Ticker

6/recent/ticker-posts

فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول کا خلاصہ Fasana-e-Aazad

فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول کا خلاصہ Fasana-e-Aazad

ناول : فسانہ آزاد
مصنف : پنڈت رتن ناتھ سرشار
ناول فسانہ آزاد کے مصنف پنڈت رتن ناتھ سرشار ہیں۔ فسانہ آزاد ایک خوبصورت انداز میں لکھا گیا اردو ناول ہے جو برسوں پہلے لکھنؤ کے نوابوں کے دور میں ایک اردو اخبار میں شائع ہوا تھا۔

فسانہ آزاد کو کب کتابی صورت میں شائع کیا گیا؟

فسانہ آزاد ایک قسط وار اردو ناول ہے اور اپنے عہد کا مقبول ترین ناول بھی ہے۔اس دور کے بہترین نثر نگار پنڈت رتن ناتھ سرشار اس کو کئی سالوں تک قسط بار تحریری شکل دینے میں لگے رہے۔ سرشار اردو کے ایک بڑے ادیب تھے۔ یہ ناول لگاتار ایک سال تک شائع ہوتا رہا اور دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی تھی۔ بعد میں اس ناول کو ایک ساتھ کیا گیا اور کتابی شکل دے دی گئی۔

ناول فسانہ آزاد کے مرکزی کردار

ناول فسانہ آزاد کے مرکزی کردار میاں آزاد ہیں جو کے ایک تعلیم یافتہ عالم فاضل نوجوان ہیں۔ تمام طرح کے مضامین میں اُن کی گہری معلومات ہیں۔ ایسا کوئی بھی مضمون دنیا میں نہیں جس میں ان کی معلومات حیران کن نہ تھی۔ وہ نہایت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت طاقت ور اور بہادر بھی تھے، بڑے بڑے پہلوان ان سے ڈرتے رہتے تھے۔ شہسوارای، تیراکی اور شاعری کے ماہر تھے۔ ایسی کیا چیز تھی جو آزاد نہیں کر سکتے تھے۔ سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو فسانہ آزاد کے مرکزی کردار میاں آزاد ایک ہر فن مولا آدمی تھے۔

فسانہ آزاد میاں خوجی کا کردار

فسانہ آزاد ناول کا دوسرا سب سے اہم اور نمایاں کردار میاں خوجی کا ہے۔ میاں خوجی اصل میں فسانہ آزاد کا بے حد لچسپ کردار ہے۔ میاں خوجی کا حلیہ کچھ اس طرح سے ہے: پتلے دبلے کمزور آدمی۔ افہیم کے بڑے رسیا اتنے کہ اگر ایک دن افہیم نہ ملے، تو ان کی جان ہی نکلنے لگتی تھی۔ ویسے تو خوجی کمزور تھے اور ان میں کسی سے مقابلہ کرنے کی تھوڑی سی بھی ہمت نہیں تھی مگر وہ ہر کسی سے ہر دم لڑتے بھرتے رہتے تھے۔ خود مار کھا لیتے مگر پھر بھی باز نہیں آتے۔

ناول فسانہ آزاد کا خلاصہ

خوجی اور میاں آزاد صاحب کی ملاقات ایک نواب کے یہاں ہوئی تھی۔ پھر وہ دونوں جگری دوست بن جاتے ہیں۔ کسی شہر کی ایک خوبصورت ادائوں والی اور پڑھی لکھی لڑکی سے آزاد میاں کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ میاں آزاد اس لڑکی کو شادی کا پیغام دیتے ہیں مگر وہ حسین و جمیل لڑکی ایک مشکل شرط رکھتی ہے کہ ترکی کے ملک جاؤ اور ترکوں کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ و جہاد کرو اگر تم فاتح ٹھہرے تو میں شادی کر لونگی۔ آزاد اس شرط کو مان کر جلدی سے خوجی کے ساتھ ترکی روانہ ہوجاتے ہیں۔ فسانہ آزاد میں آگے کا واقعہ دراصل اس سفر میں پیش حالات و حادثات کی داستان ہے۔

خوجی اور آزاد کہاں کے سفر پر جانا چاہتے تھے؟

ترکی کے سفر کے دوران ہی آزاد ایک شخص سے جھوٹے عامل کا قصہ سنتے ہیں اور اس کو دیکھنے جمل دی پور چلے جاتے ہیں۔ وہاں پر جاکر دیکھتے ہیں کہ وہ عامل مجمع میں اپنی طاقت کی شیخیاں بھگار رہا ہے۔ ایک ہلکا سا ہاتھ مار کر پہلوان کو جھت سے پلٹ ڈالتا ہے اور اکڑ کر کہتا ہے : ”ہے کوئی مرد جو آزمائے زور۔“ یہ سنتے ہی آزاد میاں بھی لنگوٹ کس کر میدان میں اتر جاتے ہیں اور جھت پٹ قلانچ مار کر عامل کو چاروں کھانے چت کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ”بتا کاٹ لو ناک، یا کتر لوں کان۔“

فسانہ آزاد اور بہادری کا یہ منظر

بہادری کا یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود گاؤں والوں کے درمیاں عامل کی جگہ آزاد میاں کی واہ واہ ہونے لگتی ہے۔اس عامل کو چت کرنے کے بعد آزاد میاں خوجی کے ساتھ شہر گھومنے لگتے ہیں کہ اچانک ان کا ٹکراؤ ایک بانکا سے ہوتا ہے۔ اس بانکے کو خود کے بانکا ہونے پر بہت فخر ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی اس کے سامنے صندلی سوٹ نہیں پہن سکتا تھا مگر آزاد میاں اگلے ہی دن صندلی سوٹ اور ٹوپی پہن کر بازار میں تشریف لاتے ہیں۔ اس بات کی خبر جیسے ہی اس بانکے کو لگتی ہے وہ جھت پٹ وہاں چلا آتا ہے اور کہتا ہے : ”اتار دے صندلی ٹوپی گستاخ۔“ اتنا سنتے ہی آزاد اس بانکے کے سر سے ہی ٹوپی اتار دیتے ہیں اور اسے رہگزر درزی کی ٹوپی پہناتے ہیں۔ یہ دیکھ کر لوگوں کی گھگھیاں گھبراہٹ میں بندھ جاتی ہیں۔

فسانہ آزاد کا قصہ

میاں آزاد ایک دن منادی کروا دیتے ہیں کہ میں کل صبح اپنے فن کے کرتب دیکھاؤں گا اور پھر اپنے وعدے کے مطابق لوگوں کو طرح طرح کے کرتب بھی دکھاتے ہیں۔ نواب صاحب کے دربار میں بیٹھے ایک مصاحب نے کہا ” حضور ! ایک عالم شہر سے آیا ہے۔ کہتا ہے ساری کتابیں چاٹ گیا ہوں، اس کا دعویٰ ہے کہ سچ کو جھوٹ کر سکتا ہوں۔ مگر وہ عامل خدا کو بلکل بھی نہیں مانتا، پکا ملحد اور منکر آدمی ہے۔“ آزاد میاں کے دل میں مصاحب کی بات سن کر عالم سے ملنے کا خیال پیدا ہوا، نواب صاحب عالم کو اپنے دربار میں طلب کرتے ہیں۔پھر عالم اور آزاد میاں آمنے سامنے آجاتے ہیں۔

فسانہ آزاد اور لکھنوی تہذیب

عالم اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہتا ہے میرے تین سوالوں کے جواب دے کر مجھے مطمئن کر دو۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ؟ میرا دوسرا سوال ہے کہ شیطان کو آگ سے بنایا گیا ہے اور اسے دوزخ میں جلایا جائے گا۔ واہ واہ بھلا آگ سے بنی چیز کو آگ سے کیا ڈر؟ اس سزا کا شیطان کو کیا خوف؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ جو بهی کرتا ہے اللہ کرتا ہے پھر انسان کا کیا قصور؟ عالم کے مشکل سوال سن کر چاروں جانب سناٹا سا چھا گیا۔میاں آزاد اس کے سوال سن کر ایک مٹی کا ڈھیلا کھینچ کر اس منکر کی کھوپڑی پر دے مارتے ہیں۔ عالم چلاتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے جب تجھے سوالوں کے جواب ہی نہیں آتے تو تُو مارنے پر اتر آیا ہے۔

فسانہ عجائب کس کی لکھی ہوئی داستان ہے : رتن ناتھ سرشار

نواب صاحب بھی غصّے میں آزاد سے اس غلط حرکت کی وجہ دریافت کرتے ہیں۔ میاں آزاد کہتے ہیں میں نے تو اس کے تینوں سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اگر یہ قدردان ہوتا تو اب تک مجھے گلے سے لگا لیتا۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ خدا ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ اس بات کا جواب یہ ہے کہ اگر اس ڈھیلے سے ان کو چوٹ لگی تو چوٹ ہمیں نظر کیوں نہیں آتی ہے؟

فسانہ آزاد کس کی تصنیف ہے

اس کا دوسرا سوال تھا کہ شیطان کو دوزخ میں جلانا بےکار ہے، اس لئے کہ وہ خود آگ کا بنا ہوا ہے۔ تو میرا جواب یہ ہے کہ یہ بھی تو مٹی کا بنا ہوا ہے اور اس کی کھوپڑی بھی تو مٹی ہی کی بنی ہوئی ہے پھر بھی اس کو مٹی کا ڈھیلا لگنے پر کیوں غصّہ ہوا ؟ اس کا تیسرا سوال تھا کہ جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے تو انسان قصور وار کیسے ہوا؟ پھر اسے ڈھیلا مارنے کا قصور وار مجھے کیوں ٹہرایا جارہا ہے؟ آزاد کے جواب سن کر سب دنگ رہ جاتے ہیں اور ان کی واہ واہ ہوتی ہے۔

آزاد سفر کے دوران بیمار پڑجاتے ہیں۔ بہت کوششوں کے بعد حالت سدھرنے پر دوبارہ سفر شروع کر پاتے ہیں اور لکھنؤ جا پہنچتے ہیں۔ لکھنؤ میں آزاد میاں کا نواب صاحب کے دربار میں آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ روز ہی طرح طرح کے موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ آزاد میاں خوجی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بڑا لطف حاصل کرتے ہیں اور سفر کرتے کرتے ہر جگہ اپنے کارناموں کی فہرست میں اضافہ بھی کرتے جاتے ہیں۔ آخر کار وہ سمندر کے راستے ترکی کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ خوجی بھی سفر کا ارادہ رکھتا ہے لیکن پانی دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور سفر کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔

میاں آزاد خوجی کی حماقتوں سے ذرا گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے ساتھ مل کر سوچتے ہیں کہ خوجی کو افہیم پلا کر بے ہوش کردیتے ہیں اور چارپائی پر ڈال کر جہاز میں لے جاتے ہیں۔ اسی طریقے پر عمل کر کے خوجی کو بھی جہاز میں سوار کردیا جاتا ہے۔ سفر کے دوران جہاز کے کپتان کی جانب سے آندھی آنے کی اطلاع ملتی ہے۔ خبر سنتے ہی ہر طرف شور و غل مچ جاتا ہے۔ آندھی کا زور دیکھ کر مسافروں کو حفاظتی کشتیوں میں سوار کیا جاتا ہے۔ آزاد اپنی بہادری اور شجاعت سے لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے ہیں۔

جہاز میں سوار لوگوں کو قریب ہی ایک جزیرہ نظر آتا ہے جہاں لوگ مشعلیں روشن کئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ مسافروں کو جزیرے کی خبر مل سکے۔ آزاد سب کی ہمت بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں طوفان کی زد میں بڑے بڑے پہاڑ آجاتے ہیں لیکن گھاس ہمیشہ بچ جاتی ہے۔ آندھی کے سامنے جہاز کھڑا نہ رہ سکا لیکن یہ کشتیاں بچ جائیں گی۔ غرض بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد کشتیاں جزیرے تک پہنچ جاتی ہیں اور وہاں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ان مسافروں کو خیر مقدم کہتے ہیں۔

آزاد میاں اگلی صبح وہاں سے روانہ ہو کر قسطنطنیہ پہنچتے ہیں۔ وہاں آزاد کو وزیرِ جنگ کے دوست کی بیٹی مئیڈا ملتی ہے جو انہیں شادی کا پیغام دیتی ہے۔ آزاد اسے انکار کرتے ہیں تو وزیرِ جنگ کو یہ کہہ کر کہ آزاد روس والوں کے جاسوس ہیں، آزاد کے خلاف کر دیتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ آزاد کو قید بھی کروا دیتی ہے۔ کئی ماہ قید میں رہنے کے بعد ان کے حوالے سے تحقیقات کی جاتی ہے تو سب معلوم ہوا کہ آزاد میاں بےقصور ہیں۔ مئیڈا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے ضمیر کی آواز سن کر آزاد صاحب سے معافی مانگ لیتی ہے۔

آزاد میاں کئی ماہ کی قید کے بعد رہائی پاتے ہیں اور وہ ترکی کے رجمنٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے رجمنٹ کے ساتھ مختلف مقامات پر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ مقابلہ سخت ہوتا جاتا ہے کہ ایک روز روسی دھوکے سے دونوں جانب سے حملہ کردیتے ہیں لیکن ترکیوں کے سامنے ٹِک نہیں پاتے اور انھیں میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ بلآخر آزاد میاں اس لڑکی حسن آرا کو تار کے ذریعے فتح یابی کی خبر سناتے ہیں۔

آزاد جنگ جیتنے کے بعد ہندوستان لوٹ جاتے ہیں۔ مس کلئریسا اور مئیڈا بھی ان کے ساتھ ہندوستان آتی ہیں اور انھیں یہاں کے سادہ لوگ اس قدر پسند آتے ہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی یہاں کی ان پڑھ عورتوں کو تعلیم دینے کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ آزاد میاں حسن آراء کی شرط پوری کر چکے ہوتے ہیں اس لیے ان دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو جاتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے