Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی سوز و گداز کا تنقیدی جائزہ | شوق نیموی کی مثنوی سوز و گداز کا خلاصہ

مثنوی سوز و گداز کا تنقیدی جائزہ | شوق نیموی کی مثنوی سوز و گداز کا خلاصہ

مثنوی سوز و گداز کےمصنف کا نام شوق نیموی ہے۔ شوق نیموی کا اصل نام ظہیر احسن تھا۔ یہ پٹنہ ضلع کے نیموی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ سن ولادت ۱۲۷۸ھ ہے۔

شوق نیموی اپنے وقت کے مشہور شاعر اور عالم دین تھے۔ علم حدیث میں آپ کی کتاب آثار السنن سارے ہندوستان کے مدارس میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ علم دین میں بھی آپ کی سات آٹ تصنیفیں ہیں۔ زبان کی تحقیق میں بھی آپ کی کئی کتابیں ملتی ہیں جنہیں بے حد معتبر سمجھا جا تا ہے۔ شاعری میں شوق نیموی کی شہرت مثنوی سوز و گداز کی وجہ سےہے اور یہ شہرت و مقبولیت آج تک برقرار ہے۔

مثنوی سوز و گداز کا پس منظر

مثنوی سوز و گداز میں ایک سچی عشقیہ داستان منظوم ہوئی ہے۔ یہ واقعہ پٹنہ میں محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں ہوا تھا۔ یہ قصہ دور دور تک مشہور ہوا۔ میر نے شعلا عشق نامی مثنوی میں اور باقر علی خاں لکھنوی نے فارسی نثر میں اس قصے کو لکھا۔شوق نیوی نے اس مشہور قصے کو اپنی مثنوی کا موضوع بنایا ہے۔

مثنوی سوز و گداز کے قصّہ کا خلاصہ

مثنوی سوز و گداز کا قصہ مختصر میں یوں ہے کہ عظیم آباد کا ایک نوجوان جس کا نام حسن تھا۔ ایک روز گنگا کے کنارے سیر کر رہا تھا کہ اس کی ملاقات’’ شام سند ر‘‘ نام کی ایک لڑکی سے ہوتی ہے۔ دونوں میں ربط بڑھتے جاتے ہیں۔ حسن برہمن کا بھیس بدل کر اس لڑکی سے ملتا ہے لیکن اس راز کی خبر کسی کونہیں ہوتی ہے۔لڑکی کی شادی کسی دوسری جگہ طے پا جاتی ہے۔ٹھیک شادی کے دن لڑکی کے گھر میں زبردست آگ لگ جاتی ہے اور افرانفری کے عالم میں حسن شام سندر کے ساتھ فرار ہو جا تا ہے اور شادی کر لیتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد حسن سون پور کا میلہ دیکھنے جاتا ہے راستے میں ندی کے اندر کشتی الٹ جاتی ہے یہ خبر سن کر شام سندر بے ہوش ہو جاتی ہے اور انتقال کر جاتی ہے۔ حسن تیر کر زندہ سلامت گھر پہنچتا ہے۔ اسے شام سندر کے مرنے کا بے حد رنج ہوتا ہے۔ اس درمیان حسن کو لوگوں کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ آدھی رات گئے گنگا میں ایک روشنی نمودار ہوتی ہے اور اس سے حسن حسن کی آواز آتی ہے۔ ایک رات حسن اس روشنی کو دیکھنے جاتا ہے اور روشنی کے ساتھ غائب ہو جا تا ہے۔

مثنوی سوز و گداز میں تقریبا سات سو اشعاراور چودہ عنوانات ہیں۔ اردو کی دوسری مثنویوں کی طرح شوق کی مثنوی بھی حمد نعت اور مناجات سے شروع ہوتی ہے۔ شوق نے مثنوی کی ابتدا میں دعا کی ہے۔

دہن سے بحر مضموں موجزن ہو
زباں سر چشمہ شعرو سخن ہو

شوق کی یہ دعا قبول ہوئی اور ان کے دہن وزبان سے نکلے ہوئے تمام اشعار اپنی روانی خوبصورتی اور مضمون آفرینی کیلئے رہتی دنیا تک مقبول ہو گئے۔

مثنوی سوز و گداز کا پلاٹ یا قصّہ کہانی

(۱) پلاٹ یا قصہ:۔ اس کے پلاٹ یا قصے میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ سیدھا سادہ قصہ ہے۔ قصہ میں نہ تو بے جاطوالت ہے اور نہ گلزار نسیم کی طرح بے حد مختصر ہے۔ شوق نہایت اعتدال سے قصہ بیان کرتے ہیں اور جگہ جگہ مقامی رنگ دے کر اس کی دلکشی میں اضافہ کر دیا ہے۔ مقامی رسم ورواج بول چال کے محاورے سارے کے سارے فطری ہیں اور ان میں مقامی رنگوں کا عکس شدت کے ساتھ ملتا ہے۔انہوں نے اردو کی دوسری مثنویوں کی طرح مثنوی میں جن دیو بھوت پریت اور پری کی کہانی نہیں پیش کی بلکہ سیدھے سادے اور فطری قصے کو اپنی مثنوی کا موضوع بنایا ہے۔ اس مثنوی میں کوئی بھی واقعہ غیر فطری نہیں سوائے ایک واقعہ نور ہودج کے۔ روز مرہ کے واقعات ہیں۔ ان میں کوئی دکھا وا یا ظاہر داری نہیں۔ سون پور کا میلہ، پٹن دیوی کا مند ر، گنگا کا کنارا سب کے سب جانے پہچانے ہیں۔اس مثنوی کے پڑھنے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شوق عالم دین ہونے کے باوجود ہندوؤں کے رسم و رواج اور طرز زندگی سے بخوبی واقف تھے۔ حسن کو وہ پنڈت کی شکل میں پیش کرتے ہیں تو سارے نقش ونگار برہمنوں کے اس کے کردار میں ابھار کردم لیتے ہیں۔

مثنوی سوز و گداز کے کردار، کردار نگاری

(۲) کردار نگاری: مثنوی میں کردار نگاری کی بڑی اہمیت ہے۔ ذرا سی لغزش کہانی کو بر باد کردیتی ہے۔مثنوی میں کئی کرداروں کا ذکر کرنا پڑتا ہے اور ہر شخص کا ذکر موقعہ اور مصلحت نفسیات اور ضرورت کے مطابق پیش کیا جا تا ہے۔ اس مثنوی میں شوق نے قصہ کی یکسوئی کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ کرداروں سے کام نہیں لیا ہے۔ صرف دو اہم کردار میں حسن اور شام سندر ضمنی طور پر ان کے والدین کا ذکر ہوتا ہے۔ وہ بھی برائے نام۔ شوق نیوی نے اس لحاظ سے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ چونکہ کہانی صرف حسن اور شام سندر کی ہے لہذا اشوق نے سارے واقعات کو انہیں کے گردو پیش رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی کے اندر تاثیر میں یکسوئی آ گئی ہے اور کہانی پھیل کر تاثیر کو کم نہیں ہونے دیتی۔شوق کے سامنے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ شام سندر کاتعلق ہندو معاشرے سے تھا اس لئے اس کا ذکر ہندو معاشرے میں رکھ کر بڑی خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ کہیں بھی بے راہ روی یا بداخلاقی کو آنے نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری طرف حسن کا تعلق مسلم معاشرے سے ہے اس کے کردار کو بھی بہت سنبھال کر پیش کیا گیا ہے۔ دونوں کرداروں کو پیش کرتے وقت کسی بھی تعصب یاذاتی پسند و ناپسند کا خیال نہیں رکھا ہے۔ دونوں معاشرے کو پورے احترام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ حسن اور شام سندر دونوں کے کردار بڑے پاکیزہ اور صاف ستھرے ہیں۔ عام مثنویوں کی طرح ان میں کوئی چھچھورا پن نہیں۔ دونوں کے دونوں مشرقی تہذیب اور مزاج کے مرقع نظر آتے ہیں۔ شام سندر شرم وحیا اور خلوص و وفا کی پیکر ہے اور اس کے دل میں سماج اور معاشرہ کا خوف ہے۔ اسے ہر وقت اپنے والدین کی عزت اور ناموں کا خیال ہے۔لہذادہ اپنے دل میں موجزن طوفان کے باوجود حسن سے یہ کہتی ہے۔
رہے اتنا خیال شام سندر
کہ حرف آنے نہ پاۓ ابرو پر

کبھی لب پر نہ آئے نام میرا
کہ ہو گا راز طشت از بام میرا

دوسری جانب حسن کا کردار بھی نہایت اعلی اور صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے۔ وہ خلوس اور پاکیزگی کا پتلا ہے۔

مجھے ہے عشق صادق کی مرے جانچ
نہ تیری آبرو پراۓ کچھ آنچ

مثنوی سوز و گداز میں منظر نگاری

منظر نگاری:۔ مثنویوں میں منظر نگاری کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ پس منظر کا کام کرتے ہیں اور اسی پس منظر میں واقعات اور کردارا بھر کر صاف دکھائی دینے لگتے ہیں لیکن عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض مثنوی نگار جذبات کی اتنی تفصیل دینی شروع کر دیتے ہیں کہ طبیعت اکتا جاتی ہے۔ جیسے میر حسن برخلاف اس کے دیا شنکر نسیم اشارے کناۓ اور استعارے میں منظر کشی کرتے ہیں جس سے منظر کشی کا لطف زائل ہو جا تا ہے۔لیکن شوق کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے منظر نگاری میں نہ بیجا طوالت سے کام لیا ہے اور نہ بے حد اختصار ہے۔ ان کے یہاں حیرت انگیز توازن ملتا ہے۔ مختصر یوں کہہ سکتے ہیں کہ مثنوی سوز و گداز میں مثنوی نگاری کے تمام عناصر ترکیبی نہایت خوبصورتی اور توازن کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیں۔ اس مثنوی میں اعلی ماجرا نگاری، چیست کردار نگاری، سحرکاری، سرا پا ساری اور تصور یت کے نمونے بکھرے پڑے ہیں۔مثنوی میں شروع سے آخر تک واقعات میں ربط و تسلسل ہے۔ داغ جیسے صا حب کمال شاعر نے بھی شوق کی اس مثنوی کی تعریف کی ہے۔ یہ مثنوی نہ صرف بہار میں بلکہ ہر کہیں اردو کی اہم مثنویوں میں شمارکی جاتی ہے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے