Ticker

6/recent/ticker-posts

زبان کی ارادی تشکیل کس طرح عمل میں آتی ہے؟ Zaban Ki Iradi Tashkeel in Urdu

زبان کی ارادی تشکیل کس طرح عمل میں آتی ہے؟ Zaban Ki Iradi Tashkeel in Urdu

زبان ایک تغیر پذیر شئے ہے۔ اس میں ہمیشہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں زبان کی آوازوں،الفاظ اس کی قواعد، شکلوں، جملوں کی ساخت اور الفاظ کے معنوں میں واقع ہوتی ہیں۔ زبانوں کی ارادی تشکیل دو ذریعوں سے عمل میں آتی ہیں۔ ایک ذریعہ عوام کا اور دوسرا عالموں اور انشاپردازوں کا۔

زبان کی ارادی تشکیل میں عوام کا حصہ

زبان کی ارادی تشکیل میں عوام کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ عوام کے سیاسی اور معاشی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انھیں اپنے لفظی خزانے میں اضافہ کر نا پڑتا ہے۔ اگر کسی ملک میں دو زبانیں رائج ہوں اور اس مقام کی دفتری ( سرکاری زبان رعایا کی عام بولی کے مقابلے میں ایک الگ علمی و ادبی زبان ہو تو اس مقام کے عوام کی زبان پر بھی اس کا اثر نمایاں ہو گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مصر پر عربوں کے غلبے نے وہاں کی اصلی زبان کو اس قدر مسخ کیا کہ آج تمام مصر کی زبان عربی ہے۔

زبان کی ارادی تشکیل میں سیاسی اثرات

زبان کی تشکیل میں سیاسی اثرات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔اگر کسی زبان کی متعدد بولیوں میں سے کوئی بولی اتفاق سے ملک کی سرکاری یا حکمرانوں کی زبان ہے تو اس کی دوسری تمام بولیاں آہستہ آہستہ اس سر کاری بولی سے متاثر ہو جائیں گی۔ چنانچہ مغلوں کی فتوحات دکن کے بعد سیاسی اثرات کے نتیجے میں دکنی زبان رفتہ رفتہ پس منظر میں چلی گئیں اور شمالی ہند کی اردو معیاری زبان کی شکل میں رائج ہو گئی۔

زبان کی ارادی تشکیل میں معاشی اثرات

معاشی اثرات میں صنعتی اور تجارتی اشیاء کے نام اہم ہیں۔ اکثر اشیاء کے وہی نام دوسری زبانوں میں بھی رائج ہو جاتی ہیں جو اس کی جائے پیدائش یا مقام ایجاد میں دیئے جاتے ہیں۔ جو زرعی یا صنعتی ملک دوسرے ملکوں کو اپنا سامان بھیجتا ہے وہ اپنے مال کے ساتھ اپنے الفاظ بھی روانہ کرتا ہے۔

مثلاً اردو میں مغربی زبانوں کے بیشتر الفاظ جیسے میز، لالٹین، بوٹ، پتلون، ریل، موٹر، ٹیلیفون، کمپیوٹر و غروان اشیاء کے ساتھ آۓ ہیں۔

زبان کی ارادی تشکیل میں تہذیبی اثرات

جو قوم تہذیب و تمدن میں، علم و ہنر میں، اختراعات وایجادات میں، حکمت و فلسفہ اور شعر وادب میں ایک اونچا مقام رکھتی ہیں اس قوم کی زبان بھی اتنی ہی اعلی، متمدن اور متمول ہوں گی۔ جب دوسری قومیں اس متمدن قوم سے علم و ہنر اور حکمت و فلسفہ سیکھیں گی تو لا محالہ اس متمول قوم کے خیالات، تخیلات اور علوم وفنون کو ہی نہیں بلکہ اس کی لفظیات اور اصطلاحات کو بھی قبول کرے گی۔ یعنی علم و ہنر میں آگے رہنے والی قوم اپنی زبان کے الفاظ بھی دوسری قوموں کی زبان میں منتقل کرتی ہیں۔ یونانی زبان نے عرب، ایران اور ہندوستان کے ساتھ یہی کیا۔ لاطینی نے یورپ کی کئی زبانوں کو اسی طرح مالا مال کیا۔

زبان کی ارادی تشکیل میں عالموں کا حصہ

عالموں کا حصہ : ہر زبان کے علماء اور انشاپرداز اپنی زبان کے لفظی خزانے کی کاٹ چھانٹ کرتے ہیں اور انھیں نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً جرمن زبان میں پہلی جنگ عظیم سے پہلے فرانسیسی الفاظ کافی تعداد میں موجود تھے۔ لیکن شکست کے بعد جرمنوں کو فرانس سے اس قدر نفرت ہو گئی کہ انھوں نے اپنی زبان سے جملہ فرانسیسی الفاظ خارج کر دیئے اور اس کی جگہ جر من الفاظ رائج کیئے۔ اس اصطلاح کو وضع کرنے اور انھیں رواج عام دینے میں جرمنی کے عالموں کا بڑا ہاتھ تھا۔

نئے نئے علوم وفنون کی اصطلاحات کا بھی زبان پر اثر پڑتا ہے۔ نئے علوم اپنے ساتھ نئے نام بھی لے کر آتے ہیں۔ مگر زندہ قومیں اس لفظی در آمد کو قبول نہیں کر تیں بلکہ متبادل الفاظ اور اصطلاحات وضع کرتی ہیں۔ عوام سہل نگاری کے سبب بیرونی الفاظ کو جون کا توں لے لیتے ہیں۔ علماء اصطلاح سازی کے ذریعہ پر دیسی اثر کو دور کرنے کی ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال جامعہ عثمانیہ کا دارالترجمہ ہے جہاں اردو زبان میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں اصطلاحات وضع کی گئیں جو تعلیمی اداروں میں رائج بھی ہو گئی اور اس میں سے بیشتر آج مروج ہیں۔

زبان کی ارادی تشکیل کس طرح عمل میں آتی ہے؟ Zaban Ki Iradi Tashkeel in Urdu


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے