Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت ابوبکر صدیق کا دور خلافت Hazrat Abu Bakar Siddique Ka Daur e Khilafat

حضرت ابوبکر صدیق کا دور خلافت Hazrat Abu Bakar Siddique Ka Daur e Khilafat

حضرت ابوبکر کے دور خلافت

حضرت ابو بکر صدیق کو حضور نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد متفقہ طور پر مسلمانوں کے خلیفہ اول منتخب کیا گیا۔ حضرت ابوبکر سن رسید ولوگوں میں سب سے پہلے آغوش اسلام میں آئے۔ وہ نبی کے بڑے مخلص اور جاں نثار دوست تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالامیہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضور نے ان کا نام عبداللہ تجویز کیا۔ صدیق ان کا لقب ہے اور ابو بکر کنيت ہے۔قریش کے قبیلہ بنی عربی سے ان کا تعلق تھا۔ بڑے باہمت دلیر اور خدا ترس تھے۔مکّہ کے متاز ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ دُنیاوی دولت اور سماجی حیثیت دونوں ہی لحاظ سے بڑے معزز سمجھے جاتے تھے۔ اپنی ساری دولت انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دی۔ سفر ہجرت میں وہ ہمیشہ نبی کے شریک سفر ہوئے۔ یہ بڑے شرف کی بات ہے۔ الغرض ان کے ذاتی اوصاف اور کمالات بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے وہ تمام مسلمانوں کی نگاہ میں نبی کریم کے بعد سب سے افضل تسلیم کئے جاتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق کا دور خلافت کی مدت؟

حضرت ابوبکر مدت خلافت فقط دو سال، تین مہینے دس روز رہی۔ لیکن اس قلیل مدت میں آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت

حضور کے وصال کے بعد خلیفہ اول مصائب کے طوفان میں گھر گئے۔ یمن کے نومسلم مسلمانوں کے دل ابھی اسلام پر مضبوطی سے نہیں جمے ہوئے تھے۔اسلئے نبی کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکاۃ اور نماز کی ادائیگی سے منحرف ہو گئے تو کچھ نبوت کا جھوٹا دعوی کر بیٹھے۔ان سارے فتنہ پردازوں سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ بہت سارے لوگ تو گھبرا گئے لیکن حضرت ابو بکر صدیق اپنی جگہ کو استقامت بن کر کھڑے رہے اور بڑی دانشمندی اور خوش اسلوبی سے انہوں نے سارے فتنے کو دبا دیا۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں میں سلیمہ کذاب کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ ایک جانب تو فتنہ ارتدادکی شورش تھی تو دوسری بتوں کی ہم درپیش تھی جس کے لئے ابو بکر صدیق نے اپنے مرض الموت میں رومیوں سے حضرت زید کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ان کے فرزند اسامہ بن زید کی سرکردگی میں شام بھیجنے کے لئے حکم دیا تھا۔ ابھی یہ شام روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ آں حضرت کا انتقال ہو گیا۔ صحابہ نے حضرت ابو بکر کومشورہ دیا کہ اپنی حالت میں جب کہ قبائل میں ارتداد کی شورش ہے فوج کو مدینہ سے باہر نہ بھیجا جائے لیکن خلیفہ اول نے اس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ میں اس مہم کو جس کی روانگی کا رسول اللہ نے حکم دیا ہے روک نہیں سکتا۔ جب یہ مہم اپنا کام کر کے واپس آئی تو خلیفہ اول نے مدینہ کے باہراس کا استقبال کیا۔ اس مہم کی روانگی کا اثر نفسیاتی طور پر دشمنوں پر اچھا پڑا۔ انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کی طاقت زیادہ ہے ورنہ اس حالت میں جب کہ چہار طرف شورش بپا ہے وہ اپنے زبردست دشمن کے خلاف اتنی بڑی فوج نہ بھیجتا۔

اسلام کے پہلے خلیفہ کا نام کیا تھا

حضرت ابوبکر نے موتہ کی مہم کے بعد ان جھوٹے نبیوں کی استحصال کی جانب توجہ کی نشجرجیل بن حسنہ کو سلیمہ کذاب کے لئے بھیجا۔ ایک دوسرے مدعی نبوت طلحہ بن خو یاد کے لئے اسے شکست دی۔ سلیمہ کذاب کا پلہ بھاری پڑ رہا تھا تو خالد بن ولید کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ ایک خوں ریز جنگ کے بعد سلیمہ کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا۔ اس طرح ایک کے بعد دیگرے مدعیان نبوت کا قلع قمع ہو گیا۔

اندرونی دشمنوں سے فراغت کے بعد ابوبکرصدیقی نے بیرونی دشمنوں کے مقابلہ کی تیاری کی۔ ان میں روم اور ایران کا نام سرفہرست ہے۔ ان دونوں ملکوں کے فرمارواؤں سے ٹکر لیتے ہوئے خلیفہ اول نے اسلام کی فتح کا پرچم دونوں ملکوں پر لہرادیا۔ ادھر شام میں رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں۔ حضرت ابو بکر کی تدبیر نے حضرت خالد بن ولید کو شام میں اسلامی افواج سپہ سالار بنا کر روانہ کیا۔ حضرت خالد بن ولید پوری طرح شام میں داخل ہوئے اور شامیوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ محاصر ہ شق کے دوران حضرت ابوبکر کی خدمات ایران کے کردار کو ہر زمانے میں انتہائی خراج تحسین ادا کیا گیا۔ وہ اسلام کے حیرت انگیز انقلاب کے اہم ستون تھے۔ انہوں نے ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں دنیا کا نقشہ بدل دیا اور دنیا کے سا منے عظیم الشان نظام پیش کیا۔ ترمزی کے مطابق حضرت عمر نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام کے بعد ابو بکر سب سے افضل انسان ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے