رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری ہم نفسانِ رفتہ کا جائزہ Ham Nafsan-e-Rafta
رشید احمد صدیقی کی شخصیت اردو نثر کی تاریخ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انھوں نے ایک صاحب طر ز نثر نگار کی حیثیت سے اپنی ایک مستحکم شناخت بنائی۔اپنی طنزیہ ومزاحیہ مضامین اور تصنیفات کے ذریعہ اہل ذوق کے دلوں کو گرمایا۔
رشید احمد صدیقی کی شخصیت
رشید احمد صدیقی کا نام اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں سب سے اہم ہے۔ظرافت کے علاوہ انھوں نے اس نثری صنف کو بطور خاص اپنایا۔ ظرافت چونکہ ان کا بنیادی مزاج ہے اس لئے بیشتر خاکوں میں ظرافت موج تہ نشیں کی طرح کار فرما ہے۔اپنے خاکوں کے ذریعہ مشاہیر ادباء و اساتذہ کی شخصیات کو متعارف کر دیا۔
رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کی خصوصیات
رشید احمد صدیقی کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ جن شخصیتوں پر انھوں نے قلم اٹھایا ان سے گہرا تعلق بھی رہا تھا اور ان کے لئے رشید صاحب کے دل میں بے حد احترام اور بہت پیار تھا۔ یہ جذبہ خاکوں میں جھلکتا ہے۔ رشید احمد صدیقی کی نثری خدمات ناقابل فراموش ہے۔
رشید احمد صدیقی کی مزاح نگاری
رشید صاحب کے خاکوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کے نام سے ۱۹۳۷ء میں، دوسرا مجموعہ ’’ ہم نفسان رفتہ ‘‘ ۱۹۶۶ء میں، ایک طویل خاکہ ’’ ذاکر صاحب‘‘ کے نام سے ۱۹۳۷ء میں شائع ہوۓ۔ ’’ آشفتہ بیانی میری ‘‘۔ ’’شیخ نیازی‘‘ اور ’’ مضامین رشید ‘‘ میں بھی خاکے مل جاتے ہیں۔ ’’خنداں‘‘ ریڈیائی تقریروں کامجموعہ ہے اس میں ایک خاکہ ’’اقبال سہیل شامل ہے۔
رشید احمد صدیقی کی کتاب ’’ہم نفسان رفتہ‘‘
رشید احمد صدیقی کی کتاب ’’ہم نفسان رفتہ‘‘ میں کل سات خاکے ہیں۔ جن کے نام درجہ ذیل ہیں۔:
(۱) شفیق الرحمن قدوائی (۲) مولاناسید سلیمان ندوی (۳) افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق مرحوم (۴) نواب محمد اسماعیل خاں (۵) مولانا ابوالکلام آزاد (۶) پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس(۷) کندن
(۱)مولاناسید سلیمان ندوی۔ رشید احمد صدیقی نے جن مشاہیر شخصیات کی پیکر تراشی کی ہے، ان میں سید سلیمان ندوی کی ذات گرامی بھی ہے۔ سید سلیمان ندوی کی شخصیت ایک مستند اسلامی مورخ اور عربی، فارسی وار دو کے ماہر انشاپر داز اور عالم دین کی حیثیت سے علمی دنیا میں متعارف رہی ہے۔
سید سلیمان ندوی
سید سلیمان ندوی سے گروید گی کی وجہ خاکہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ سید صاحب کا علمی تجربہ نہ صرف یہ کہ قابل قدر تھا بلکہ علمی دیانت داری بھی تھی۔ سید صاحب اپنے علم کو کبھی اپنے ادبی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ وہ علم سے نہ صرف یہ کہ بے شمار تشنہ علوم کو فائدہ پہنچاتے تھے بلکہ علم کی بزرگی اور عظمت کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ علم کی اس نزاکت کو کوئی اچھا اور مخلص معلم ہی سمجھ سکتا ہے اور حسن اتفاق سے سید سلیمان ندوی صاحب تمام تر علمی خصوصیات کے قطع نظر ندوۃ العلماء کے ایک کہنہ مشق اور مقبول استاد تھے۔
سید صاحب کی تصانیف میں جس تصنیف نے خاکہ نگار کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی ’’ خطبات مدارس ‘‘ ہے۔ سید صاحب کی تقریری صلاحیت کا اعتراف بھی خاکہ نگار نے کیا ہے۔ سید ساحب کی تقریروں میں بڑا خلاص، بڑاوزن اور سادگی ہوتی تھی۔ سامعین بڑے اعتماد کے ساتھ ان کی تقاریر سنتے تھے۔ سید صاحب کسی بھی علمی مسئلے پر بڑی سنجید گی سے اظہار خیال کرتے تھے اور دوسروں کا نقطہ نظر بھی بہت صبر و تحمل سے سنتے تھے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ سے سید صاحب ۳۰۔ ۳۲ سالوں تک منسلک رہے۔ قیادت اور علمی تصنیف و تالیف کے لحاظ سے دارالمصنفین کا یہ زمانہ نہایت شاندار رہا۔ اس سلسلے میں خاکہ نگار کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں دارالمصنفین کو شاید یہ درجہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ذاتی زندگی میں بھی سید سلیمان نہایت سنجیدہ، متین، قناعت پسند اور خاموش طبع تھے۔ مذہب کے معاملے میں بھی نہایت مخلص، با کردار اور عالم با عمل تھے۔ غرض یہ کہ سید ساحب مختلف الجهات خصوصیات کے حامل تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد
(۲) مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا آزاد سے خاکہ نگار کا تعلق نہایت مختصر یعنی به مشکل ایک دو ملاقات تھی لیکن ’’ الہلال‘‘اور ’’ البلاغ ‘‘ کی تحریروں کے ذریعہ خاکہ نگار مولانا آزاد کی شخصیت سے اچھی طرح واقف اور متعارف تھے۔ خاکہ نگار نے تقسیم ملک اور آزادی ہند کے بعد سیاسی حالات کی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہوۓ اور ان حالات میں مولانا آزاد کی سنجیدہ اور پاکستان بننے کے بعد جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ان کے حالات بہت نازک تھے۔
ہندوستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی
ہندوستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ایک خاص ذہن سے کام کر رہی تھی۔ ایسے نازک اور دشوار قیادت کا تذکرہ کیا ہے کہ جن دشوار گذار اور نازک حالات سے ہندوستان کی سیاست گذری کن حالات میں مولانا آزاد نے سیاسی بصیرت، آئینی تد بر، اخلاقی بلندی اور علمی فضیلت کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کی اور جس دل سوزی اور قابلیت کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ وزیر تعلیم رہتے ہوئے مولانا کو بعض کا بینی ساتھیوں کی تنگ نظری اور تعصب کا بھی شکار ہونا پڑا۔ ان سیاسی تعصب اور تنگ نظری کو بھی مولانا آزاد نے نہایت و قار اور خاموشی سے سہہ لیا۔
دہلی کی جامع مسجد کا وہ تاریخی واقعہ
دہلی کی جامع مسجد کا وہ تاریخی واقعہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے جب مولانا آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے مایوس اور شکست خوردہ مسلمانوں کو خطاب کیا تھا۔ اس تقریر کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ غرض یہ کہ آزاد نے خلوت، جلوت، حکومتی ایوان انجمن ترقی اردو ہند اور مذہبی مجالس میں مسلمانوں کی کامیاب قیادت کی اور مسلمانوں کو مایوسی اور بد دلی کے دلدل سے نکالا۔ مولانا کی علمی و ادبی خدمات سے قطع نظر ان کی قومی و سیاسی خدمات اس قدر کہ اس کی تفصیل کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔
مولانا آزاد کے اسلوب تحریر
مولانا آزاد کے اسلوب تحریر میں ان کی شخصیت مضمر تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں لازم و ملزوم تھے۔ مولانانے لکھنے کا انداز، لب و لہجہ اور مواد قرآن شریف سے لیا جو ان کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ مولانا پہلے اور آخری شخص تھے جنھوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب تحریر کا سر چشمہ بنایا۔ مولانا آزاد کی وفات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قیادت، صحافت اور اسلوب تحریر کا یہ انداز شاید انھی پر ختم ہو گیا ہو۔
0 تبصرے