کلیم الدین احمد کی تنقید کی خصوصیات
کلیم الدین احمد)1907ئ-1983ئ(کی تنقیدی تحریر کا باضابطہ آغاز1939ء میں گل نغمہ کے مقدمہ سے ہوا۔اسی مقدمہ میں ان کی زبان قلم سے رسوائے زمانہ جملہ غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے منظر عام پر آیا۔ اس بیان کی کلیدی وجہ یہ بتائی گئی کہ غزل میں ربط،اتفاق اورتکمیل کا فقدان ہے۔ جس کے باعث تہذیب یافتہ ذہن کو لطف اور نہ تربیت یافتہ تخیل کو سرور حاصل ہے۔ گل نغمہ کے ایک سال بعد ان کی دوسری مشہور کتاب اردو شاعری پر ایک نظر تقریبا 1940ء میں مشہور ہوئی۔یہ کتاب در اصل شاعری کے مختلف اصناف کی تنقید پر مبنی ہے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ان کی تیسری کتاب اردو تنقید پر ایک نظر1942ء میں شائع ہوکر متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی۔
Kalimuddin Ahmad Ki Tanqeed Nigari in Urdu
اس کتاب سے ادبی دنیا میں ایک طرح کی کھلبلی مچ گئی۔جس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ اردو کے پورے تنقیدی سرمائے تذکروں سے آب حیات اور حالی سے ان کے معاصر ین تک کی،تنقیدی کاوشوں کو یکسر رد کیا گیا اور یہاں تک کہ اردو تنقید کے وجود کو محض فرضی،اقلیدس کے خیالی نقطے اور معشوق کی موہوم کمر سے تعبیر کرتے ہوئے پیش کی گئی۔جس پر ناقدین ادب نے مختلف نوعیت کے شدید تر رد عمل کیے۔پروفیسر نثار احمد فاروقی لطیف طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
پرو فیسر کلیم الدین احمد تو اردو میں تنقید کے وجود سے ہی منکر ہیں اور اسے معشوق کی موہوم کمر کہتے ہیں، مگر اس)کا کیا کیا جائے ؟کہ(انکار میں اقرار بھی پوشیدہ ہے اس لیے کہ معشوق کی کمر) تو ہوتی ہے، بس وہ شاعر کو نظر نہیں آتی۔کلیم الدین صاحب تنقید کو کوئی فتوی یا حتمی فیصلہ قرار دینا چاہتے ہیں۔
سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ کلیم الدین نے اردو شعر و ادب کی اصنافی خصوصیات /امتیازات اور اس کی تنقید کو از راہ نظر یکسر رد کیا ہے یا پھر کسی ذاتی منصوبہ بند سازش کے تحت۔کیوں کہ اس سے قبل بھی مشرقی علوم و فنون پرانگشت نمائی کی جاتی رہی ہیں،کبھی مرعوبیت کی شکل میں اور کبھی حکمرانی کے رو سے۔ لہٰذا یہ نکتہ غورطلب ہے کہ آیا مشرقی)بالخصوص عربی،فارسی اور اردو ادب اتناہی گرا ہوا/پست قد ہے کہ اس کی تہذیبی،ثقافتی،لسانی اور فنی قدروں کی یکسر تردید کی جائے ،تو پھر دوسری طرف ان مشرقی علوم کی رہزنی کیوں؟ یا پھر ان شہ پاروں کی تحقیق کیوں؟ اور مزید جدید ادبی تھیوریز )جن کو ہم مغرب کی دین کہتے ہیں(کی اساس کیا مشرقی تصور ادب کے ذیلی مباحث کے تحریف شدہ نظریات پر مبنی نہیں؟۔بہرحال یہ مسئلہ ہنوز تحقیق اورغور طلب ہے۔
کلیم الدین احمد کے پورے تنقیدی سرمائے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تنقیدی شعور و آگہی کا اطالق ایک مخصوص نقطئہ نظر کے تحت کیا ہے۔اس لیے ان کا تمام تنقیدی کارنامہ تین شقوں پر قائم ہے۔ اول تو انہوں نے سب سے پہلے فن تنقید کے بنیادی مسائل اٹھائے ہیں اور پھر اصول تنقید کو مرتب کیا ہے۔ دوم انہوں نے اپنے وضع کیے ہوئے اصولوں کا انطباق شعر و ادب پر کیا ہے۔ سوم انہوں نے تمام شعری اصناف کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کرکے قدر و قیمت کا تعین کیا ہے۔ان کے اہم ادبی تصورات کو سمجھنے کے لیے مندرج ذیل اقتباسات مالحظہ ہوں:
ادب کی دنیا ایک ہے، اس میں الگ الگ چھو ٹی چھوٹی دنیائیں نہیں، خود مختار حکومتیں نہیں۔ شاعری کا مدعا اآج بھی وہی ہے جو دو ہزار برس پہلے تھا اور فنون لطیفہ کے بنیادی قوانین شاعری کی اصولی باتیں ساری دنیا میں ایک ہیں۔
ادب دماغ انسانی کی کاوشوں کا ایک آیئنہ ہے، انسانی فطرت ہر قوم، ہر ملک، ہر زمانہ میں یکساں نظر آتی ہیں۔ سطحی اختالفات تو ضرور ہیں اور ہوتے رہتے ہیں ؛لیکن حقیقت نہیں بدلتی۔...
ادب بنی نوع کی زندگی اور اس کے شعور سے وابستہ ہے۔ نوع انسانی کی زندگی مسلسل ہے۔ افراد فنا ہوجائیں؛ لیکن نوع کی فنا نہیں۔ اس میں تغیر تو ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہ تغیر ارتقا ئی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اسی طرح ادب میں بھی اس تسلسل کا وجود لازمی ہے۔
مذکورہ اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد کا ادب کے متعلق ایک مخصوص نظریہ ہے۔ وہ تمام ادبوں کی دنیا کو ایک تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ادبی تصور میں عالقایئت کے بجائے عالمیت کا غالب رحجان پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب انسانی تجربات کا اظہار ہے۔ ان تجربات میں جذبات اور خیاالت دونوں شامل ہیں۔ ان کا موقف یہ بھی ہے کہ تجربہ میں محض زندگی کے روزمرہ حقائق داخل نہیں بلکہ اس میں احساسات بھی داخل ہیں۔ان میں ایک قسم کی عالم گیری اور ابدیت ہوتی ہے۔ ادب، پائدار ادب اسی قسم کے بنیادی تجربات سے سروکار رکھتا ہے۔ اس لیے ایک دور کا ادب کسی دوسرے دور میں بیکار،مہمل، فرسودہ، ازکار رفتہ نہیں ہوجاتا بلکہ جہاں تک بنیادی اور پائدار تجربات کا سوال ہے۔اپنی قدرو قیمت پر قائم رہتا ہے۔ نیز ادب نام ہے تجربات کے اظہار کا۔ یہ تجربات ایک حد تک انسان کے ماحول سے وابستہ ہیں یہ ماحول کائنات کی ہر چیز کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے لازمی طور پر انسانی تجربات میں بھی تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ ماحول کا وہ سماج ہو یا خارجی ماحول ہو،اثر کسی دور کے ادب پر ہوتا ہے اور کسی دور کے ادب کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس ماحول کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کلیم الدین کے شعور ادب میں تجربہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جس کا براہ راست تعلق انسانی ماحول سے ہے۔ جس میں تغیر بھی ہے اور تبدل بھی، اس لیے ان کے نزدیک شعرو ادب کی تفہیم میں ماحول کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
کلیم الدین کے نزدیک شاعری بیش قیمتی تجربات کا موزوں ترین اظہار ہے۔ اس اظہار میں تین بنیادی شرائط ہیں اس میں سچائی ہو، خلوص ہو اور گہرائی ہو۔ انہوں نے اپنی کتاب اردو شاعری پر ایک نظرمیں شاعری کے متعلق بہت سے بنیادی نکات اٹھائے ہیں۔ وہ شاعری کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
شاعری اچھے اور بیش قیمت تجربوں کا حسین، مکمل اور موزوں بیان ہے۔ شاعری کی جو تعریف انہوں نے بیان کی ہے وہ مشرقی اصول شعر سے عبارت ہے۔ عربی اور فارسی کے ناقدین نے انسانی تجربوں کے موزوں بیان کوہی شاعری تسلیم کیا ہے لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے کہ انہوں نے اس میں شرط لگا کر اپنے مخصوص زاویئہ نظر کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ شاعری اشارات و کنایات میں اپنی بات پیش کرتی ہے، جس کو قاری اپنے تربیت یافتہ ذہن کے ذریعہ مکمل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مشرقی شاعری میں ربط یا تسلسل نام کی کوئی ظاہری چیز نہیں پائی جاتی اور نہ ہی انگریزی شاعری کی طرح اس میں ابتدا، وسط اور انتہا کا التزام ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد آگے چل کر اسی نقطہ پر ٹھہر جاتے ہیں اور میر کے دو شعر کا موازنہ سلی پردوم کی ایک نیم مختصر نظم سے کرکے یہ نتیجہ بر آمد کرتے ہیں کہ :
میں صرف ایک بات اور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نظم کے مختلف اجزا میں ربط و تسلسل ہے اور صرف یہی نہیں اس نظم میں خیالات و جذبات کی ابتدا، ترقی اور انتہا ہوتی ہے اور یہاں یہ تینوں حصے بہت صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔
کلیم الدین احمد کے نزدیک شاعری انسانی کامرانی کی معراج اور انسانی تہذیب و تمدن کے سر کا تاج ہے۔وہ اسے انسان کی زندگی کی تکمیل کا بنیادی وسیلہ تصور کرتے ہیں ان کا خیا ل ہے کہ شاعری وہ طاقت ور صنف ہے جس میں انسان کی تمام تر قوتیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاعری انسان کو کامل سکون عطاکرتی ہے۔ ان کے یہاں شاعری کی ماہیت اور انسان کی زندگی میں شاعری کی قدرو قیمت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ بہرکیف شاعری سے متعلق ان کے تمام تصورات کا خالصہ یہ ہے کہ :
1 .شاعری میں پیش کردہ تجربات یا خیالات قیمتی ہوں۔
2 .خیال میں انفرادیت اور تازگی ہو۔ نیز وہ نئے جذبات و احساسات سے پر ہوں۔
3.شاعری میں حسن بیان ہو۔ ان کا موقف ہے کہ شاعری کا بنیادی تعلق آسودگئ روح ہے۔ اس لیے جن الفاظ کا پیکر اسے عطا کیا جائے وہ بھی حسین ہونے چاہیے۔
4 .اچھی شاعری کے لیے یہ بھی الزم ہے کہ مکمل بیان ہو ایسا نہ ہو کہ الفاظ کے پردے سے معنی دھندلے ہوجائیں۔
5 .شاعری میں پیش کردہ تجربات کے لیے مناسب الفاظ استعمال کیے جائیں تاکہ مفہوم پوری طرح ادا ہوجائے۔
6 .شاعری میں موزونیت، نغمگی اور تناسب کا ہونا بھی ضرور ی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاعری میں عمدہ اور بے بہا تجربات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی صورت گری تین عناصر “ نقوش، الفاظ ، وزن / آہنگ “ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ عناصر استعارات کی شکل میں ہوتے ہیں۔ جو لازم جزو شاعری ہے۔
شاعری کی عملی تنقید
شاعری کی عملی تنقید کے حوالے سے ان کی دو کتابیں اردو شاعری پر ایک نظراورعملی تنقید قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی شاعری کی عملی بحثیں ملتی ہیں لیکن اول الذکر دونوں کتابیں شاعری تنقید میں کلیدی درجہ رکھتی ہیں۔ان کی عملی تنقید میں غزل تنقید کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالی کے بعد ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے غزل کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کے خدو خال کا تعین کیا۔ اگرچہ ان کو غزل کی ہیت، ریزہ خیالی اور موضوعات کے تکرار سے اتفاق نہیں تھا جس کی وجہ سے ”غزل کو نیم وحشی صنف سخن “ قرار دیا لیکن انہیں غزل کی مستحکم روایت اور نزاکت کا پورا پورا احساس تھا۔ غزل تنقید کے متعلق ان کا پہلا مضمون “ نگار “ لکھنو، جنوری تا فروری 1942ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اردو شاعری پر ایک نظر اور عملی تنقید جلد اول میں صنف غزل پر عملی بحث کی۔ نگار کے مضمون میں انہوں نے غزل کے متعلق جو آرا پیش کی تھیں انہیں کو مربوط شکل میں اپنی مشہور کتاب اردو شاعری پر ایک نظر میں پیش کیا ہے۔ اور پھر اسی روشنی میں غزل، قطعہ، قصیدہ اور مرثیہ جیسی معروف صنف سخن کو زیر تجزیہ لئے اور انہیں اصناف کے تحت نمائندہ شعرا مثلا میر، درد، سودا، ذوق، غالب، مومن، میر حسن، نسیم، شوق، انیس اور دبیر وغیرہ کے فن پاروں کو موضوع بحث بنایا۔
غالب کی ایک مشہور غزل جو سات اشعار پر مشتمل ہے،جس کا مطلع
غیرلیں محفل میں بو سے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
اورمقطع
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اس پوری غزل کو نقل کرکے وہ لکھتے ہیں :
اس غزل پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شعروں میں مشابہت اور مناسبت ہے۔ سب ہم وزن ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں۔ ایک شعر کے سوا سب شعر عشق اور عشق کے لوازمات سے وابستہ ہیں۔ اس ظاہری مطابقت کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ باطنی مطابقت بھی ہوگی اور ان شعروں میں معنی کے لحاظ سے ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال بھی ہوگا لیکن یہ خیال غلط ہے۔ مختلف شعروں میں شعور ی اور غیرشعوری کوئی ربط نہیں۔ پڑھنے والے کے ذہن میں مکمل تجربے کی تصویر اجاگر نہیں ہوتی بلکہ چند پراگندہ خیالات اور نقوش جم جاتے ہیں۔ رقیبوں کی کامیاب قسمت، شاعری کی خستگی، خط لکھنے کا ارادہ، زمزم پر مے کشی، دل کا آنکھوں میں جاپھنسنا، شاہ کے غسل صحت کی خبر، شاعر کا نکما ہونا ان باتوں میں کوئی معقول مناسبت نہیں۔ ان میں ربط و تسلسل و ارتقائے خیال نہیں جو سلی پرودوم کی نظم کے مختلف بندوں میں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ غزل میں تسلسل بیان نہیں ہوتا، ہر شعر جداگانہ مفاہیم کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح غزل کا ہر شعر اپنے میں مکمل اور معنی میں خود مکتفی ہوتا ہے۔ ظاہری تسلسل کے لحاظ سے غزل کے اشعار ایک دوسرے سے متفرق ہوتے ہیں لیکن ربط باہمی سے پیوست ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کے اشعار میں بحور قوافی کی جھنکار اور ردیف کی تکرار باہمی ربط کی عمدہ دلیل ہے۔ جس کی شناخت صاحب فہم یا غزل شناس ہی کرسکتا ہے۔
غزل کے تاریخی، تہذیبی اور صنفی خصوصیات و امتیازات سے چشم پوشی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ کلیم الدین سلی پرودوم کے نظم کی خصوصیات و امتیازات کوغالب کی غزل میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک مرتبہ ایک ضعیفہ اپنے گھر کے باہر سرکاری بلب کی روشنی میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ایک راہ گیر نے پوچھا بڑی بی کیا تلاش کر رہی ہو ؟ بھیا ! سوئی تلاش کر رہی ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کہاں گری تھی ؟ ضعیفہ نے کہا وہ تو اندر کوٹھری میں گری تھی۔ پھر یہاں کیوں تلاش کر رہی ہو ؟ وہاں اندھیرے کی وجہ سے سوجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے سوچا یہاں روشنی میں تلاش کرلوں ! یہی واقعہ کلیم الدین احمد کے ساتھ بھی پیش آیا کہ انگریزی شاعری کی خصوصیات و امتیازات کو اردو شاعری میں تلاش کر رہے تھے۔ جس کے باعث اردو شاعری ان کے معیار و میزان پر پوری نہیں اتری۔
شاعری کے عملی مباحث میں کلیم الدین احمد کی عملی تنقید سر فہرست ہے۔ اس میں ان کا طریق نقد بالعموم یہ رہا ہے کہ شعرو ادب کے جائزے سے قبل متعلقہ جائزے کے کچھ بنیادی اصول وضع کیے ہیں۔ بالفاظ دیگر فن پارے کی عملی تنقید سے پہلے اپنی نظری تنقید کو مستحکم کیا ہے۔ فن پارے کو پرکھنے کے لیے انہوں نے جن نکات کی نشاندہی کی ہے یہاں ان کا ذکر ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اہم نکات کا خالصہ آپ کے پیش نظر ہے :
اول شعر کی تفہیم کے لیے ان کے نزدیک دو شرطیں ہیں کیا اور کیسے ؟ ان کے نزدیک کیا سے مراد مضمون ہے اور کیسے سے مراد الفاظ ہیں۔ یعنی ان کی عملی تنقید موضوع اور ہیت کے مطالعات پر مبنی ہیں۔ وہ اس ضمن میں رقمطراز ہیں :
........شعر کو سمجھنے، پورے طور پر سمجھنے، ان کی خصوصیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیا اور کیسے کی بات اٹھائی جاتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر مقصد میں کامیابی بھی ممکن نہیں اس لیے یہ تجزیہ ضروری ہے، کیا اور کیسے کی بات ضروری ہے۔
ہیئت / فارم کے مطالعے کے لیے ان کے یہاں چار چیزیں ہیں : اول نقوش، دوم الفاظ، سوئم آہنگ یا وزن، چہارم لب و لہجہ۔ ان کا موقف ہے کہ شعر کی تشکیل الفاظ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یعنی شاعرخیال درجہ کے ہیں اور اس میں ذہنی نقش یا تاثر کی شکل میں کچھ کہتا ہے۔ اگر یہ خیال یا ذہنی نقوش اعلیٰ درجہ کی ہوگی۔
تجربے کی باریکی، تازگی اور گہرائی موجود ہے تو یہ شاعری اعلیٰ شعر کے مطالعہ کادوسرا نکتہ الفاظ کی پیش کش ہے۔ وہ لفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آئی اے رچرڈز کے نظریہ سے استفادہ کرتے ہوئے یہ حوالہ دیتے ہیں کہ ہر لفظ کا ایک پیکر ہوتا ہے۔
اسے بولتے ہیں تو اس کی ساخت ہم منہ میں محسوس کرتے ہیں، سنتے ہیں تو ایک خاص صوتی پیکر کا احساس ہوتا ہے،سوچتے ہیں تو آنکھوں کو، اندرونی آنکھوں کو اس کا صوری پیکر نظر آتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شعر مخصوص لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن لفظوں کا ہر مجموعہ شعر نہیں ہوتا ہے۔
کلیم الدین کے عملی تنقید کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تجربات و الفاظ میں ناگزیر ربط تلاش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاعر تجربات کی پیش کش کے لیے غیر شعوری طور پر بہترین الفاظ تلاش کرتا ہے اور پھر وہ انہیں عمدہ ترتیب اور مناسبت سے آراستہ کرتا ہے۔ اس لیے ناقد کے لیے ضروری ہے کہ معنی اور جذبات سے عالحدہ ہوکر پہلے الفاظ کی طرف متوجہ ہو کیونکہ الفاظ ہی ناقد کی رہنمائی اور منزل مقصود تک لے جاتے ہیں۔ یعنی شعر کے محاسن و معائب سے آگاہ کرتے ہیں۔
عملی تنقید
اگرچہ انہوں نے موضوعات کے حوالے سے بھی متعدد شعرا کے کلام کا جائزہ لیاہے لیکن ان کی عملی تنقید کا بیشتر حصہ ہیتی مطالعات پر مبنی ہے۔مثلاً
سودا کا مشہور قصیدہ جس کا مطلع
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنارتسبیح سلیمانی
کی تشبیب کے متعلق وہ لکھتے ہیں :
ان شعروں میں چند اخلاقی خیالات کا بیان ہے۔ ان میں کوئی ناگزیر ربط و تسلسل نہیں، کوئی خاص ارتقائے خیال نہیں۔ ان کا بیان نثر میں بھی ممکن تھا لیکن سودا نے انہیں شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ نثر میں یہ باتیں سیدھے سادے طریقے سے ہوتیں، شعر میں انہیں نقوش کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں کوئی تشبیہ یا استعارہ ہے۔ اور یہ تشبیہ یا استعارہ صرف ایک زیور نہیں بلکہ جز وخیال ہے۔اس کی وجہ سے خیالات کا مطلب وسیع اور پر اثر ہوجاتا ہے۔ ہر خیال گویا ایک حسین تصویر ہے۔ جذبات کی گرمی، تخیل کی رنگینی ہر شعر میں موجود ہے۔
کلیم الدین فن پارے کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کے لیے فارم / ہیئت کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر وہ کسی فن پارے کے خیالات کا ہی تجزیہ کیوں نہ کرتے ہوں لیکن ان کے یہاں ہیتی مطالعہ غالب رہتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ اردو شاعری پر ایک نظرمیں عملی تنقید کی جو مثالیں ملتی ہیں ان میں استخراج نتائج کے باعث متن کی تفہیم میں تشنہ لبی کا احساس ہوتا ہے۔نیز اپنے مخصوص نکتہ نظر کے تحت فن پارے کے معائب کی جستجو متن کی توضیح میں حائل رہتی ہے۔جبکہ بعد کی تحریروں میں مثلاً سخن ہائے گفتنی، عملی تنقید اور اقبال ایک مطالعہ میں شاعری کی عملی تنقید پر مبنی تمام مثالیں انکشاف متن کے لحاظ سے عمدہ اور پختہ ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
اسی طرح کلیم الدین نے اپنے طریقئہ نقد میں تقابل اور توازن کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ ان کا یشتر تنقیدی سرمایہ موازنہ پر مبنی ہے۔ کبھی تو وہ موازنہ کے ذریعہ استنباط نتائج کو مستحکم کرتے ہیں اور کبھی فن پارے کے تجزیاتی مطالعہ کی اساس تقابل پر قائم کرتے ہیں۔ایک مثال سودا اور محسن کاکوری کے مشہور قصیدے کے مطلع سے مالحظہ ہو۔ انہوں نے ان دونوں شعرا کی تشبیب کا موازنہ موضوع کے پیش نظر جزوی طور پر پیش کیا ہے۔ سودا کا مطلع
دیکھیے اٹھ گیا بہمن و دے کا چمنستان سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاصل
محسن کاکوری کا مطلع :
سمت کاشی سے چال جانب متھر بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
کا تقابل کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں :
سودا بہار کا نقشہ پیش کرتے ہیں، محسن کاکوری برسات کا۔ سودا کی تشبیب سے کم سے کم بہار کی رنگینی و فراوانی کا اندازہ ملتا ہے۔ محسن کاکوری کے اشعار سے پراگندگی پیدا ہوتی ہے۔ اور کوئی صاف مکمل نقشہ مرتب نہیں ہوتا۔ سودا میں ایک زور ہے جس نے آورد کو آمد میں تبدیل کر دیا ہے۔ محسن کاکوری میں یہ زور موجود نہیں۔
ان کی عملی تنقید میں موازنہ کا طریقہ ایک مخصوص حیثیت کا حامل ہے۔ کبھی تو انہوں نے فن پارے کی توضیحی اساس تقابل پر منضبط کی ہے اور کبھی استخراجی نتائج کی تائید و تردید کے لیے تقابل کا سہارا لیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی عملی تنقید کا بیش تر حصہ موازنہ سے عبارت ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں شاعری تنقید میں کسی فن پارے کا کلی طور پر تقابلی مطالعہ نہیں ملتا ہے کہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جس متن کو اپنے تجزیاتی جزوی طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ غالباً مراحل سے گزرتے ہیں اس کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ مقاصد کی تکمیل جزوی تقابل سے پوری ہوجاتی ہے۔ بعض مواقع میں کلیم الدین کا تقابلی مطالعہ ناقص رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے وضع کردہ اصولوں کے انطباق میں نفس مضمون اور عندیہ متن کی تحریف کا لحاظ کیے بغیر فن پارے سے استدلال کرتے ہیں۔
بہر کیف اس کے باوجوبھی ان کا تقابلی طریق نقد، متون کی توضیح، استنباط نتائج اور تعین قدر کے اعتبار سے صحت مند ہے۔ بحیثیت مجموعی کلیم الدین کی عملی تنقید شعرو ادب کے متن کو بنیادی حیثیت عطا کرتی ہے۔ ان کی تنقید کی اساس فن پارے پر مرتکز رہتی ہے۔ وہ فن پارے کے مختلف انسالکات اور معروضی لوازمات سے قطع نظر فنی تخلیق پر اپنی پوری توجہ صرف کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ فن کارکی قدر سنجی کے لیے اس کے معاشرتی پس منظر کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے فن پارے کی عملی تنقید کرتے وقت متن کے مرکزی خیال اور موضوع کی نشاندہی کرکے اس کے حسن و قبح پر ذیادہ تر بحث کی ہے۔ انہوں نے موضوع اور ہیت کو منفرد اکائی کے طور پر پرکھنے کی کوشش کی۔
اسی طرح انہوں نے شاعری تنقید میں بعض موقعوں پر معروضی اور تجزیاتی انداز نقد سے انحراف کرتے ہوئے محض تاثراتی انداز نقد سے بھی کام لیا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کی عملی تنقید متن کے مخصوص معنیاتی نظام کا عمیق مطالعہ کرتی ہے۔ کلیم الدین احمد کی عملی تنقید کا پہلا حصہ تجزیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے وضاحت، استدلال اور تقابل کے ذریعہ متن کی مختلف جہتوں تک رسائی حاصل کی ہیں۔ بعض موقعوں پر زیر تجزیہ متن کے جزیاتی نکتوں کو اس قدر کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ فن پارے کی تمام تفہیمی پرتیں وا ہوگئی ہیں۔ جب وہ کسی غزل یا نظم کے مصرعوں کو آگے پیچھے کر کے دکھاتے ہیں یا چند مصرعوں کو حذف کر کے دکھاتے ہیں کہ یہ ضروری ہیں اور یہ غیر ضروری ! فن پارے میں الفاظ کی تکرار پر گرفت کرتے ہیں تو وہ ہیتی طریقہ رمز شناس معلوم ہوتے ہیں۔
0 تبصرے