خدیجہ مستور کے ناول آنگن کا خلاصہ Khadija Mastoor Ke Novel Aangan Ka Khulasa
خدیجہ مستور کے ناول آنگن اردو ناول نگاری کی دنیا میں اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ اس ناول کے پلاٹ میں عورت کی مظلومیت کی سچی کہانی بیا ن کر نے کے کی جگہ ایک عورت کو بھرپور جد وجہد کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔اس ناول کے ذریعے خدیجہ مستور نے سماج میں عورت کی حالت کی جو تصویر بنائی ہے وہ حقیقت سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہن کے پردے پر دائمی نقوش ثبت کر رہی ہے۔
ناول آنگن ہندوستان کی تقسیم سے قبل کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا اک دلچسپ اردو ناول ہے۔ اس ناول کی اہم بات یہ ہے کہ اس کا قِصّہ ایک ہی خاندان کے اردگرد گھومتا ہے اور یہ ایک مسلمان خاندان ہے۔ اس خاندان کے اکثر مرد حضرات ملکی سیاست میں اور خواتین گھریلو سیاست میں غیر معمولی طور پر دلچسپی رکھتی ہیں۔ سیاست میں ان کی دلچسپی اس قدر غیر معمولی ہے کہ مرد حضرات گھریلو سیاست اور تنازعات سے قطعی طور پر قطع تعلقی بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
اپنے رنگین مزاج سرتاج کی بدولت عالیہ کی دادی جان گھر کی سربراہ بن جاتی ہیں۔ انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی موجود نہیں۔ اس لئے کہ یہ ایک زمیندار گھرانہ ہے اور اس لئے گھر کے اندرونی معاملات کے ساتھ ہی بیرونی معاملات بھی عالیہ کی دادی جان ہی کی ذمہ داری میں آجاتے ہیں۔ دادی جان ایک سخت گیر خاتون ہیں۔
ناول آنگن کی کہانی
ناول آنگن کی کہانی عالیہ ہی سے شروع ہوتی ہے۔ عالیہ کے والد ایک سرکاری ادارے میں اعلی عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ کہانی گھر تبدیل کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ جب کے والد صاحب اپنے انگریز افسر پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے جیل میں بند ہوتے ہیں اور عالیہ کے ساتھ اس کی مغرور والدہ اپنے سے معاشی طور پر کم بڑے چچا کے گھر میں آکر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس وقت اس چھوٹے سے گھر میں ان کا سامان ترتیب دیا جارہا تھا اسی وقت عالیہ اپنے ماضی کی یادوں میں گم ہو جاتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے آبائی گاؤں سے شہر کے ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہوے تھے جو کہ انہیں سرکار کی طرف سےان کے والد کو ملا تھا۔اس ناول میں فلیش بیک ٹکنک سے عالیہ کے ذریعے کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔
عالیہ کے دادا میاں جی کے تین بیٹے تھے۔ پہلا مظہر دوسرا اظہر اور تیسرا میاں جی کی دو طوائف بیویاں بھی تھیں جن کی اولادوں میں سے اسرار میاں کا ذکر اس ناول میں ملتا ہے۔
میاں جی کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ایک سلمی اور دوسری نجمہ۔ مظہر میاں کی شادی ایک غریب خاندان کی لڑکی سے ہوئی تھی جن سے ان کے دو بیٹے جمیل اور شکیل ہوۓ تھے۔۔ اظہر میاں کی شادی ایک امیر کبیر اور پڑھے لکھے خاندان کی لڑکی سے ہوتی ہے جن سے ان کی دو بیٹیاں تہمینہ اور عالیہ ہوتی ہیں۔ منجھلے چچا کی تین شادیاں ہیں جن میں سے ایک بیوی سے چھمی ہوتی ہے جو کہ مظہر چچا کے گھر رہائش پذیر ہے۔
خدیجہ مستور کے ناول آنگن کا خلاصہ
عالیہ کی بڑی پھوپھی اپنے ملازم سبحان کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لیتی ہے۔ زچہ بچہ کے دوران ہی سلمی پھوپھی کی موت ہو جاتی ہے اور نوزائیدہ بچے کو اظہر اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔ سلمی کی موت نے دادی جان کو نیم پاگل سا کر دیا ہوتا ہے اور ان کا پہلے سا رعب دبدبہ بھی باقی نہیں رہتا۔ حویلی میں ان کے اختیارات محدود جبکہ گاؤں میں عزت محدود ہوتی چلی گئی۔ میاں جی کی وفات کے بعد جلد ہی انہیں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔
مظہر چچا کے شہر میں منتقل ہوتے ہی ان کی سیاست میں دلچسپی زور شور سے بڑھنے لگی اب تو خیر سے دادی جان بھی دمہ کی مریض ہو کر چارپائی پر پڑی سلمی کو یاد کرتی رہتی تھیں۔ اسی لئے کوئی روک ٹوک کرنے کے لئے باقی نہ رہا نجمہ پھوپھی ذرہ برار ان کی پروا نہ کرتیں، دولت تو ہاتھ سے نکل گئی مگر نخرے نہ نکل سکے ان کے۔ مظہر چچا تیزی سے بچی کچھی دولت سیاست پر لٹانے لگے، کانگریس اور ہندو مسلم اتحاد کی خاطر جلسے جلوسوں پر دولت کا استعمال ہونے لگا، غربت جب تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی تو محلے میں اک دکان کھول لی جس کو اسرار میاں دن رات محنت کر کے چلاتے تھے، اسرار میاں طوائف کے بیٹے ہونے کے ناطے کتے سے بھی کم درجہ کی حیثیت رکھتے تھے اتنی محنت مشقت اور ہر برے وقت میں ساتھ دینے کے باوجود ان کی گھر میں کوئی اوقات نہیں تھی یہاں تک کہ بچوں کے چچا ہونے کے باوجود انہیں بچوں سے دور رکھا جاتا تھا۔
کریمن بوا اس گھر کی نمک خوار خادمہ تھیں۔ باوجود یہ سبھی ملازم اس گھر کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے اس گھر کو چھوڑ کر جا چکے تھے مگر کریمن بوا آخری دم تک ساتھ نبھاتی ہیں، گھر کے باقی افراد سوائے کریمن بوا اور عالیہ کی والدہ کے اسرار میاں کو ان کا جائز حق دلانا چاہتے ہیں مگر کریمن بوا ہر دم اسرار میاں کو ان کی اوقات یاد دلاتی رہتی ہیں۔
دوسری جانب عالیہ کے والد کو شہر میں سرکار کی طرف سے بہت ہی بڑھیا بنگلہ ملتا ہے۔ ان کے ہمسائے ہندو ہوتے ہیں جن کی نوجوان بیٹی بیوہ ہو کر آجاتی ہے۔ عالیہ کی آپا اور اس کرسم دیدی میں بلا کی دوستی ہو جاتی ہے، دیدی عالیہ کی آپا کے متعلق جان جاتی ہیں کہ وہ اپنے پھوپھی زاد صفدر کو پسند کرتی ہیں اور ان کو محبت کے طریقے سلیقے سکھاتی ہیں۔ عالیہ کی والدہ کو صفدر انہتائی زہر لگتا ہے کیوں کہ وہ ایک ملازم کا بیٹا ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ صفدر کے ماں باپ کی وجہ سے انہیں گاؤں سے در بدر ہونا پڑا جہاں وہ عالیہ کی دادی کے بعد گھر کی کرتا دھرتا ہوتیں، بس یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے صفدر کی لحظہ عالیہ کی والدہ سے عزت افزائی کرائی ہے۔
عالیہ کی آپا چاہتی ہیں کہ اب صفدر بی اے کر چکا ہے تو کہیں نوکری ڈھونڈ کر ان سے الگ گھر لے لیں پھر ان کی شادی ہو جائے کیونکہ عالیہ کے والد کا جھکاؤ بھی صفدر کی طرف ہوتا ہے کہ گھر میں ہی بیٹی رہ جائے گی۔ مظہر چچا کے حالات انہیں بخوبی معلوم تھے کہ ان کی بیٹی مظہر کے گھر خوش نہ رہ سکے گی مگر عالیہ کی والدہ صفدر سے نفرت کرتیں ہیں اور ایک دن عالیہ کی آپا اور صفدر بھائی کی محبت کے پتہ چلنے پر اتنا بے عزت کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ شروع میں ان کے خطوط موصول ہوئے مگر پھر رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔
عالیہ کی آپا کا رشتہ ان کی والدہ زور زبردستی سے مظہر کے بڑے لڑکے جمیل بھیا سے طئے کر دیتی ہیں۔ آپا اتنی خوش نہیں ہوتی ہیں،صفدر کی جدائی نے انہیں خاموش کر دیا ہوتا ہے۔ دوسرا کرسم دیدی بھی گھر سے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ کر جا چکی ہوتی ہیں۔ وہ ہر وقت ملول رہتی ہیں، جوں جوں شادی کے دن قریب آرہے ہوتے ہیں ان کا رنگ زرد پڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک دن معلوم پڑتا ہے کہ کرسم دیدی واپس آ گئی ہیں، ان کا آشنا انہیں دغا دے کر چلا گیا ہے۔ عالیہ ان کے گھر جا کر ان سے مل آتی ہے اور ان کی بدتر حالت کا اپنی آپا کو بتاتی ہے۔
اگلے ہی دن کرسم دیدی خود کشی کر لیتی ہیں۔ ان کی موت کا عالیہ کی آپا پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ایک طرح ایک راہ سجھائی دیتی ہے، اپنی مہندی کے روز عالیہ کی آپا زہر کھا کر خود کشی کر لیتی ہیں اور گھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ عالیہ اس سب سے براہ راست متاثر ہوتی ہے وہ دسویں جماعت کی طالبہ ہے اس کے لئے یہ سب برے اثرات کا سبب بنتا ہے خاص طور پر مرد کی شخصیت اس کے سامنے مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔
عالیہ کی والدہ کا رعب دبدہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ عالیہ کے والدین کے درمیان ویسے بھی کشیدگی رہتی اب تو مکمل طور پر قطع تعلقی ہو جاتی ہے۔ عالیہ کے والد اب مسلسل انگریز حکومت کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں انہیں اپنے انگریز افسر انتہائی زہر لگتے ہیں۔ ایک معمولی سی چھڑپ کے بعد وہ اپنے انگریز افسر کو مکا دے مارتے ہیں اور قتل کرنے پر تل جاتے ہیں، انہیں فوراً گرفتا کر لیا جاتا ہے۔
عالیہ کے والد کے جیل جانے کے بعد ان سے سرکاری بنگلہ چھن جاتا ہے اور وہ لوگ مظہر چچا کے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کی والدہ کا نخرہ تو کم ہوا مگر طنطنہ ابھی تک باقی تھا کہ انگلستان پلٹ بھائی اور انگریز بھابھی نے رعب برقرار رکھا ہوا تھا، عالیہ کی بقیہ ماندہ تعلیم انہی کی بھیجی گئی رقم سے مکمل ہوتی ہے۔
عالیہ کے گھر آنے سے پہلے جمیل اپنی چچی زاد چھمی سے محبت کے ڈرامے کر کے رقم بٹور لیتا ہے کیوں کہ اس کو تعلیم مکمل کرنے کے لیے روپے پیسے چاہیے تھے۔ چھمی ان کی محبت کو سچ سمجھ لیتی ہے، مگر عالیہ کے آتے ہی جمیل بھیا چھمی سے کچھے کچھے سے رہنے لگے اور عالیہ پر آتے جاتے ڈورے ڈالنے لگے، مگر عالیہ ویسے ہی مرد ذات سے نفرت کرتی تھی وہ جمیل کے انداز خوب سمجھتی تھی اس لئے لفٹ نہ کراتی تھی۔ مگر جمیل کو آہستہ آہستہ عالیہ سے محبت ہو چلی تھی جتنا وہ دور جاتی وہ اتنا اس کے قریب ہونے کو لپکتا، اس کے وہ اچھے عہدے کی تلاش میں تھا جو کہ بغیر تعلیم کےنا مکمل اور تعلیم بنا روپے پیسوں کے نامکمل تھی۔
مظہر چچا مسلسل انگریز بھگاؤ اور ہندو مسلم اتحاد پر پیسہ خرچ کیے جارہے تھے۔ گھر کے خرچ کے لیے بہ مشکل رقم ملتی یہاں تک کہ عالیہ کی والدہ نے گھر کے خرچ کے لیے رقم دینا شروع کر دی، مگر بات بات پر اسی خرچ دینے کے طعنے دیتی تھیں۔ ایک دن عالیہ کے والد کی موت جیل میں ہی ہو جاتی ہے، عالیہ اور عالیہ کی والدہ کی رہی سہی امید جاتی رہتی ہے۔ تھوڑی بہت جو امید تھی دوبارہ سے اچھی زندگی گزارنے کی وہ مٹ جاتی ہے، عالیہ خود کو بے بس محسوس کرتی ہے کیونکہ جمیل بھیا ان کے گرد اپنا شکنجہ کس رہے ہوتے ہیں۔ عالیہ کی اکلوتی دوست چھمی جمیل بھیا کے عالیہ کی طرف مائل ہونے پر عالیہ سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں حالات اس وقت بگڑ جاتے ہیں جب مظہر چچا کو بھی ہندو مسلم اتحاد کی خاطر جان سے ہاتھ دھونا پڑتی ہے۔ گھر بکھر کر رہ جاتا ہے، شکیل آوارہ گرد بن کر چوری چکاری پر اتر آتا ہے اور جمیل سے حالات سنبھالے نہیں سنبھلتے، عالیہ کی بے رخی نے اس کو توڑ کر رکھ دیا ہوتا ہے، چھمی بھی ان سے ناراض ہو جاتی ہے، چھمی کے لیے آیا گاؤں کے ایک گوار گھرانے کا رشتہ منظور کر لیا جاتا ہے، جہاں اس کے ساتھ بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک بیٹی کی ہی پیدائش پر وہ لوگ اسے گھر سے باہر کرتے ہیں، وہ واپس مظہر چچا کے گھر منتقل ہو جاتی ہے، آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، ہر طرف ہندو مسلم فسادات نے قہر برپا کر رکھا ہوتا ہے، انہی حالات میں ایک دن بالآخر پاکستان بن جاتا ہے۔
عالیہ کے امیر ماموں اپنی انگریز بیگم کے ساتھ پاکستان منتقل ہو جاتے ہیں اور کچھ ہی دنوں کے بعد عالیہ کی والدہ اور عالیہ کے لیے جہاز کے ٹکٹ ڈاک پر ارسال کردیتے ہیں۔ عالیہ کی والدہ پھولے نہیں سماتی اور پاکستان جانے کی تیاری کرنے میں مصروف ہو جاتیں ہیں، عالیہ مظہر چچا کے خاندان کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی مگر ماں کی وجہ سے مجبور ہوتی ہے۔ عالیہ کی والدہ رسمی طور پر مظہر چچا کے خاندان کو ساتھ چلنے کا کہتی ہے مگر وہ لوگ انکار کر دیتے ہیں۔
آخر وہ دن آ ہی جاتا ہے جب عالیہ اور اسکی والدہ کو پاکستان جانا ہوتا ہے۔ جمیل بھیا بہت کوشش کرتے ہیں کہ عالیہ مت جائے مگر ان کی سنتا ہی کون تھا، اسرار میاں عالیہ وغیرہ کا سامان ہوائی اڈے پر پہنچوا دیتے ہیں، اور عالیہ اپنی والدہ کے ساتھ روانہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان آکر ان پر اپنے خود غرض ماموں کی اصلیت کھل جاتی ہے جب وہ بے آسرا بہن بھانجی کو ایک الگ بنگلہ لے کر دیتے ہیں اور عالیہ کو خود اسکول میں پڑھانا پڑتا ہے۔ ہندوستان سے مظہر چچا کے خاندان سے خط و کتابت سے پتہ چلتا ہے کہ شکیل گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پھر اسرار میاں کی گمشدگی کی خبر ملتی ہے، اس کے بعد جمیل بھیا اور چھمی کی شادی کی خبر ملتی ہے، چھمی بہت خوش تھی کہ جمیل بھیا نے اس کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔
اس خبر نے غیر محسوس انداز میں عالیہ کو مغموم کر دیا، وہ چڑچڑی سی رہنے لگی۔ انہی دنوں میں ایک دن ان کے گھر ایک ڈاکو گھس آتا ہے جس کے پیچھے پولیس لگی ہوتی ہے، بعد میں وہ شکیل نکلتا ہے، عالیہ اس کی خوب خاطر مدارت کرتی ہے مگر رات کو وہ عالیہ ہی کے پیسے چرا کر بھاگ نکلتا ہے۔
ایسے میں ایک دن ایک اجنبی ان کے گھر آتا ہے وہ کوئی اور نہیں صفدر بھائی ہوتے ہیں، جو کہ عالیہ کو دیکھتے ہی اس پر فدا ہو جاتے ہیں۔ تبھی عالیہ کو ان کی اپنی آپا سے جھوٹی محبت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور وہ بھی اپنی ماں کی طرح ان سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ کہانی کے اختتام پر عالیہ کے پاس جمیل کی محبت ٹھکرانے کے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں باقی رہتا۔
0 تبصرے