حضرت عثمان غنی کی شہادت کا واقعہ Hazrat Usman Ghani Ki Shahadat Ka Waqia
حضرت عثمان غنی کی شہادت کا واقعہ
حضرت عمر نے شہادت کے قبل اپنی فراست اور دور اندیش کی بنیاد پر چھ اکابر۔ مسلمانو ں کی کمیٹی بنادی جس کے ہاتھ میں یہ فیصلہ چھوڑ دیا گیا کہ وہ جس جس کو ہر طرح مناسب مجھیں خلیفہ نامزدکر یں۔سات روز تک مشورہ کرنے کے بعد اس کمیٹی نے حضرت عثمان کو خلیفہ نامزد کیا اس وقت آپ کی عمر بہت زیادہ تھی اور آپ سیدھے سادے باحیا انسان تھے۔
حضرت عثمان کے زمانے میں فتوحات
حضرت عثمان کے زمانے میں فتوحات کا وہ سلسلہ جو حضرت عمر کے زمانے میں شروع ہوا تھا بہت حد تک رک گیا اور مسلمان آپس کے انتشار میں مبتلا ہو گئے۔ بنو ہاشم اور بنوامیہ کی جنگ نے ایسی صورت اختیار کی کہ اس کا سلسلہ لگبھگ سو سال تک جاری رہا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی تیز رفتار زندگی دھیمی پڑگئی۔ حضرت عثمان کا دور بھی ملکوں کی فتح سے خالی نہ تھا آپ کا دور خلافت کا بارہ سال رہا جس میں ابتدا کے چھہ سال تک ترقی ہوئی لیکن بعد کے چھ سال آپس کے انتشار میں گزرے۔ آپ کے عہد میں اسلامی فوج نے افریقہ کے شمالی حصے کو مراقش تک فتح کیا جگہ جگہ دشمنوں نے سر اٹھایا تو ان کی سر کو بی بھی کی گئی۔
حضرت عثمان کا زمانہ
حضرت عثمان ہی کے زمانے میں ترکستان اور بلخ کوفتح کیا گیا۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ حضرت عثمان نہایت سیدھے سادے شریف انسان تھے۔ آپ کا تمام کام آپ کا سیکریٹری مروان کیا کرتا تھا۔ مروان نے حضرت عثمان کے رشتہ داروں کو بھی اعلی عہدے دئیے اور اسلامی دنیا کے اس اہم مرکز مصر، بصر ہ اور کوفہ کے گورنروں کو جو حضرت عمر کے زمانے سے چلے آ رہے تھے اپنے عہدے سے ہٹا دیا۔ ان لوگوں نے اسلام کی بڑی خدمتیں کی تھی اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں مردان سے کدورت پیدا ہوئی۔ اس زمانہ میں ان میں ایک شخص تھا جو یہودی تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیاتھا۔ اس کا نام عبداللہ ابن سبا تھا۔ اس کے دل میں۔مسلمانوں سے نفرت تھی۔ اس نے حضرت عثمان اور بنوامیہ کے خلاف سخت پرو پینڈو کرنا شروع کیا اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لئے طرح طرح کی افواہیں پھیلانی شروع کر دیں۔ اور حضرت ابوبکر صدیق کےلڑ کے محمد بن ابو بکر بھی کوئی بڑے عہدے کے طالب تھے لیکن اب تک ان کو کوئی عہدہ نہیں مل پایا تھا۔ اس لئے وہ حضرت عثمان سے ناراض تھے۔ عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے مل کر تمام اسلامی صوبوں سے حضرت عثمان کو خط لکھوانا شروع کیا جس میں حاکموں کے خلاف شکایتیں لکھی ہوتی تھیں۔ آخر میں حضرت عثمان کے چند آدمیوں کے ذریعہ ان شکایتوں کی انکوائری کرائی۔
تجویز یہ ہوئی کہ شکایت کرنے والے چونکہ جھوٹی شکایتیں کرتے ہیں۔اس لئے ان کو سزائیں دی جائیں۔ لیکن حضرت عثمان نے ان کو معاف کر دیا۔ شکایت کرنے والے لوگ آہستہ آہستہ مدینہ چلے آئے اور ان لوگوں نے حضرت عثمان کے مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک روز دیوان پھاندکر مکان میں داخل ہوئے اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا۔ حضرت عثمان کے بچانے میں آپ کی بی بی حضرت نائلہ کی تین انگلیاں بھی کٹ گئیں۔ حضرت عثمان کی شہادت رنگ لائی اور بعد میں اس سے بڑی بڑی جنگیں آپس میں مسلمانوں میں ہوئی۔ حضرت عثمان کی شہادت کا واقعہ اذی الحجہ ۳۵ یوم جمعہ کو پیش آیا۔ حضرت عثمان کو جنت البقیع کے قریب مدفون کیا گیا۔
0 تبصرے