Ticker

6/recent/ticker-posts

یوپی کے مسلمان اپنے حق رائے دہی کا استعمال سمجھداری کے ساتھ کریں

یوپی کے مسلمان اپنے حق رائے دہی کا استعمال سمجھداری کے ساتھ کریں

حافظ حامد الغازی
صدر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
کل ۱۰/ فروری کو مغربی اترپردیش کے گیارہ اضلاع کے اٹھاون نشستوں پر پہلے مرحلہ کا انتخاب ہونے جارہا ہے، یہ الیکشن سات مرحلے میں ہونے جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اترپردیش کا یہ صوبائی الیکشن پچھلے تمام الیکشن سے ہٹ کر انتہائی حساس اور نتیجہ خیز ثابت ہونے والا ہے، اس لیے وہاں کے مسلمانوں کا ملی فریضہ ہے کہ وہ شعور اور سمجھداری کے ساتھ اس کا استعمال کریں، اپنے دشمنوں کا آلہ کار نہ بنیں اور نہ ہی جذبات کی رو میں بہ کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں، جو خود ان کے لیے نقصان دہ ہو، جمہوری نظام میں ووٹ ایک اہم طاقت اور موثر ہتھیار ہے، اس کے ذریعہ ظالم حکومت، ظالم حکمراں اور اس کی پالیسیوں کو بدلا جاسکتا ہے، اسے برخاست کیا جاسکتا ہے، اسے دوبارہ اقتدار تک پہنچے سے روکا جاسکتا ہے، اس لیے مسلمان پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں، جو سیکولر ہو اور جس کے اندر فرقہ پرستی کا زہر نہ ہو یا زعفرانی فرقہ پرست پارٹی کے مقابلہ میں اس کی زہرناکی کم ہو، نیز اپنے صفوں کو شکستہ ہونے سے بچائیں یہ وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا ہے۔

اس لیے آپ سب کی پہلی ذمہ داری ہے کہ ووٹ ڈالنے میں سستی اور غفلت سے کام نہیں لیجئے گا، بلکہ اپنے ووٹ کا ضرور استعمال کیجئے گا۔ اس میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے اس کا ضرور خیال رکھئے گا۔

آپ کسی طرح کے پروپیگنڈے اور افواہ کا شکار نہ ہوئیے اور نہ کسی کی شعلہ بیانی اور لفاظی سے متاثر ہوئیے۔ کیونکہ الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے کے لیے دور رس اور بظاہر دلفریب سازشیں کی جاتی ہیں اور مضبوط مسلمان امیدوار کے مقابلے میں جان بوجھ کر دوسری پارٹیاں مسلمان کو ہی ٹکٹ دیتی ہیں، ایسے موقع پر بہت سوچ سمجھ کر آپ فیصلہ کریں گے،۔ جہاں جہاں گٹبندھن کا امیدوار مضبوط ہو وہاں اسی کو ووٹ دیجئے، اگر کسی حلقہ میں کانگریس کا امید وار مضبوط ہو اور وہاں اس کی جیت کا امکان زیادہ ہو تو اسے جتائیے، بہن جی کی پارٹی بسپا کی اس بارکہیں کوئی لہر نہیں ہے، اس لیے اس کے بارے میں سوچئیے ہی نہیں، چاہے اس کا کنڈیڈٹ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اس بار میدان سے باہر ہے، اس کا کیڈر ووٹ بھی بھاجپا کو مل جائے گا، اس کا اندیشہ بھی ہے۔ اگر کسی جگہ مسلم پارٹی کا کنڈیڈٹ یقینی طور پر جیت رہا ہو اور اس کا چانس ہو تو وہاں اس کو ووٹ کریں، خواہ وہ مجلس کا امیدوار ہو پیس پارٹی کا ہو یا دیگر کوئی مسلم پارٹی کا۔


ہم جس ملک میں رہ رہے یہ ایک عظیم بلکہ دنیا کا سب بڑا جمہوری ملک ہے، اگر چہ ایک طاقت یہاں ایسی ہے جو جمہوریت کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ہندو راشٹر قائم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، اتفاق یہ ہے کہ آج اس فکر کے لوگ اقتدار پر قابض ہیں، جو اس الیکشن کو بھی مذہبی رنگ میں رنگ کر جیتنا چاہتے ہیں اور دوبارہ اقتدار یوپی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس ملک کی خمیر میں تنوع رنگا رنگی ہے، یہ ملک مختلف تہذیبوں کا گلدستہ ہے، جمہوریت اس کی شان اور پہچان ہے، یہاں کی اکثریت اس رنگ اور آہنگ کے ساتھ اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اس کا اثر ہے کہ یہاں وہ طاقتیں جو ہندوستان کی جمہوریت کو ختم کرنا چاہتی ہیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ہندستانی لوگ اس وقت ہندوستان میں جمہوری تصورات کے غلبہ کے ساتھ ہیں، جس میں رائے عامہ کو بہت زیادہ اہمیت ہے جس میں پر امن طریقہ پر انقلاب لانا ممکن ہے، جس میں اکثریت کی رائے کا خاص وزن ہوتا ہے۔

بہر حال ہم اترپردیش کے تمام جمہوریت نواز ووٹروں اور سیکولر رائے دہندگان سے اپیل کرتے ہیں کہ موجودہ الیکشن میں پوری بیدار مغزی کا ثبوت دیں اور اپنے حق رائے دہی کا اس طرح استعمال کریں کہ زعفرانی طاقت اور پرقہ پرست عناصر کو منھ کی کھانی پڑے اور سیکولر پارٹیوں کی جیت ہو۔ ملک میں امن و امان سلامتی اور شانتی ہو اور ہر ایک اپنے مذہبی لسانی اور تہذیبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارے اور ملک کو ترقی کی راہ کی طرف لے جائے۔ امید کہ یہ باتیں سنی جائیں گی اور ان پر عمل کیا جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے