میر تقی میر کی شاعری کی منفرد اور امتیازی خصوصیات
میر تقی میر کی شاعری کی خصوصیات دریافت کرنے سے پہلے میر کے مختصر حالاتِ زندگی کا جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔
میر تقی میر کی والدت 1722 میں آگرہ میں ہوئی۔ میر نے اپنی خودنوشت سوانح میں اپنے خاندان کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان کے اسالف حجاز سے ہندوستان پہنچے۔ پہلے دکن میں اقامت اختیار کی مگر وہاں کچھ ایسی مجبوریاں پیش آئیں کہ زیادہ دنوں تک نہ رہ سکے اور احمد آباد )گجرات( چلے آئے لیکن یہ سرزمین بھی راس نہ آئی اور کشش آب و دانہ اکبرآبادی )آگرہ کھینچ لائی۔ پھر یہیں رچ بس گئے اور اسی سرزمین میں ان کے آبا و اجداد پیوند خاک ہوئے۔
میر کے والد کا نام محمد علی تھا۔ ذات سے سادات تھے۔ میر اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اسی عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
میر کے سلسلے میں نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں
میر کی والدت آگرہ میں ہوئی جو برج بھاشا کا عالقہ ہے۔ ان کی نوجوانی کا وہ زمانہ بھی آگرہ ہی میں گزرا جس سے ان کا رابطہ رہا۔ اس عہد کی شورشیں اور آفتیں بھی انہوں نے جھیلیں۔ پھر ان کا خاصا دور راجستھان کے شہروں میں گذرا۔ مغربی یوپی میں میرٹھ اور غازی آباد اور فرخ آباد کی سیر بھی کی۔ بڑھاپے میں لکھنؤ بھی گئے۔ وہاں نواب صاحب کے دربار سے متوسل رہے اور نواب آصف الدولہ کے ساتھ کوہستان ہمالہ کی پیمائش بھی کرلی مگر ان کی زبان اور لب و لہجے پر نہ برج بھاشا کا اثر ہے نہ راجستھان کا نہ پنجاب کی چھاپ ہے نہ اودھ کا ٹھپا۔ ان کی زبان کا چوکھا رنگ کھڑی بولی کا ہے اور یہ وہ زبان ہے جو میرٹھ سے شاہ جہاں پور تک آج بھی بولی جاتی ہے جس میں رہیل کھنڈ بھی آجاتا ہے۔
میر تقی میر کی شاعری غزل گوئی کی خصوصیات
میر تقی میر اردو غزل کے عظیم شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں جو ان کے دور کی غزل میں پائی جاتی ہیں۔ میر تقی میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہر دور کے بڑے شاعروں نے کی ہے۔ میر کی مقبولیت کا اعتراف مرزا غالب نے یوں کیا ہے:
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ایک جگہ یوں کہتے ہیں:
اپنا تو عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں
استاد ذوق نے بھی میر کی عظمت کا اعتراف یوں کیا ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
میر تقی میر کی شاعری میں شاعرانہ تعلی
میر کو خود اپنی عظمت کا احساس تھا۔ ان کے یہاں شاعرانہ تعلی کے کئی اشعار پائے جاتے ہیں۔ ایک شعر دیکھئے:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
میر تقی میر کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے قاضی عبدالستار رقم طراز ہیں:
’’ اپنی زندگی کی بربادی اور خوابوں کی شکستگی کے بیان میں میر نے جس انداز بیان اور اپنے خیال کی تفہیم کے لئے جو سہارے لئے ہیں وہ ایک طرف تو میر کی ناکامی حیات کے غماز ہیں اور دوسری طرف دلی کی سوگواری کا نقشہ پیش کرتے
ہیں‘‘۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں اک داغ
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ
ایک دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
فخراالسالم اعظمی لکھتے ہیں:
’’ دل اور دلی کی اسی تباہ کاری کی تصویریں ہمیں میر کی شاعری میں ملتی ہیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر خواجہ احمد فاروقی نے میر کے بعض اشعار کو دل اور دلی کے مرثیے سے تعبیر کیا ہے۔ غم کی یہی لے میر کی شاعری کی خاص لے ہے۔ ان کی تشبیہات و استعارات، ان کے مخصوص الفاظ اور لب و لہجہ سب اسی غم میں رنگے ہوئے ہیں۔ ان کی تشبیہات میں دلی کا درد ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چشم تر، آنسو، خون اور دامن تر کا بار بار تذکرہ میر کی شاعری میں بس یوں ہی کھنڈروں کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے پس منظر میں داخلی اور خارجی زندگیوں کی ایک طویل داستان ہے‘‘۔
میر تقی میر کی شاعری
آنکھوں سے جو پوچھا حال دل کا
اک بوند ٹپک پڑی لہو کی
جگر ہی میں ہے قطرہ خون سو اشک
پلک تک گیا تو تالطم کیا
دیدۂ گریاں ہمارا ہنر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
میر کے ان لہو رنگ اشعار کو دیکھ کر بہت سے تنقید نگاروں نے میر کو قنوطی اور یاس پرست قرار دیا ہے۔ لوگوں کے اس خیال کا محرک غالبا یہ ہے کہ میر کی کئی غزلوں کا یہی رنگ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قنوطیت اور یاس پرستی ان کے ضمیر میں داخل ہے۔ میر کی شاعری کے ظاہری لب و لہجہ سے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے لیکن یہ پوری سچائی نہیں ہے۔
میر کی شاعری کی خصوصیات
میر کی شاعری کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ میر اپنے دور کے انتشار اور شکست و ریخت کو ٹھنڈے دل سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ان کے حزنیہ لہجے میں بغاوت کی چنگاریاں موجود ہیں۔ وہ بڑے وقار اور تمکنت کے ساتھ آشوب زمانہ کا اظہار منصفانہ انداز میں کرتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے:
’’ میر کے کلام میں ان کے زمانے کی ایک عناں گیر فریاد کا احساس ہوتا ہے جو چیخ و پکار کی صورت اختیار نہیں کرنے پاتی۔ وہ خودداری اور سنجیدگی کے ساتھ بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں‘‘۔
میر نے اردو غزل کو زندگی سے قریب کیا
میر نے اردو غزل کو زندگی سے قریب کیا۔ اس میں صداقت اور خلوص کے عناصر پیدا کئے۔ اس کو سماجی زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ اس کو ایک نئے انداز، ایک نئی لے اور ایک نئے آہنگ سے روشناس کیا۔ ان کی غزلوں میں جو ایک میٹھے میٹھے درد کا احساس ہے، وہ غزل کی طبیعت اور اس کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ میر غزل کو بڑی خوبی کے ساتھ برتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک ایک مصرع میں انہوں نے جہاں کا غم سمو دیا ہے۔ مصنف آب حیات محمد حسین آزاد نے ان کے بارے میں بڑے پتے کی باتیں لکھی ہیں:
’’ میر صاحب کی زبان شستہ، کلام صاف، بیان پاکیزہ، جیسے باتیں کرتے ہیں۔ دل کے خیاالت کو جو کہ طبعیتوں کے مطابق ہیں ‘‘ـ
محاورے کا رنگ دے کر باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔
اس واسطے سے ان میں بہ نسبت اور شعراء کی اصلیت کچھ زیادہ قائم رہتی ہے بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ گویا نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دلوں میں اثر بھی کرتی ہے۔ گویا اردو کے سعدی ہیں‘‘۔
ان کا کلام صاف کہہ دیتا ہے کہ دل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پتال نہیں، حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے ہیں۔ بس جو دل پر گذری تھی، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لئے شعر کا کام کرجاتا تھا۔
مختصر یہ کہ میر کے شعروں میں سوز و گداز کی بجلیاں بھری ہیں۔ اس کو سنوارنے اور نکھارنے میں ان کا کوئی بھی ثانی نہیں۔ اس اعتبار سے وہ منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔
0 تبصرے