Ticker

6/recent/ticker-posts

جید عالم دین : امام عیدین حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع احمد

جید عالم دین : امام عیدین حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع احمد

مظفر نازنین، کلکتہ
سر زمین ہند میں بیشتر علماء کرام، مفتیانِ عظام، ائمہ کرام، شعراء کرام اور مذہبی پیشواؤں نے جنم لیا۔ جید عالم دین کا جائزہ لیا جائے تو اپنے شہر کولکاتا میں مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم زماں حسینی، مولانا محمد صابر، حکیم عرفان الحسینی، سید عمیم الاحسان برکتی۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان جید عالم دین کے علاوہ علماء کرام کی ایک طویل فہرست ہے جو سر دست اس چھوٹے سے مضمون میں شامل کرنا ممکن نہیں۔ اس مضمون میں مولانا ابو سلمہ شفیع احمد صاحب کے حوالے سے لکھ رہی ہوں۔

مولانا ابو سلمہ شفیع احمد ایک جید عالم دین تھے

مولانا ابو سلمہ شفیع احمد ایک جید عالم دین تھے۔ موصوف کا تعلق سر زمین بہار سے تھا اور بہا ر شریف ( قدیم ضلع پٹنہ، حال نالندہ) کے محلہ سکونت کلاں میں موصوف کی پیدائش ہوئی۔ سر زمین بہار کی دھرتی جہاں سے بیشتر علماء کرام، مفتیان عظام، شعرا کرام نے جنم لیا اور صرف بہار ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوئے۔ گپت دور کو عہد زریں یا سنہرا دور کہتے ہیں۔ اس دور میں سر زمین نالندہ میں نالندہ یونیورسٹی بہت مشہور ہوا۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں عالمی شہرت یافتہ پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب نے جنم لیا۔

مولانا ابو سلمہ صاحب کی پیدائش اکتوبر 1912 ضلع نالندہ بہار شریف

ضلع نالندہ بہار شریف میں مولانا ابو سلمہ صاحب کی پیدائش اکتوبر 1912 ء میں ہوئی۔ مولانا جید عالم دین۔ اکابر ملت اور شیخ الحدیث تھے۔ ان کے والد امیر حسن بہت نیک، صالح اور ماہر طبیب تھے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم مدرسہ قومیہ بہار شریف سے حاصل کی۔ پھر مدرسہ عزیزیہ پٹنہ میں داخلہ لیا۔ یہاں عربی کے استاذ مولانا انوار الحق اعظمی کے خصوصی شاگرد رہے۔ انوار الحق اعظمی کے وصال کے بعد ثانوی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا۔ پھر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کا رُخ کیا۔ اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے فارغ ہوکر بہار شریف یعنی وطن واپس آئے اور مدرسہ قومیہ جہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی وہیں صدرِ مدرس مقرر ہوئے۔ قوم مسلم کو تعلیم سے روشناس کرانا، قومی یکجہتی قائم رکھنا، قرآن اور احادیث نبوی کو عام کرنا مولانا کا مشن تھا۔

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب نے 1949 ء میں مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تدریسی فرائض انجام دینا شروع کیا

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب نے 1949 ء میں مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تدریسی فرائض انجام دینا شروع کیا۔ 1949 ء میں بحیثیت شیخ الحدیث و تفسیر تقرری ہوئی اور موصوف 1972 ء تک یعنی 23 سال تک اس منصب جلیلیہ پر فائز رہے۔ اور بحیثیت مدرس اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔

ظفر احمد ایڈوکیٹ کے مطابق مولانا ابو سلمہ شفیع احمد کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ ایک طویل فہرست ہے جن میں اندرونِ ہند اور بیرون ہند دونوں ہیں یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور سعودی عرب میں بھی ان کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے۔

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب گنجینۂ علم دن لٹا گئے

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب گنجینۂ علم دن لٹا گئے۔ ملت اسلامیہ کا یہ گوہر آب دار اور آج ہمارے درمیان نہیں ہے۔ لیکن ان کے ذریعہ دی گئی تعلیم ان کی تصنیفات و تالیفات امت محمدیہ کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہیں۔ اور مولانا ورثے میں ایسا گنجینۂ علم چھوڑ گئے ہے جو آبشار کی مانند ہے جس سے ملتِ اسلامیہ سیراب ہوتی رہے گی۔ ان کے تصنیفات اور تالیفات مندرجہ ذیل شعر کے مصداق ہیں :

آئینہ وفا ہے گنجینۂ شفا ہے
یہ دین کا ہے ہادی دنیا کا رہنما ہے

امامِ عیدین ابو سلمہ شفیع احمد صاحب کے پیچھے جنہوں نے نمازِ عید الفطر ادا کی ہے۔آج بھی وہ پُر کیف اور روح پرور منظر ان کے سامنے ہے۔ اور آج بھی پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی اس خوبصورت نظم کے مقصدا ہے :

پھونک خانۂ دل آتش نفرت پیارے
گرنہ ہو عید تو ہو جائے قیامت پیارے

خود کو کہتے ہیں مسلماں تو مسلماں ہو کر
کیسے رکھو ہو مسلماں سے کدورت پیارے

دوستوں پر بھی تمہیں پیار نہیں آتا ہے
ہم تو دشمن سے بھی کرتے ہیں محبت پیارے

آج بھی گر یوں منھ پھیرے گذر جاؤ گے
سال بھر پھر نہیں دیکھو گے یہ صورت پیارے

مولانا ابو سلمہ شفیع احمد صاحب امام عیدین کے نام سے بہت مشہور ہوئے

مولانا ابو سلمہ شفیع احمد صاحب شہر نشاط کلکتہ جو اب کولکاتا ہو چکا ہے۔ امام عیدین کے نام سے بہت مشہور ہوئے۔اس ضمن میں یہ بتاتی چلوں کہ عرصۂ دراز سے کولکاتا کے دھرمتلہ میدان ریڈ روڈ میں عید الفطر اور عیدالاضحی کی سب سے بڑی جماعت ہوا کرتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ نمازِ عید الفطر اور عید الاضحی ادا کرتے ہیں۔ اور پھر مسجد ناخدا زکریا اسٹریٹ میں بھی بڑی جماعت ہوتی ہے۔ لیکن مسجد ناخدا میں سب سے پہلے یعنی ٹھیک ساڑھے 6 بجے نماز عید الفطر کا اہتمام ہوتا ہے۔

وہ زمانہ ڈیجیٹل ورلڈ نہیں تھا

ریڈ روڈ میں ساڑھے نو بجے جماعت ہوتی ہے۔ اس لیے صرف کولکاتا ہی نہیں بلکہ مضافات سے بھی لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اور بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب میں بہت چھوٹی تھی تو اکثر ہمارے والد صاحب بھائیوں کو لیکر ریڈ روڈ نمازِ عید الفطر ادا کرنے جاتے۔ اور والدہ صاحبہ کو چاند رات کو ہی پیشگی اطلاع دے دی جاتی کہ صبح بچے تیار رہیں۔ اور ریڈ روڈ میں نماز پڑھنے ہے جہاں امامت دراصل امام عیدین ابو سلمہ شفیع احمد صاحب کریں گے۔ وہ زمانہ ڈیجیٹل ورلڈ نہیں تھا اور ’’رویت ہلال کمیٹی‘‘ کی جانب سے ہلال عید کی گواہی پیش کی جاتی جس میں اکثر سنا تھا کہ رویت ہلال کی گواہی مل چکی ہے اور یہ گواہی جید عالم دین ابو سلمہ شفیع احمد صاحب نے دی ہے۔

مولانا 1962 ء سے 1985 ء تک یعنی 23 سالوں تک عید کی نماز ریڈ روڈ میں پڑھائی

مولانا 1962 ء سے 1985 ء تک یعنی 23 سالوں تک عید کی نماز ریڈ روڈ میں پڑھائی ہے۔ یہ ہم اہل کولکاتا کے لیے بڑے فخر کی بات ہے اور آج بھی بڑے بزرگ انہیں ’امام عیدین ابو سلمہ شفیع احمد‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ کولوٹولہ مسجد میں تبلیغی جماعت کا اہتمام ہوتا اور بعد نماز مغرب بیان ہوا کرتا۔

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب کو قرآن پاک اور کلام الٰہی سے گہرا شغف تھا

مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب کو قرآن پاک اور کلام الٰہی سے گہرا شغف تھا۔ اور درسِ قرآن اور درسِ حدیث کے لیے اپنے شہر کولکاتا کے مختلف مساجد میں یہ سلسلہ شروع کیا۔ جس سے الحمد ﷲ کافی لوگ فیضیاب ہوئے۔ مولانا کے مزاج میں عاجزی، انکساری تھی۔ سب سے پہلے 1966 ء میں حج بیت اﷲ کو تشریف لے گئے اور ماشاء اﷲ چار حج کیے۔ آخری حج 1985 ء میں کیے۔ اس کے بعد مقدس شہر مکہ معظمہ جانے سے قبل یرقان کا حملہ ہوا۔ اور بعد میں مناسک حج ادا کرنے کے بعد وطن عزیز ہندستان پہنچے۔ اسپتال میں داخل ہوئے لیکن مرض نے شدت اختیار کرلی اور مولانا جانبر نہ ہو سکے۔ آخر کار 22 ؍ دسمبر 1985ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور شہر کولکاتا کا یہ مشعل ِ دین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل ہوگیا۔ لیکن مولانا کی تصنیفات و تالیفات آج بھی امت مسلمہ کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہیں۔ اور بلا شبہ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد صاحب کا نام شہر کولکاتا کے جید علماء دین میں سر فہرست ہے۔ اور آپ زر ِ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

23؍ دسمبر 1985 ء کی صبح حکیم محمد زماں حسینی صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور 12-30 بجے لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں چشم پر نم کولکاتا کے مشہور قبرستان ’’گورِ غریباں‘‘ میں تدفین عمل میں آئی۔

ان کے جنازے میں لوگوں کا سیلاب امنڈ پڑا۔ سبھوں نے اشکبار آنکھوں سے اس عظیم اور جید عالم دین کو الوداع کہا۔ ان کی شخصیت بہت عظیم تھے۔ ان کی فردیت میں دو نسلوں نے روشنی پائی۔ ملت کا یہ ’در نایاب‘ جو سر زمین بہار کے ضلع نالندہ سے شہر کولکاتا پہنچا۔ اسے اہل کولکاتا ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ملے کے اس انمول گوہر کا نام شہر کولکاتا کی تاریخ میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ مولانا ابو سلمہ شفیع صاحب کے بارے میں اور ان کی دینی امور کے حوالے سے لکھا جائے تو صفحات کم پڑ جائیں گے اور مجھ جیسے گنہگار سے ممکن بھی ہیں۔ بس بارگاہ ِ ایزدی میں دعا کرتی ہوں خدا ئے پاک رب العزتے اس عظیم رہبر اور عالم دین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

Maulana Abu Salma Shafi (R.A) was a great islamic scholar from Kolkata

In short we can say Maulana Abu Salma Shafi (R.A) was a great islamic scholar from Kolkata who taught at Kolkata's esteemed institution Madarsah Aliah as Shaikhul Hadith and also addressed and led the prayers at the Red Road of Kolkata, the biggest Eid congregration of Muslims in India. Maulana Abu Salma was born in Bihar Sharif (Bihar) in December 1912. Eminent Islamic scholars and teachers who influenced Maulana Abu Salma were Maulana Allama Anwar Shah Kashmiri, Maulana Shabbir Ahmed Usmani, Maulana Mufti Ateequr Rahman Usmani etc. ISO (Institute of Objective Studies) Kolkata chapter organised syposium on 'Remebering the 20th century Islmaic scholars of West Bengal'. IOS Kolkata chapter had decided to conduct a series of symposium on the lives, contributions and services to humanity of leading Islamic scholars of West Bengal in the 20th century. The first step of this series was taken on 12, December, 2000 in its lecture room by organising a symposium on 'Life and Contributions of Maulana Abu Salma Shafi Ahmed (r.a)". The chairman IOS Dr. Mohammad Manzoor Alam said that knowing the contributions of previous Islamic scholars and their services to the mankind is obligatory for the new generations.

Muzaffar nazneen

According to Maulana Talha bin Abu Salma, son of Abu Salma Shafi Ahmed (R.A), Maulana Abu Salma Shafi Ahmed held a great post in Madrasah Alia but his humility and lack of pride inspired many during his life and after his death. His educational services were for every Indian. That is why great scholars and eminent personalities of major institutions came to pay their condolences on his demise.
The famous couplet of famous urdu poet Dr. Sir Allama Iqbal comes true to such a great islamic scholar.

Hazaron Sal nargis apni benuri pe roti hai
Badi muskil se hota hai chaman me didawar paida

Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے