Ticker

6/recent/ticker-posts

بنجارہ نامہ نظیر اکبر آبادی کی نظم بنجارہ نامہ کی تشریح بنجارہ نامہ کا خلاصہ

بنجارہ نامہ کی تشریح بنجارہ نامہ کا خلاصہ نظیر اکبرآبادی کی نظم بنجارہ نامہ

بنجارہ نامہ خلاصہ
بنجارہ نامہ نظیر اکبرآبادی کی حکیمانہ اور ناصحانہ نظم ہے۔ اس نظم کا ادبی مرتبہ معنوی لحاظ سے بہت بلند ہے۔ اردو میں یہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس پائے کی دوسری کوئی نظم نہیں ملتی ہے۔اس کے مطالب جس طرح گہرے، عمیق اور معنی خیز ہیں اسی طرح اس نظم کی ظاہری دلچسپی بھی نمایاں ہے۔ نظیر اکرآبادی کی اس نظم کو کافی مقبولیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظم پڑھنے والے کے دل کو بہت متاثر کرتی ہے اور ذہن کو فکر کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ اس نظم کی بحر نہایت ہی مترنم اور رواں ہے جس میں حسرت و یاس کے خیالات کو اظہار کرنے کے لیے موزوں ترین بحر ہے۔ یہ نظم معنوی اعتبار سے دقیق و عمیق ہے۔کسی بھی نظم میں الفاظ کی بندش، بحر اور آہنگ سے ہی نظم میں ترنم پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے خیالات اور الفاظ نظم میں اس طرح سے ہم آہنگ ہوگئے ہیں کہ کسی بھی لفظ کو تبدیل کرنے سے ترنم میں کمی آ جائیگی۔

اگر اس نظم کو کسی اور بحر میں تخلیق کی گئی ہوتی تو اتنی دلکشی اور جاذبیت نہیں پیدا ہوتی۔ نظیر کا نام دہلی اسکول کی نمائندگی کرنے والے شعرا میں اہمیت کا حامل ہے۔دنیا کی بے ثباتی کو صداقت، راست گوئی، سادگی، سلاست اور روانی کے ساتھ نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم نگاری کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ نظم بنجارہ نامہ میں دہلی کی تباہی و بربادی، مرہٹوں کے حملوں، احمد شاہ ابدالی اور نادرشاہ درانی کی لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت گری کا نقشہ نہایت مؤثر انداز میں کھینچا گیا ہے، دہلی کی عوام کے مزاج میں جن حالات کے پیشِ نظر یاس و غم کے ساتھ حقیقت شناس کا احساس بھی پیدا ہوگیا تھا اُس کا اہم ثبوت نظیرؔاکبرآبادی کی نظم بنجارہ نامہ ہے۔اس نظم میں اسی دور کی کہانی ہے۔

نظم بنجارہ نامہ میں نظیر اکبر آبادی نے دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی فانی زندگی کا حال سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔نظم بنجارہ نامہ سوز و گداز سے بھرپور ہے۔ جس میں ہندوسانیوں کی عوامی گیت کی سی میٹھی کسک اور دردمندی کے ساتھ کرب نے اس نظم کو بہت ہی پرزور، دلنشیں اور پرکشش بنادیا ہے۔ بنجارے کی خانہ بدوش زندگی کے ذریعے شاعر انسان کی ناپائیدار اور فانی ہستی کی کہانی بیان کرتا ہے۔جو الفاظ اظہارِ خیال اور مرقع کشی کے لیے نظم میں استعمال کیے گئے ہیں وہ موزوں، سلیس اور مناسب ہیں۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ نظیر اکبرآبادی کو الفاظ اور خیالات کو نظم کرنے میں قدرت و کمال حاصل تھا۔

بنجارہ نامہ ۱۸ویں صدی کے ہندوستانی شاعر نظیر اکبرآبادی کی لکھی ہوئی ایک مشہور نظم ہے۔ اس نظم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ’’دنیا کی کامیابیوں پر فخر کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ انسان کے حالات پلک جھپکتے ہی بدل سکتے ہیں۔ دولت اور خوشحالی ایسی چیزیں ہیں جو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن موت ایک یقینی سچائی ہے جو کہ کسی نہ کسی موقع پر، ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ نظم برصغیر پاک و ہند کے بہت سے حصوں میں تیزی سے مقبول ہو گئی، اور اس کی شہرت تقریباً دو صدیوں تک قائم رہی، اگرچہ اس کی زبان مقامی اور سادہ ہے، اس میں موجود تصاویر اور منظر کشی اس قدر دلکش ہے کہ یہ ایک گیت بن گئی ہے۔ کئی ہزار سالوں کی تعلیمات کا خلاصہ۔اس میں بنجارہ کا کردار موت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔جس طرح کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ بنجارہ اپنا سارا سامان لاد کر کب ایک جگہ سے نکل جائے گا، اسی طرح موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔

بنجارہ نامہ : نظیر اکبرآبادی

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

Banjara Nama Ka Khulasa

گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

Jab Laad Chalega Banjara In Urdu

یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی
اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی
کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی
کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل
اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل
گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ
چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے
جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے
کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے
کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

Banjara nama complete Poem In Urdu

مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے
کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا
تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا
کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا
گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے