Ticker

6/recent/ticker-posts

حمد باری تعالیٰ 108 اشعار پر مشتمل : شیخ نظام الدین عرف نظامی گنجوی رحمہ اللہ علیہ - منظوم ترجمہ سکندر نامہ

حمد باری تعالیٰ 108 اشعار پر مشتمل : شیخ نظام الدین عرف نظامی گنجوی رحمہ اللہ علیہ - منظوم ترجمہ سکندر نامہ

حمد باری تعالیٰ

حمدِ باری تعالیٰ 108 اشعار پر مشتمل : شیخ نظام الدین عرف نظامی گنجوی رحمہ اللہ علیہ - منظوم ترجمہ سکندر نامہ
حمدِ باری تعالیٰ
108 اشعار پر مشتمل
(منظوم ترجمہ سکندر نامہ)
از شیخ نظام الدین عرف نظامی گنجوی رحمہ اللہ علیہ
۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر انصاری
جَہاں میں ہے سَب پادشائی تِری
کہ ہَم تیرے بَندے، خدائی تِری

بَلندی و پَستی کی تُو ہے پَناہ
تُو ہی تُو ہے، سَب نیست برگ و گِیاہ

ہے جو کُچھ بھی مَوجُود بَالا و پَست
تُو ہی آفرینندہ ہے، جو ہے ہَست

تُو ہی بَرتَرِیں عَقل دیتا ہے پَاک
لکھا جِس نے دَانش سے بَر لوحِ خَاک

خدائی پہ حُجت ہوئی جب دُرُست
گواہی خِرد نے ہی دی تھی نُخُست

خِرد کو یہ بینائی تُو نے ہی دی
ہِدایت کی پِھر شَمع روشن ہے کی

فَلک کو کِیا تُو نے اَفراختہ
زَمِیں کو کِیا اُس کا اک رَاستہ

کِیا تُو نے پَیدا ”ز یَک قَطرہ آب“
وُہ موتی کہ رَوشن ہُوا آفتاب

وُہ موتی، کہ ہَم پہ ہے لُطف آوری
کَلِید اُس کی دِی دَر یَدِ جَوہَری

جَواہر سے بخشا دلِ سَنگ کو
نُمایاں کِیا لَعل پہ رَنگ کو

ہَوا، بِن ترے حُکم کے کب لجائے
زَمیں، بِن ترے حُکم کے کب اگائے

جَہاں کو کِیا تُو نے آراستہ
نہ یَاور کوئی تیرا، نَے خَواستہ

یہ گرمی و سَردی و از خُشک و تَر
بَاَندازہ پَیدا کِیا یَک دِگر

بنائے ہیں تُو نے جو نَقش و نِگار
خِرد اس سے بِہتر کرے کیا شُمار

نُجُومی نے ڈھونڈا، کہ کیا راز ہے
کِیا تُو نے کِس طَرح آغاز ہے

سِوا ہَم سے کیا ہو ” نَظَر کَردَنِی“
ہے اک خُفتنی، دُوسرا خُوردَنِی

زَباں کو کریں تَازہ اِقرار سے
اٹھائیں سَبب کیا ترے کار سے

گزر جائیں اس سے، تو ہے گُمرَہی
ترے راز پانا ہے بے آگہی

تُو ہے آفرینندہ، آثار سَاز
نہیں تُجھ کو پَروا، تُو ہے بے نِیاز

کئے ایسے پَیدا زَمین و زَماں
ہوئے نَجم گردِش میں اور آسماں

ہُوا چاہے اندیشہ کتنا بَلند
سَر اپنا نہ باہَر ہُوا، از کمند

نہ تھا کُچھ، تو پِھر بھی تھا ربِ نِظام
نہ کُچھ ہو گا، پھر بھی رہے گا مُدام

نہ تھا کُچھ، تُو جَب تَنہا تھا اے خُدا
ہوئی پَیدا مَخلوق، پھر کیا ہُوا !

نہ تکلیف اور کچھ نہ زَحمت ہوئی
سَراپا تری ہم پہ رَحمت ہوئی

ترے آگے تیری ہی تعظیم سے
یہ ہونا نہ ہونا، برابر ہوٸے

بنایا کواکب کو افلاک پر
ہوئی خاک، آراستہ خاک پر

منظم ہوٸے تجھ سے سب آخشیج
جواہر کو باندھا گیا در مزیج

حصارِ فلک کو کِیا یوں بَلند
خیالوں کو اس میں کیا لا کےبَند

بنایا ہے کیا طاقِ نیلو فری
ہے اندیشے کو اس سے کب برتری

خرد تجھکو ڈھونڈے، نہ پاٸے سراغ
ہے تابندگی میں بھی ظلمت کا داغ

تری ذات گویا کہ ہے تنگبار
کرے پَیکِ ادراک کو سَنگسار

نہ پَرگندگی ہے کہ یَکجا ہو تُو
نہ افزودگی ہے کہ تھوڑا ہو تُو

تری رہ سے خالی، خیالِ نظر
ہے درگاہ، دور از طوافِ بشر

کیا جس کو تو نے یہاں سَربَلند
نہ آیا کبھی بھی وہ زیرِ کمند

ترے قَہر سے جو ہوا سَر فگن
نہ اٹھ پایا پھر وہ سرِ انجمن

یہاں سَب ہیں کمزور و فَرماں پَذیر
تُو ہی ایک یاور، تُو ہی دستگیر

وہ ہاتھی کا پاؤں ہو یا پَرِ مور
دِیا ہر کسی کو ضَعیفی و زور

ہُوا حُکم صَادر، ز تقدیرِ پاک
کیا مور سے مار کو پھر ہلاک

ہٹایا تھا جوں راہ سے دُود کو
تھا مروایا پِشے سے نَمرود کو

وہ فِیل، اور سَارے وہ اصحابِ فیل
اشارے پہ تیرے وہ وقتِ رحیل

انہیں مُضطرب اس طرح سے کیا
ابابیل سے ان کو مَروا دِیا

ہُوا گاہے نُطفہ سے اک نیک بخت
اگا ایک گٹھلی سے گاہے دَرَخت

کیا بتکدہ سے جو پیدا خَلیل
ہُوا غیر سے آشنا بے دلیل

کبھی ایسے گھر میں وہ موتی کی آب
ابو طالب ایسے کو دیوے عَذاب

ہے کس کو یہ طاقت، ترے خوف سے
زَباں کھولے، جُز تیرے تسلیم کے

نہیں تجھ میں شَاعر کو دخلِ مدام
خزانے کو مَشعَل سے ہے کوئی کام ؟

رقیبوں کو گویائی سے رکھا باز
بیاں کر سکے تا نہ سُلطاں کے راز

فَقط تو نے ہی در بُنِ تیرہ خاک
دیا ایک دل روشن اور جانِ پاک

گنہ سے ہوں آلودہ، اندیشہ کیا !
بجز گردِ رہ، خاک کا پیشہ کیا

گنہ سے جو منہ پھیرتا آدمی
خبر کون بخشش کی پاتا تری

گنہ میرے ہوتے اگر در شمار
تجھے کون پھر کہتا آمرزگار

وہ دن رات ہوں، شام، یا بامداد
فقط یاد ہے مجھکو تیری ہی یاد

ارادہ کروں جب بھی میں سوٸے خواب
ترا نام لیتا ہوں، یعنی شتاب

اٹھاتا ہوں گر نیم شب اپنا سر
پکاروں ہوں تجھ کو میں باچشمِ تر

اگر صبح میری ہے تجھ سے ہی راہ
تو دن، رات تک تجھ سے میری پناہ

مدد جو میں دن رات مانگوں بہ زار
بہ روزِ عدالت نہ کرنا تو خوار

امید ایسی رکھتا ہوں میں کارساز
کہ ہو جاٶں سب سے ہی میں بےنیاز

فقط ایک خواہاں تری راہ کا
پرستش کنندہ تجھ اللہ کا

اس عالم میں آباد اک گنج سے
وہاں یعنی آزاد ہوں رنج سے

ہے مخلوق و عالم کے مظہر کی بُو
تو ہی مارتا، زندہ رکھتا ہے تو

نہیں مجھ میں از خود کوئی آب و تاب
تجھی سے سے میرا، ہے جو کچھ حساب

بدی اور نیکی کی کنجی تو ہی
ہے تجھ سے یہ نیکی، تو مجھ سے بدی

تو ہے نیکی کن، کب بدی کا میں شور
بدی کا حوالہ کیا اپنی اور

ہے نقشِ نُخُستیں کی بھی سرگزشت
تجھی سے قیامت کی ہے بازگشت

ہے تجھ سے، اک آیت سکھانا مجھے
سبب اس کے شیطاں بھگانا مجھے

ترا نام جب جاں نوازی کرے
فریبی کہاں دست بازی کرے

سوا تیرے رکھا روا، خویشتن ؟
کہوں پہلے تو، پھر کہوں میں، کہ من

گر آسودہ، در ابتلا میں کہوں
کیا جیسا پیدا، میں ویسا جیوں

کچھ ایسی ہی رکھوں خدا سے امید
نہ ہو دید، اور کچھ نہ میری شنید

ہوں جب دور دنیا سے، مر جاؤں میں
جو ہے اصل گھر، اپنے گھر جاؤں میں

اگر جاؤں میں نظمِ ترکیب سے
دگر گوں نہ پھر مجھ کو ترتیب سے
پریشاں، ہَوا پھر کرے خاک کو
نہ دیکھے کوئی میری جاں پاک کو

کبھی خَد سے اور پھر کبھی خال سے
پژوہندہ سَربستہ سب حال سے

کرے پیدا آثار تو غیب سے
سب آگاہ ہوں غیبِ لاریب سے

یہاں سُست راٸے نے تجھ پر سدا
اٹھائی ہے حجت بہت دل کشا

تو ہی ہووے پوشیدہ کایا میں جو
خبر دے کہ جاں ہے، گئی خاک سو

یونہی عزم کو عقل کے مُستَعِد
تو اپنی طرف کر، کہ ہے یہ بَضِد

ہو دل خوش، یہ حاصل ہو مجھکو شَرَف
خوشی سے میں جب آؤں تیری طَرف

ہیں دروازے تک سب کے سب گلعذار
چلا جب، تو دشمن تھے سب دوستدار

یہ آنکھ اور یہ کان اور یہ ہاتھ اور یہ پاؤں
جدا ہوں گے ایک ایک، رہ جاٸے پاؤں

تو وہ ہے، سدا ہے جو میرے کنی
ترا در ہو، اور ہو تہی دامنی !

ہوں اس رہ میں ہر در پہ سر مارتا
بہ شوقِ کلہ، سر پہ سر مارتا

سخن یہ زباں پر جو آیا ہے آج
ہے بہتر کہ رکھ دے تو اس سر پہ تاج

وہ سر، جو نہ اس در سے ہووے دریغ
جو ہووے، تو پھر ہووے اس سر پہ تیغ

جو اک حکم جاری کیا در ازل
قلم بھی اسے کب سکے پھر بدل

مگر میں، بخواہش، کہ ہوں حکم کُش
انہی باتوں سے دل کو کرتا ہوں خوش

کہا تو نے، جو شخص در رنج و تاب
کرے گا دعا، ہو گی وہ مستجاب

کیوں اس دل میں تجھ کو اتاروں نہ پھر
دریں عاجزی کیوں پکاروں نہ پھر

یہ کہتا ہے اب آدمی اے خدا
مرا کام ہے بندگی اے خدا

خطاکار ہوں میں، ہوئی سرزنش
ترا کام بندے کی ہے پرورش

ہیں دو کام از فر و فرخندگی
خداوندی تجھ، ہم سے ہے بندگی

ہوا چور اور ریزہ ریزہ میں آہ
ہوا اپنے دل کے ہی ہاتھوں تباہ

پریشانی میں تو ہی دے گا رہائی
جو توڑے گا، دے گا تو ہی مومیاائی

اگر نیم شب میں مَیں مانگوں پناہ
فروزاں کرے فضل سے میری راہ

بچا مجھ کو از رخنہء رہزناں
نہ کر شاد مجھ پر دلِ دشمناں

عطا کر تو شکر اور اس وقت گنج
تو دے صبر پہلے، تو اس وقت رنج

وہی رنج، ہو جاؤں میں نا صبور
تو رکھ دور، بیداد سے یعنی دور

تو توڑے، یا رکھے مجھے رہ نورد
کفِ خاک چاہے، یا چاہے تو گرد

پریشانی میں خود سے باہر پڑوں
تری بندگی میں نہ ناخوش رہوں

جہاں بھی پڑوں، ہو تری ہی ثنا
جہاں بھی رہوں، تجھکو جانوں خدا

ہے سب نیستی پر ہی اقرارِ ہست
کِیا نیستی پر ہی ہَستی کا بَست

جو ہے نقش آثار پر، تو ہے وہ
جو قائم ہے اقرار پر، تو ہے وہ

حکیموں کی بےکار ہونا کلید
کہ زائد از اندازہ تھی تیری دید

کوئی، جو کہ تجھ سے نظارہ کرے
ورق ہائے بے ہودہ پارہ کرے

تجھے پانا ممکن نہیں، جز تری
عنایت کے صدقے ہی ہو یاوری

جو چاہے، تو تو دیکھ در ہر کسے
وگرنہ، عناں چاہٸیے پھیر لے

یہیں تک نظر ہے اے منزل شناس
گزر جائے اس سے، تو خوف و ہراس

تجھے سونپ دی اپنی کنجی تمام
تو جانے ہے حسبِ کم و بیشِ عام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دامن انصاری کلورکوٹ


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے