، شیر سجاوٹ کا انداز رکھتا ہے۔ ایک اور خوبی جوئے کی آواز ہے، جو اپنے وقت کے شاعرانہ الفاظ سے انحراف کرنے کی شعوری کوشش ہے۔ یہ وہ خواب ہے جو شاعر کے ابتدائی الفاظ میں موجود ہے اور یہ عنصر موجود ہے، ایک عظیم شاعر بننا ممکن ہے۔ جنات کا شکریہ، اقبال کی زندگی واحد جگہ نہیں ہے جس میں ہمارے پاس صرف ایک ہی جگہ ہے۔

اقبال کی اس پہلی غزل کا تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر عبد المغنی نے لکھا ہے کہ

"روایتی اور تاریخی سامچے کے فن کو اس انداز تقریر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ پھر آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی جگہ کو بتایا گیا ہے کہ اس کی جگہ پھیل گئی ہے اور انقلاب کی جگہ تیار ہوگئی ہے۔ یہ ایک نئی چیز ہے۔ خاموش کاروبار کی سمت۔تغزل میں، ابی امتیاز ایک مجازی اور حقیقی امتزاج سے ابھرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں، ہاں، یہ شیراز کی ہوا میں اعظم کی تصویر اور نجد کا گانا ہے۔ محبت کی اصل روایت اس کے زمیں میں زمین پر نمودار ہوئی۔ قدیم شکل، اور صدیوں بعد، گردش کے ایک ہی دائرے کو پھر سے دیکھا گیا۔ کوا کا گھونسلہ جلد ہی جبرل کے اوپر اڑ جائے گا، اور دنیا کے ترانے میں جنس کا لفظ بالآخر ایک زبور بن جائے گا اور مشرق کے لئے ایک پیغام بن جائے گا۔ " 

مجموعہ اقبال (ص 133)
خریداری کے ساتھ اقبال کی یہ دھن خصوصی ہیں۔ اس کے بعد، شاعری ابتدائی تاثرات پر ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ اعترافی شاعری کی اہمیت اور مستقل موضوعات کے بارے میں بہت سارے موضوعات ہیں، جن کی ابتداء غزل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف، اقبال کی فنی مہارت اور انداز کیا ہے؟ اس حصے میں تین یا چار دھنیں بہت لمبی ہیں۔ باقی غزلوں میں بھی بہت اشارے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قادر الکلامی کا ایک انداز ہے۔ اقبال کی ان غزلوں کی صحیح جگہ، جیسا کہ ہم اوپر بیان کرتے ہیں، تب ہی معلوم ہوسکتا ہے جب ہم اس دور کے شاعرانہ منظر میں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے بیان کی ناکامی یہاں معلوم ہے۔

اس دور کے ادبی پس منظر خصوصا دھن دیہات کی عمومی روایت کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، راگ اصلاحات میں موجودہ اجتہاد کی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ شاعری اور ادبی حلقوں میں، رجب اب بھی ڈوگ وامیر کا سکہ تھا۔

 مجموعہ اقبال (ص 163)
غزلوں کے دوسرے حصے میں جن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا وہ ہیں محبت و فلسفہ، علم و حکمت، زندگی اور وقت۔ آو اور اس رنگ کا ایک حصہ تیسری غزل میں زیادہ نمایاں ہے۔ جس پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ حصہ دوم کے یہ گانے اقبال کے نقطہ نظر کی علامت ہیں۔ اب اقبال نے روایتی موضوعات سے ایک پیچیدہ موڑ لیا ہے اور یہ فطرت کی طرف سے کوئی نظم نہیں ہے۔ اسی دوران، گانے میں ایک معمولی سی تبدیلی بھی آئی، جو بال جبرل کی دھنوں کی خصوصیت تھی۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے تحریر کیا ہے۔

اشعار کے بعد واضح ہونے والی غزلوں کی تقریر کے انداز کا مطالعہ بھی نظریات اور جنات کا ایک بہت ہی پیچیدہ اور عین مطابق اظہار ہے، جس کا آج تک شاید ہی غزل میں اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ اور استعارے اور اشارے پختگی اور نفاست کے جذبات ہیں۔ کیا یہ جلد ہی کسی گانے کی آواز میں بدل جاتا ہے؟ اگرچہ یہاں تغزل کی کوئی تصویر باقی نہیں ہے، اس سے پہلے بدر جاہ کو مزید آگے جانا پڑے گا۔ ‘‘

عبد المغنی سے اختلاف کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے اقبال سے بہت سی اہم خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ اس سلسلے میں، اقبال پر ایک نظر ڈالیں۔


جو موجِ دریا لگی یہ کہنے،سفر سے قائم ہے شان میری

گہر یہ بولا، صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا

 نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل،وہ تربیت سے نہیں سنورتے

ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا


مجموعہ اقبال (ص 164)
ہم اس دور کی اقبال کی غزلوں کا اختتام ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے ایک بیان سے کرتے ہیں جو ہمارے نقطہ نظر کے بہت قریب ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ اس مختصر مدت کے مختلف تجربات نے اقبال کی شخصیت کی وسعت اور تکمیل کا باعث بنی اور انگلینڈ اور جرمنی میں بہت سے مواقع میسر تھے اور ایسی صحبتیں انھیں طویل عرصے سے میسر تھیں۔ روح کی طاقت باقی رہی۔ چونکہ وسیع مطالعے اور مشاہدے نے اقبال کے ذہن کے زاویوں کو بدل دیا اور وہ مغربی تہذیب کے اندھیرے سے گزر کر اسلام کی زندگی کے منبع کی طرف گامزن ہوگئے۔ چنانچہ اس کے فن نے شعور کا ایک نیا احساس پیدا کیا۔ آج کی جدید تکنیک سے آگاہی حاصل کریں (حاصل کریں، حاصل کریں) جو جدید، جدید ٹولز کے ساتھ آتی ہیں۔

مجموعہ بانگ درا کا تیسرا حصہ علامہ اقبال کی وطن واپسی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مغرب میں، جہاں اس نے جدید علوم اور فنون کا مطالعہ کیا، مغربی فلسفہ اور قانون کا مطالعہ کیا، اسے جدید مغربی تہذیب اور اس تہذیب میں پائے جانے والے مختلف اداروں پر گہری نظر ڈالنے کا موقع ملا۔ جدید مغربی تہذیب کا موازنہ کرنے کے لئے مضبوط بنیادیں پائی گئیں۔ اس طرح، انہوں نے مغربی تہذیب اور جدید تعلیم کی بدانتظامی پر تنقید کی۔

اقبال نے سرمایہ دارانہ اور مغربی سیاسی نظام سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ وہ مشرق کے لوگوں کو اپنی دنیا کی تشکیل کا مشورہ دیتا ہے۔ اس دور میں ہمیں اقبال میں بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ہندوستان میں، قوم پرستی نے قوم کے تصور کی طرف لوٹنا شروع کیا۔ اقبال نے فارسی شاعری لکھنا شروع کی جو بعد میں اظہار خیال کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔ انہوں نے تصوف کے کچھ تصورات اور شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کی فکر کا یہ دور ایک ایسا دور ثابت ہوا جس میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اقبال کی اردو غزل کے لحاظ سے، انگلینڈ سے ان کی واپسی کے بعد کا دور بہت نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ انہوں نے اردو غزل میں ایک نیا لہجہ جوڑا۔ اس دوران اپنے یادگار غزلیں نظمیں لکھیں اور مضامین بھی۔ اقبال کی شاعری میں اسلوب، زبان و اظہار اور دیگر فنکارانہ لوازمات کے لحاظ سے، اقبال کی ان غزلوں کو ان کی نمائندہ غزل سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں اقبال کی کچھ مثالیں ہیں۔

کلّیاتِ اقبال

ص. 313)
اقبال کی مذکورہ بالا بہترین غزلیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ اقبال نے بھی یہاں آنے والے دوسرے بڑے شاعروں کی طرح اسلوب، موضوعات اور دیگر فنی سامان اپنائے تھے اور اگلی اردو غزل اردو ہوگی۔ وہ اشعار کے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے اٹھنے کو تیار تھا۔

مجموعہ بال جبریل کا آغاز بہترین غزلوں سے ہوتا ہے اور یہ اقبال کی اردو تقریر کی بہترین مثال ہیں۔ اگرچہ ایک زمانے میں بعض صحابہ کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ اقبال کی یہ شاعری غزل کے تحت نہیں آتی، کیوں کہ یہ غزل کے معیار پر پورا نہیں اترتی، یہ اعتراض اڑانے والوں نے اٹھایا تھا۔۔ قتل کو ایک فن سمجھا جاتا ہے، اور ایلیٹ نے جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ ہر عظیم مصنف اپنے ساتھ اپنا فنکارانہ معیار لاتا ہے اور ماضی کے تنقیدی نمونے اس کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ بیان ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ بال جبرل کی یہ شاعری یقینا اردو غزل میں ایک بے مثال اضافہ ہے۔ ان غزلوں نے اردو غزل کو ایک مکمل نئی سطح پر لے لیا۔ جدید غزل کی خصوصیات ان میں بہت نمایاں ہیں۔ اقبال کی غزلوں نے اقبال کے بعد اردو غزل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ اس حصے کی پہلی غزل ہے۔

کلّیاتِ اقبال ٗ ص. 345)
اقبال کی اس غزل میں ہمیں حمدیہ آہنگ ملتی ہے۔ شاعر کائنات کے اسرار کو کھولتا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے آس پاس موجود وسیع کائنات کے رازوں کو جاننے کے لئے بے چین ہے، اور وہ کائنات کے مختلف مظاہروں کو اپنے طور پر دیکھتا ہے۔ شاعر اپنے سامنے موجود چیزوں سے بالاتر حقیقت کو سمجھنے کے لئے بے چین رہتا ہے، جو ان سب چیزوں کا ماخذ ہے۔ یہاں ہمیں اقبال's کا رجحان زمین سے اوپر اٹھنے اور اسی مظاہر کی طرف کودنے کا لگتا ہے۔

بال جبرل کے اس حصے میں مجموعی طور پر 76 غزلوں پر مشتمل ہے اور یہ سب معیار کے برابر ہیں۔ ہر غزل میں ایک پہلو ہوتا ہے جو قاری کو موہ لیتے ہیں۔ ان غزلوں میں ہمیں فکر کا تسلسل نظر آتا ہے۔ یہ محبت اور پیار کے جذبات ہو؛ یا کائنات کے راز، شاعر ہر چیز کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا ہے۔ تصوف، فلسفہ اور الہیات کا سارا مکالمہ، جس کا اظہار محض نثر میں کیا گیا تھا، اب شاعری میں بدل رہا ہے۔

ان غزلوں کا انتخاب ایک مشکل معاملہ ہے اور اس غزل کی دھن کا انتخاب اور بھی مشکل ہے لہذا ہم جو مثالیں دے رہے ہیں وہ انتخاب کا نہیں بلکہ منظر عام پر آنے والی ہے۔

کلّیاتِ اقبال ٗ ص 349)
اس گیت یعنی غزل کی دھن بالکل درست ہیں۔ اب اقبال کمزور اور لمحوں کے دائرے سے آزاد ہیں، آفاقی اور ابدی کی جگہ پر آگئے ہیں۔ اب مجازی محبت ان کا سنگ میل ہے اور جب تک حقیقی محبت پوری نہیں ہوتی اس وقت تک نہیں ہے۔ وہ زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور وہ ان کے دلوں میں رہتے ہیں۔

مذکورہ غزل میں ہمیں علامہ محمد اقبال کی فکر کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی سخاوت ان کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلمانوں میں وہ اخلاص اور ایمان نہیں دیکھتے جو ماضی میں ان کا طریقہ تھا۔ اسی وجہ سے اقبال کی اس پوری غزل میں عدم شمولیت ایک خبروں کی زد میں ہے۔

بال جبریل کی غزلوں سے اور بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جہاں اقبال کی فکر اور فن کے امتزاج نے ایسی شاعری کو جنم دیا ہے کہ اقبال کے بعد اردو شاعری کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی۔ لیکن ہم یہاں اقبال کی صرف ایک غزل ریکارڈ کرکے ختم ہوتے ہیں اور ضرب کلیم اور ارمغان حجاز کی غزلوں کی طرف بڑھتے ہیں۔


Allama Iqbal Ki Shayari Ki Khusosiyat


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے