Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبد العزیز رضی عنہما خلفائے راشدین میں شامل ہیں؟

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبد العزیز رضی عنہما خلفائے راشدین میں شامل ہیں؟


اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلافصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت عمر، ان کے بعد حضرت عثمان غنی، اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں، بالترتیب یہ چاروں حضرات خلفائے راشدین ہیں جن کی خلافت کی پیشن گوئی قرآن کریم میں دی گئی ہے، اور سوال میں ذکر کردہ حدیث کہ میرے بعد خلافت 30/ سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت اور ملوکیت شروع ہوجائےگی۔

اس سے مراد خلافت راشدہ ہے جس کی مدت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جا کر ختم ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ مستند تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ خلفائے اربعہ کی خلافت کی مدت 29/ سال اور 6/ ماہ پر جاکر ختم ہوجاتی ہے ابھی چوں کہ 30/؛سال پورا ہونے میں تقریباً چھ ماہ باقی تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ٰ کی شہادت ہوگئی تھی۔ ان کی شہادت کے بعد اکثر مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ نے تقریبا 6/ ماہ خلافت کی جب خلافت کے 30/ سال مکمل ہوگئے تو انہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشن گوئی کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی تھی۔


اس اعتبار سے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ بھی خلافت راشدہ میں داخل ہوگا، اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلفائے راشدین میں شامل ہونگے، لہذا جو لوگ مذکورہ حدیث کے حوالے سے حضرت حسن کی خلافت کو خلا فت راشدہ میں داخل کرکے ان کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ان کی بات درست ہے، لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلفائے راشدین کی فہرست میں شامل نہ ہوں گے؛کیونکہ خلافت راشدہ کے لئے ہجرت کرنا شرط ہے جیسا کہ "ازالةالخلفاء عن خلافة الخلفاء، جلد:/1,ص:10/میں اس کی صراحت کی گئی ہے، چناں چہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:

"از جملہ لوازم خلافت خاصہ آنست کہ خلیفہ از مہاجرین اولین باشد" اور یہ شرط حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ٰ میں مفقود ہے، اس لیے ان کو خلفائے راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا، رہا مسئلہ حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلفائے راشدین میں شمار کرنے کا مسئلہ تو چوں کہ خلفائے راشدین میں شمار ہونے کے لیے صحابی ہونا ضروری ہے جیسا کہ آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد:1,ص:33/ پر اس کی صراحت کی گئی ہے اور یہ شرط حضرت عمر بن عبد العزیز کے اندر مفقود ہے، کیوں کہ وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں، اس لیے ان کو خلفائے راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا جہاں تک تعلق ہے اہل سنت و جماعت کے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو خلفائے راشدین میں شامل کرنے کا تو اگر چہ بعض اہل السنة والجماعت حضرات نے ان کو خلفائے راشدین میں شمار کیا ہے مگر اس معنی کر نہیں کہ کہ یہ بھی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں خلافت راشدہ کی پیشن گوئی دی گئی ہے، بلکہ وہ حضرات ان کو اس اعتبار سے خلیفہ راشد کہتے ہیں کہ یہ بذات خود عادل اور خیر خواہی کرنے والے اچھے خلیفہ تھے اور ان کی خلافت میں رشد پائی جاتی تھی، اور ان کی خلافت، خلافت راشدہ کے مشابہ تھی، اس اعتبار سے انہوں نے ان کو خلیفہ راشد کہا، ورنہ در حقیقت یہ خلفائے راشدین کے مصداق نہیں ہیں_


حدثنی سفینة قال:خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: "الخلافة فی امتی ثلاثون سنة ثم یکون ملک" ثم قال لی سفینة: امسک خلافة ابی بکر و خلافة عمر اثنتی عشرة سنة وستة اشہر، وخلافة عثمان اثنتی عشرة سنة، وخلافة علی رضی اللہ عنہ تکملة الثلاثین قلت:معاویة؟ قال:کان اول الملوک و تابعہ حماد بن سلمة عن سعید بن جمہان۔

(المدخل الی سنن الکبری للبیہقی:باب اقاویل الصحابة رضی اللہ عنہم، جلد: 1,ص:116) واخرجہ البیہقی فی المدخل عن سفینة ان اول الملوک معاویة رضی اللہ عنہ و المراد بخلافة النبوة ہی الخلافة الکاملة وہی منحصرة فی الخمسة فلا یعارض الحدیث لا یزال ہذا الدین قائما حتی یملک اثنی عشر خلیفة لان المراد بہ مطلق الخلافة واللہ اعلم(عون المعبود وحاشیة ابن القیم :باب فی الخلفاء، 602/21) الحسن بن علی آخر الخلفاء بنصہ(ازالة الخفاء،ص: 341, ہو آخر الخلفاء الراشدین بنص جدہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفة حق وامام عدل وصدق تحقیقا لما اخبر لہ جدہ الصادق المصدق یقولہ الخلافة الخ منصوصا علیہا وقام علیہ اجماع من ذکر فلا مریة من حقیقتہا اہ۔ (صواعق محرقہ، ص:18) لما قال العلامة ملا علی القاری رحمہ اللہ: وخلافة النبوة ثلاثون سنة _منہا خلافة الصدیق سنتان وثلاثة اشہر و خلافة عمر عشر سنین ونصف و خلافة عثمان اثنتا عشرة سنة وخلافة علی اربع سنین وتسعة اشہر وخلافة ابنہ ستة اشہر واول ملوک المسلمین معاویة وہو افضلہم لکنہ انما صار اماما حقا لما فوض الیہ الحسن بن علی الخلافة فان الحسن بایعہ اہل العراق بعد موت ابیہ ثم بعد ستة اشہر فوض الامر الی معاویة والقصة مشہورة وفی الکتب المبسوط مستورہ.
(شرح الفقہ الاکبر ص:98-96)

ان حقائق کے باوجود ان دونوں شخصیات کی عظمت و رفعت مسلم ہے اور ان کی شان میں معمولی سے معمولی بےادبی اور گستاخی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب ہے۔

اللہ ہم سب کو صحابہ اور تابعین سے محبت کرنے والا بنائے رکھے امین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے