ناول چاند گرہن کا خلاصہ Novel Chand Grahan Ka Khulasa In Urdu
چاند گرہن ویسے تو ایک قدرتی مناظر فطرت ہے لیکن اس عنوان سے دنیا کے تمام زبانوں اور خاص طور سے ہندستانی ادب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔آج ہم چاند گرہن ناول کے بارے میں معلوات حاصل کرنے جا رہے ہیں۔
ناول چاند گرہن کے مصنف مشہورِ زمانہ ناول و افسانہ نگار انتظار حسین ہیں۔ اردو افسانہ نگاری کی دنیا میں انتظار حسین کا نام کافی عرصہ سے مشہور ہے۔ یہ اپنے خاص اسلوب اور بدلتے لہجوں کی وجہ سے اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں پر پوری طرح سے غالب تھے۔
انتظار حسین کی افسانہ نگاری کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا بندی اور اس کی کردار نگاری اور دلکش اسلوب سے انقلاب پیدا کیا اور اس طرح سے اس کا عصری تقاضوں کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی۔
انتظار حسین کے افسانے اور ناولوں کو پڑھنے کے بعد ہمارے دلوں میں حیرت کا ایک ذبردست طوفان سا اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ہمارے پاؤں جلدی سے اکھڑ نے لگتے ہیں۔ ان کی ایجادکردہ انداز حقیقت سے بعید معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح کا انداز ِ بیاں یورپ میں داخل تھا۔
ناول چاند گرہن کا خلاصہ
چاند گرہن ناول میں اِنتظار حسین نے آزادی کے دوران پیش آنے والے مشکلات کو کہانی کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس ناول میں اِنتظار حسین نے بتایا ہے کہ کس طرح سے اس وقت میں لوگوں کو اپنی جان و مال کے لالے پڑ گئےتھے۔ چاند گرہن میں انتظار حسین نے آزادی کے دوران لوگوں کی پریشانیوں کی تصویر اپنے ناول کے جاندار کرداروں کی مدد سے بخوبی پیش کی ہے۔
بوجی کا کردار
بوجی پرانے عقیدوں کی پیروی کرنے والی سخت ایک خاتون تھیں۔ ان کے دل میں میں جیسے ہی کوئی بھی بہم وگمان یا ذرا سا شک آتا وہ فوراً منتیں ماننے لگتی تھیں۔ درباروں کی حاضریاں اکثر ہی دی جاتیں۔ بوجی کو اپنے شوہر، بچے اور ساتھ میں اپنے نصیب سے بڑے ہی گلے شکوے تھے۔ بوجی اکثر ہی کہا کرتی تھی کہ ان کے ابا اللہ والے تھے نہیں تو دلی کے بادشاہ ان سے بہت خوش رہتےتھے اور ان کو انعام کے طور پر ایک خاص پروانہ بھی بھیجا گیا تھا لیکن ابا جی سے وہ پروانہ کہیں کھو گیا۔ بوجی کو ایسا لگتا تھا کہ ضرور اس میں کسی بڑے ریاست کا اختیار ابا جی کو ملا تھا۔ اگر ابا جی اُسے سنبھال کر رکھے ہوئے ہوتے تو وہ آج ضرور کسی ریاست کی رانی رہتی لیکن کیا کیجئے؟ اور میرے ابا تو ابا ان کے میاں بھی بلکل ہی سدھاسادہ سادھو نکلے۔ جس طرح ان کے ابا سے دلی کے مُغل بادشاہ خوش تھے اس سے کہیں زیادہ انگریز سرکار ان کے میاں سے خوش تھے لیکن پھر بھی وہ اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے کیونکہ انگریزوں نے انہیں صرف انعام اور خطاب دے کر ٹرخا دیا تھا۔
ابا اور ان کے میاں جی کی زندگی کے بعد ان کا کمایا ہوا جو کچھ بھی باقی ہے ان کی بیوہ بوجی اور یتیم بیٹے کی پرورش میں کام آ رہاہے۔ بوجی اپنے بیٹے سبطین سے بڑی امیدیں لگا رکھتی ہیں۔ لیکن قسمت یہاں بھی دغا دے گئی اور بیٹا بھی کسی کام کا نہ نکلا۔ باپ نے کچھ نہ کیا تو چلو خطاب لے کر ہی عزت تو کمائی لیکن سبطین وہ عزت بھی گوانے کو تیار رہتا تھا۔ بوجی کہتی تھیں کسی کا ایک بگڑتا ہوگا ! دو بگڑتے ہوں گے ! مگر ہمارا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے! ہم کہاں تک درست کریں۔
سبطین اور فیاض کی دوستی
بوجی کا کہنا تھا کہ سبطین کو بگاڑنے میں سارا ہاتھ فیاض خان کا ہی ہے اور فیاض خان کے گھر والے فیاض کے لیےسبطین کو ذمہ دار مانتے تھے۔سبطین اور فیاض میں گہری دوستی تھی۔ سبطین جب کالج میں گیا تو اس کی فیاض خان سے مدبھیڑ ہوئی اور دونوں کی اچھی دوستی جمنے لگی۔ دونوں پر ایک دوسرے کا خوب رنگ چڑھ گیا اور دونوں ہی ہردم ساتھ میں رہنے لگے اور سیر تفریح میں ساتھ ساتھ ہوتے۔
سبطین اور فیاض کی دوستی کی گاڑی تیز رفتار سے بھاگ رہی تھی دونوں ہی دوست بالکل جنونی تھے، جس کام کو ایک بار ٹھان لیتے پورا کرکے ہی دم لیتے تھے۔ آوارہ گردی کرنے پر آتے تو مہینوں مہینوں سیر اور تفریہوں میں گزار دیا کرتے۔ اچھی سے اچھی اور شرمناک سے شرمناک ہر جگہ پر پہنچ جاتے کوئی بھی کونا نہ چھوڑتے اور پڑھنے پر آتے تو ہفتوں ہفتوں کمرے بند کیے آدھی آدھی راتوں تک پڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔
عملی زندگی کی شروعات
دونوں ہی نے اپنی اپنی عملی زندگی کی شروعات بڑھی ہوئی حجامت سے کی جسے دیکھ کر لوگ سو سو باتیں کیا کرتے۔ جب اس بات کی خبر تک پہنچی تو گھر والوں نے اپنا سر حیرت سے پیٹ لیا۔بوجی تو اس دن اور زیادہ پریشان تھی کہ جب اس نے اپنے لونڈے کو پہلی بار کالج بھیجا تھا۔ اول تو انہوں نے چھپانے کی بڑی کوشش کی لیکن بڑے بال دور سے ہی نظر آجاتے تھے۔ اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ سبطین اور اس کا دوست مذہب سے پھر گئے ہیں۔ دونوں پہلے دہریہ کہلائے گئے پھر فلسفی کے نام سے مشہور ہوئے، پھر شاعر کہے گئے، پھر شرابی کہلائے، پھر رنڈی بازی کا خطاب ملا اور بلاآخر قومی لیڈر پر ان کی تان ٹوٹی۔ انہوں نے حیات و کائنات کے مسلوں پر غور کرنا شروع کیا۔ یہ میدان ایسا پر پیچ ہے کہ یہاں سے آدمی ذرا بھی چوک جائے تو شاعری کی سرحد پر جا پہنچے۔ دونوں ہی اپنی چوک سے مطمئن تھے لیکن اچانک شاعری چھوڑ چھاڑ کر نثر پر آ گئے۔ انہیں خیال آیا اہلِ قلم بننا کون سا بڑا کمال ہے۔ جوگی، مستانہ، اور مست شباب جیسے رسالوں کے افسانہ نگار بھی اہلِ قلم ہی تو کہلائے جاتے ہیں۔
قلم کو قلمبند میں در کر تماشہ بینی کو نکل پڑے
اور قلم کو قلمبند میں در کر تماشہ بینی کو نکل پڑے۔ ہر کوٹھے پر پہنچے، ہر مجرے میں شریک ہوئے، جلد ہی اس سے اکتا گئے کہ باوا آدم کے زمانے سے لوگ ایک ہی طرح کی پٹی پٹائی چیز رپیٹ کر رہے ہیں اور پھر کبھی بازار کا رخ نہ کیا۔
قوم کی اصلاح کا بھوت
پھر یکایک ان پر قوم کی اصلاح کا بھوت سوار ہوا اور یہی وہ موڑ تھا جہاں ان کے راستے جدا ہوئے، ورنہ اب تک قدم سے قدم ملائے چلے آرہے تھے۔سبطین خرد کی گتھیاں سلجھانے لگا، جبکہ فیاض نے ایک مجذوب کی حیثیت اختیار کر لی۔
سبطین پہلے ڈاکٹر ہوا اور ڈاکٹر سے پروفیسر بنا
سبطین پہلے ڈاکٹر ہوا اور ڈاکٹر سے پروفیسر بنا۔ وہاں کے قابل اور بن ٹھن کر آنے والے پروفیسر اس پر نکتہ چینیاں کرتے مگر سبطین جیسے سادے اور بکھرے حال کے شخض کی قابلیت سے متاثر ہوکر ان کو اپنا ہیرو ماننے لگے اور سبطین نے بھی قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور ایک انگریری اخبار بھی نکالا مگر وہ چل نہ سکا اور جلد بند ہوگیا۔
فیاض نے آئی سی ایس کا امتحان پاس کرلیا
دوسری طرف فیاض نے آئی سی ایس کا امتحان پاس کرلیا، اس کا خیال تھا کے کلیکڑری کر کے لوگوں میں بیداری پیدا کرے گا۔ ان کو بنگالی مسلمانوں سے بڑی امیدیں تھی مگر بے سود، پتہ چلا کہ بنگالی مسلمان تو مولانا محمد علی کے ساتھ رخصت ہوگئے تھے۔ فیاض نے اپنا تبادلہ کلکتہ سے جنوبی ہند کروالیا۔ مگر وہاں بھی کام نہ بن سکا الٹا ان کی کلیکٹری کی جان پر بن آئی اور انہوں نے استغفہ دے دیا اور لاہور جا پہنچے۔
فیاض خان کے سر میں ایک سودا سمایا ہوا تھا جس کی خاطر وہ بستی بستی گھوما اور شہر شہر کی خاک چھانی۔ کلکتہ، کلکتہ سے جنوبی ہند، جنوبی ہند سے پنجاب، پنجاب سے لاہور، لاہور سےعلی گڑھ، علی گڑھ سے دلی، فیاض خان تو سچ میں اپنے زمانے کا سر سید احمد بننے پر تلا ہوا تھا۔
سبطین کی ذات سے اور کسی کو فائدہ ہوا یا نہیں مگر رفیا نے اپنی سیاسی بصرت کے لیے سبطین کی علمیت اور سوجھ بوجھ کا بڑا فائدہ لیا۔
کالے خان کا کردار
علن کی دوکان پر اپنے ہر بیان میں کہتا "اپنے سپو میاں کہہ رہے تھے” وہی سب کے اعتراض رفع ہوجاتے، سبطین کی عملیت کے قائل تو سبھی تھے۔ علن اور رفیا کی بحث میں اکثر کالے خان بھی شامل ہوتا کالے خان کون تھا کوئی نہیں جانتا تھا اس کا آگے پیچھے کا کسی کو معلوم نہ تھا، مگر وہ محلوں کی زندگی کے لیے ضروری تھا۔ کالے خان کو پٹھان بننے میں کسی دقعت کا سامنا نہ ہوا۔ کالے خان اپنے رنگ کی وجہ سے پہلے کلو بنا پھر کلوا اور پھر کالے کہلانے لگا۔ کالے خان فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ایک محاذ پر لڑکر آیا تو اس کے ساتھ دو انعام تھے، موچھیں اور پٹھانی۔ اس نے بڑی کوشش کی پٹھانی زبان بولنے کی مگر کوشش بے سود ہی رہی۔ کالے خان کو شہرت علن کی دکان سے ہی ملی تھی۔
حالات دن بدن بدتر ہورہے تھے۔ علن کہتا لڑائیاں ہوں گی یہاں مگر کالے اور رفیا نہ مانتے اس کی۔ ادھر بوجی عجیب و غریب خواب دیکھتی اور مزار پر دیا جلا دیتی، سبطین کے سمجھانے کا اس کو اثر نہ ہوتا۔ فیاض خان ڈائری میں اپنے دن کے احوال لکھتا۔
فیاض خان کہتا ہے کہ دلی اور علی گڑھ کے نوجوانوں میں صرف اردو بولنے کا فرق ہے۔ دلی شہر کے لوگ تعریف کرتے ہیں مگر اسے وہاں وحشت ہوتی ہے، اسے دلی کے کتوں کا رونا بڑا درد ناک لگتا تھا۔ فیاض خان نے جہاں جہاں وقت گزارا وہاں کا احوال لکھتا گیا۔
ادھر پرانے خیالات کی ماری بوجی ڈری سہمی گھر پر بیاں کی تقریب رکھتی ہیں جہاں تقریباً سبھی اپنے درد ہی روئے جاتے ہیں۔ نمبردار نے کملہ پڑھنے اور سیکھانے کی تحریک سبطین کی مخالفت کے باوجود زور و شور سے جاری رکھی۔
فساد شروع ہوئے اور آگ کی طرح پھلتے چلے گئے اور ہر طرف خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی۔ ہر طرف شور شرابہ، گولیوں کی بوچھاڑ اور آگ برساتے منظر نظر آتے۔ کچھ لوگ پرانے قعلے میں پناہ گزین تھے، وہاں گاڑی آتی اور آدمی بھر کر اسٹیشن لے جاتی اور اسٹیشن سے لوگ پاکستان آتے۔ گاڑیوں پر اکثر حملوں کی خبریں بھی ملتی رہتی تھیں۔ یہ سب گاڑی میں سوار ہوئے فیاض خان، سبطین بوجی، علن، رفیا، کالے خان، حق صاحب، نمبردار، نوابن، پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ راہ میں انھوں نے بڑی خولناکی دیکھی۔ خون خرابہ، اجاڑ کھیت، ہڈیاں، بکھرے ڈھانچے اور مزید تباہیاں، بلآخر طویل سفر کے بعد وہ لوگ پاکستان آ ہی گئے۔
پاکستان آکر بھی ہر چند مسائل نے ان کا دامن گھیرے رکھا۔ سبطین نئی نئی سکیمیں بتاتا اور اس کے ساتھ لوگ شامل رہتے۔ علن اور رفیا نے کچھ سیخیں لی اور ایک پتھر کو ٹھکانا کیے اپنا کام شروع کر دیا۔ وہ لوگ کباب لگانے لگے، مگر وہ دوکان والی رونق یہاں کہاں آتی، تبھی خبر آئی کہ ہندوں نے کالے خان کو مار دیا ہے جو کشمیر گیا تھا۔
کالے خان کی موت کا فیاض خان نے بڑا اثر لیا اور بے دل سا ہو گیا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کالے خان جیسا معمولی شخص یوں موت پر پھٹ پڑے گا۔ چاند کو گرہن لگ چکا تھا، فیاض خان کو لگتا اس کا جسم پتھر کا ہوچلا ہے۔ وہ گہنا رہا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی روح بھی گہنا رہی ہے۔
0 تبصرے