Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک خواب جو میں نے دیکھا : الوداعی تاثرات، جامعہ ام سلمہ Farewell Umm Salma University

ایک خواب جو میں نے دیکھا : الوداعی تاثرات، جامعہ ام سلمہ

ایک خواب جو میں نے دیکھا

(کہانی)

الوداعی تاثرات،
مقام۔۔ جامعہ ام سلمہ،
نام۔۔ طالبہ۔۔ ثنا راحت،
درجہ۔۔ عالمیت پنجم،۔ ( میٹرک)


صبح کا وقت تھا، سیر و سیاحت کیلئے باغ کی اور نکل گئی اسی دوران کہ پھولوں کا نظارہ کررہی تھی اچانک ایک آواز سنائی دی۔۔۔ چلو جلدی یہاں سے نکلو۔۔۔ اتنا سن سکی کہ میرے اوسان خطا ہو گئے، یہ آواز کس نے دی میں دیکھ نہیں سکی، صرف آواز بار بار سنائی دے رہی تھی، میں نے اس آواز کا پیچھا کیا تو خود کو ایک بہت بڑے جنگل میں پایا، چاروں طرف سناٹا تھا،مجھے وحشت سی محسوس ہورہی تھی وہ آواز بھی غائب ہو گئی کہ اچانک جنگل کے بیچ و بیچ ایک عمارت 🏢 نظر آئ، گھبرائ ہوئی تھی عمارت دیکھر کچھ ڈھارس بندھی میں نے لرزتے قدموں کے ساتھ اس عمارت کی جانب چلنا شروع کیا، قریب پہنچی تو ایک خاتون سے ملاقات ہوئی میری حالت دیکھ کر اس کو ترس آیا، اور مجھے اپنے ساتھ لے گئی، میرے بدن پر کپکپی طاری تھی، اس خاتون نے مجھے اپنائیت کے ساتھ تسلی دی جس سے میرے دل کو سکون ملا وہ کچھ پوچھ رہی تھی لیکن میں ان کی زبان سے نا آشنا تھی سمجھ سکتی تھی لیکن بول نہیں سکتی اپنے ہی زبان میں اس کی زبان ٹوٹے پھوٹے انداز میں ملا کر جواب دیا جس سے وہ میرا مقصد سمجھ گئی، وہ مجھے اندر لے گئی اور ہاسٹل کی سیر کرایا میں نے وہاں جو منظر دیکھا وہ کچھ اس طرح تھا۔۔۔

میں نے دیکھا کہ میری ہی طرح کثیر تعداد میں لڑکیاں ہیں، جو سلقے سے آپس میں باتیں کررہی ہیں، ان کی چال چلن بھی عمدہ ہے ہر ایک کے سر پر دوپٹہ ہے میں نے ہر ایک روم کا نظارہ کیا سب کا سامان سلیقے سے رکھا ہوا تھا، الماری کتابوں سے سجی ہوئی تھی، کہ اچانک مجھے گھنٹی کی آواز سنائی دی گھنٹی کی آواز سن کر سب بچیاں اپنے اپنے بستے میں کتابیں ڈال کر نقاب پہن کر ایک ہی سمت دوڑتی بھاگتی نظر آئی یہ میرے لئے حیران کن بات تھی کہ آخر اس آواز میں کیا ہے جسے سن کر سب ہاسٹل خالی کررہی ہیں میں بھی ان کے ساتھ جانا چاہی کہ اتنے میں اسی خاتون نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی تم ان کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ چلے گی ۔۔۔ میرا دل بے چین تھا یہ دیکھنے کیلئے کہ آخر وہ کہاں جارہی ہیں تھوڑی دیر بعد وہ خاتون مجھے ایک اور ہاسٹل میں لے گئی جسمیں الگ الگ کمرے بنے ہوئے تھے سب میں بینچ اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور سب لڑکیاں ترتیب سے بیٹھی کتابیں کھول کر پڑھ رہی تھیں یہ منظر میرے لئے نیا تھا حیرت بھری نظروں سے ھر ایک کو تک رہی تھی کچھ وقفہ گزرنے کے بعد کچھ عورتوں کے دیکھا جو کلاس میں داخل ہورہی تھیں دل ایک کشمکش میں تھا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے ؟ اس خاتون نے مجھے ایک کلاس میں بٹھا دیا میں نے جو کچھ بھی اس کلاس میں سنا جس سے بہت متاثر ہوئی یہ سلسلہ ایک لمبے وقفے تک چلا جی چاہ رہا تھا کہ میں سنتی رہوں میں نے اپنے بغل میں بیٹھی ایک لڑکی سے پوچھا کیا مجھے یہاں روز بیٹھنے کو ملے گا کہنے لگی پرنسپل سے بات کرنی ہوگی، میں نے پوچھا پرنسپل کون ہیں ؟؟ کہنے لگی تم جس کے ساتھ یہاں آئی ہو ان سے ملے وہ تمہاری رہنمائی کریں گی، میں اس کلاس روم سے جیسے نکلی اس خاتون کو اپنے سامنے پائی میں نے ان سے کہا کہ اس کلاس میں بیٹھ کر مجھے بہت اچھا لگا میں روز بیٹھنا چاہتی ہوں آپ میرے سلسلہ میں پرنسپل صاحب سے بات کریں، یہ سن کر وہ مجھے پرنسپل صاحب کے پاس لے گئی میرے قدم پر لرزہ طاری تھا پرنسپل صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے اپنی بات رکھی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہاں پڑھنے کیلئے دفتری کارروائی ضروری ہوتی تمہاری دفتری کارروائی کون کرے گا تمہارے گارجین کہاں ہیں؟؟ گارجین ۔۔۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن کہ نہیں سکی اتنے میں میرے کان میں سلام کی آواز سنائی دی نظر اٹھایا تو سامنے ابو کو پایا ان کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس جنگل میں ابو کہاں سے آگئے میں حیرت بھری نظروں سے ابو کو دیکھی جارہی تھی ان کی بھی نگاہیں میری طرف تھیں ابو کی آنکھیں ڈبڈبا سی گئی تھیں مجھے نہیں معلوم یہ خوشی کے آنسوں تھے یا غم کے انہوں نے میری طرف سے نظریں پھیر کر پرنسپل صاحب سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے ۔۔۔ میں نے اپنی بیٹی کی دفتری کارروائی کرالی ہے آپ دستخط فرمادیں اور پڑھنے کی اجازت دے دیں، یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، پرنسپل صاحب نے خوشی خوشی اجازت دے دی، والد صاحب کے ساتھ ایک بیگ بھی تھا جسمیں میری ضروریات کے سامان تھے وہ مجھے دے کر تسلی دیتے ہوئے اور میرے سلسلہ میں ذہن میں ایک خواب سجائے مجھ سے رخصت ہوگئے۔

اب میں یہاں کی ایک اسٹوڈنٹ تھی وقت گزرتا گیا میرے شعور بلند ہونا شروع ہوئے یہاں کے اساتذہ و معلمات سے علمی تشنگی بجھارہی تھی زندگی کی تربیت بھی ہورہی تھی سب لڑکیاں میری سہیلوں کی طرح تھیں وہ سب عمدہ اخلاق سے متصف تھیں ہر ایک سے میرے تئیں اپنائیت ٹپکتی تھی میں بھی ان میں رچ بس گئی گویا اب یہ ادارہ میرے گھر کی طرح ہوگیا تھا یہاں کی ہر ہر چیز سے مجھے الفت ہو گئی تھی جی چاہتا کہ زندگی بھر اسی روحانی فضا میں رہوں لیکن وقت میں وصال ہے تو فراق بھی ہے۔

ایک دن حسب معمول کلاس روم کی طرف آئ دروازہ سے متصل ایک بورڈ پر یہ اعلان چسپاں دیکھا جسمیں کچھ یوں لکھا تھا۔

جلد ہی فارغ ہونے والی طالبات کا الوداعی پروگرام ہونے والا ہے اس لیے خود کو سب تیار رکھیں۔
فارغ ہونے والی طالبات کی فہرست میں میں بھی تھی۔
اس اعلان پر نظر پڑتے ہی دل دھک سے رہ گیا، پاؤں تلے زمین نکل گئی، کچھ دیر کیلئے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، یقین نہیں آرہا تھا کہ جس مادر علمی میں ایک مدت گزاری جہاں کی علمی و روحانی فضا میں خود کو ڈھال کر علمی تشنگی بجھائی جہاں کی عطر بیز فضا سے خود کو معطر کیا جس کے گلشن میں طرح طرح کے پھول چنے، جس کی آغوش تربیت میں پلی بڑھی اس کو ایک دن خیرآباد بھی کہنا پڑیگا، کلاس کا وقت ختم ہوا تو بوجھل قدموں کے ساتھ ہاسٹل کی راہ لی نگاہیں چاروں طرف اٹھ رہی تھیں گویا کہ وہ آخری دیدار کررہی ہوں، میرے کانوں میں اساتذہ کے درس کی آوازیں گونج رہی تھیں کتابوں کے ساتھ گزرے أوقات یاد آرہے تھے نہ چاہتے ہوئے بھی کلاس روم کو الوداع کہنا پڑا اسی سوچ میں تھی کہ خود کو ہاسٹل کے دروازہ پر پایا ابھی اندر داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی کچھ کہ رہا ہے لیکن یہ آواز کدھر سے آرہی تھی مجھے نہیں معلوم چاروں طرف میں نے کان 👂 لگایا لیکن سمت متعین نہیں کرسکی اچانک آواز میں سختی پیدا ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہاسٹل کی سمت سے آرہی ہے میں کان لگا کر دھیان سے سننی لگی وہ کچھ اس انداز میں مخاطب تھی، ۔۔۔۔

رنجیدہ کیوں ہو کیا یہاں کی تربیت میں کچھ کمی رہی، کیا یہاں کی تعلیم سے مطمئن نہیں ہو ؟ کیا پڑھانے والوں نے کچھ کسر چھوڑی ؟ کیا انتظامیہ نے کسی چیز کی کمی محسوس ہونے دی؟ یہ سن کر بدن میں کپکپی طاری ہو گئی میرے پاس شکریہ کے سوا کوئی جواب نہیں تھا،۔ لیکن آواز خاموش نہیں ہوئی وہ کچھ اور کہ رہی تھی کان لگایا تو یہ اواز سننے کو ملی۔۔۔۔ مجھے یاد ہے جب تم یہاں آئی تھی تو تم ایک نادان لڑکی تھی تمہیں تو چلنے پھرنے بات چیت کرنے کا طریقہ نہیں معلوم تھا تہذیب و ثقافت کیا چیز ہوتی ہے اس سے بالکل عاری تھی علم سے بلکل نا آشنا تھی، ادب و آداب سے کوری تھی لیکن یہاں کی فضا نے تم کو وہ سب کچھ دیا جس سے تم ایک صحیح انسان بن سکو غم کرنے کے بجائے تمہیں خوش ہونا چاہیے کیونکہ تم نے وہ چیز حاصل کی جو اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو عطا کرتا ہے،۔ اس نا معلوم آواز کو میں بغور سن رہی تھی اس کا ایک ایک حرف سچا تھا، آگے اس نے کچھ اس طرح مخاطب کیا۔۔۔

سنو۔۔۔ اب تک تم پر ایک ذمہ داری تھی لیکن اب تمہاری ذمہ داری دوہری ہو گئی ہے اب تمہیں دنیا کی علمی تشنگی بجھانی ہے تم یہاں سے فارغ ہو کر جارہی ہو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اب تم آزاد ہو، اب تمہارے ڈگر ڈگر پر زمانہ کی نگاہ ہوگی، تمہاری ہر نقل و حرکت نگاہوں میں قید کیا جائے گا اب تک تم یہاں پھولوں کے چمن میں تھی لیکن اب خار دار وادی میں جارہی ہو اگر اس خار دار وادی سے صحیح سلامت نکل گئی پھر کامیابی تمہارا مقدر ہوگی،۔ وہ مزید مجھ سے کچھ کہ رہی تھی لیکن آواز دھیمی ہوگئی اور میں سننے سے قاصر رہی مستقل سننے کی کوشش کرتی رہی کہ اچانک نگراں نے دروازہ پر دستک دی اور فجر کی نماز کیلئے جگایا،

دل میں بے قراری تھی، ایک کسک تھا لیکن نظام قدرت سے بھاگ نہیں سکتی تھی اس نے وصال کی جگہ فراق بھی رکھا ہے یہی سوچ کر دل کو تسلی،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے