Ticker

6/recent/ticker-posts

حجاب اور پردہ عقل و نقل اور تاریخ مذاہب کی روشنی میں

حجاب اور پردہ عقل و نقل اور تاریخ مذاہب کی روشنی میں

محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ہندوستان کی موجودہ ملکی حکومت مسلمانوں کو ہی نہیں، بلکہ خود برادران وطن اور ہندوستانی باشندوں کو غیر ضروری مسائل میں جان بوجھ کا الجھانا چاہتی ہے، اور الجھا رہی ہے، کہیں اس سے سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے تو کہیں اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیے یہ حرکت کررہی ہے نیز پس پردہ مستقبل میں ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جانے کی کوشش بھی ہے، تعلیم کا ستیاناس ہے، نوجوان بے راہ روی کے شکار ہیں، بے روزگاری عام ہے، اخلاقی اور معاشی پستی ہر طرف ہے، لیکن ملک کی اس بدحالی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے، ایسا لگتا ہے ملک بے چرواہے کا ریوڑ بنا ہواہے، افسوس کہ برادران وطن کے باشعور اور بدھی جیوی لوگ بھی خاموش ہیں۔ افسوس کے تین چار روز سے کرناٹک میں زعفرانی پارٹیوں نے جو ڈراما مچایا ہے انسانیت و شرافت کی دھجیاں اڑایا ہے اور مسلمان لڑکیوں کو حجاب کے نام پر جس طرح ان بچیوں کا استیصال کیا ہے، ان کی بے عزتی اور بے حرمتی کی ہے، نیز ان کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے، یہ بہت ہی افسوسناک مرحلہ ہے اور اس سے پتہ چل رہا ہے، کہ ملک کس طرح اخلاقی دیوالیہ پن کاشکار ہوچکا ہے، پردہ یا حجاب، صرف اسلام ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ تقریبا دنیا کے تمام مذاہب اور شریف خاندانوں میں پردہ کو پسند کیا ہے، اور اس کو ضروری قرار دیا ہے۔

پردہ اور حجاب کے تعلق سے مذاہب عالم کا مطالعہ

آئیے پردہ اور حجاب کے تعلق سے مذاہب عالم کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہندو بھائیوں کو یہ بتاتے ہیں کہ خود ان کا مذہب پردہ کے حوالہ سے کیا کہتا ہے۔۔

فحاشی، بدکاری، زنا اور اس کے مقدمات دنیا کی ان مہلک برائیوں میں سے ہے جن کے مہلک اثرات صرف اشخاص و افراد کونہیں بلکہ قبائل اور خاندانوں کو اور بعض اوقات بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں، اس وقت دنیا میں جتنے قتل و غارت گری کے واقعات پائے جاتے ہیں، اگر صحیح تحقیق کی جائے تو اکثر واقعات کے پس منظر میں کوئی عورت اور شہوانی جذبات کا جال نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے اس میں کوئی قوم، کوئی مذہب، کوئی خطہ ایسا نہیں جو اس کی برائی اور مہلک عیب ہونے پر متفق نہ ہو۔


عورتوں اور مردوں میں بے محابا اختلاط تو دنیا کی پوری تاریخ میں آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاءﷺ تک کسی زمانے میں درست نہیں سمجھا گیا، اور صرف اہل شرائع اور دیگر آسمانی مذاہب ہی نہیں، دنیا کے عام مہذب اور شریف خاندانوں میں ایسے اختلاط کو روا نہیں رکھا گیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر مدین کے وقت جن لڑکیوں کا اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے الگ روکے ہوئے کھڑے ہونے کا ذکر ہے، اس کی وجہ یہی بتلائی گئی ہے کہ ان عورتوں نے مردوں کے ہجوم میں گھسنا پسند نہیں کیا، سب کے بعد بچے ہوئے پانی پر قناعت کی، حضرت زینب بنت جحش کے نکاح کے وقت پہلی آیت پردہ نازل ہوئی اس کے نازل ہونے سے پہلے بھی جامع ترمذی کی روایت میں ان کی گھر 🏡 میں نشست کی یہ صورت بیان کی ہے وھی مولیة وجھہا الی الحائط۔ یعنی وہ اپنا رخ دیوار کی طرف پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں۔


اس سے معلوم ہوا کہ نزولِ حجاب سے پہلے بھی عورتوں مردوں میں بے محابا اختلاط اور بے تکلف ملاقات و گفتگو کا رواج شریف اور نیک لوگوں میں کہیں نہ تھا، قرآن پاک میں جاہلیت اولی اور اس میں عورتوں کے تبرج و ظہور عریانیت و فحاشی اور بے پردگی کا ذکر ہے، وہ بھی عرب کے شریف خاندانوں میں نہیں، بلکہ لونڈیوں اور آوارہ عورتوں میں تھا، عرب کے شریف خاندان اس کو معیوب سمجھتے تھے، عرب کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے، ہندوستان میں ہندو، بدھ مت، اور دوسرے مشرکانہ مذاہب والوں میں عورتوں مردوں کے درمیان بے محابا اختلاط گوارا نہ تھا، یہ مردوں کے دوش بدوش کام کرنے کے دعوے اور بازاروں اور سڑکوں پر پریڈ کرنے اور تعلیم سے لے کر ہر شعبہ زندگی میں مرد و زن کے بے تکلف اختلاط، ضیافتوں اور کلبوں میں بے تکلف ملاقاتوں کا سلسلہ صرف یورپین اقوام کی بے حیائی اور فحاشی کی پیداوار ہے، جس میں یہ اقوام بھی اپنے ماضی سے ہٹ جانے کے بعد مبتلا ہوئی ہیں، قدیم زمانے میں ان کی بھی یہ صورت نہ تھی، اللہ تعالی نے جس طرح عورت کی جسمانی تخلیق کو مردوں سے ممتاز رکھا ہے، اسی طرح ان کی طبیعتوں میں ایک فطری حیاء کا جوہر بھی رکھا ہے، جو ان کو فطری طور پر عام مردوں سے الگ تھلگ رہنے پر آمادہ کرتی ہے اور یہ فطری اور طبعی حیاء کا پردہ عورتوں، مردوں کے درمیان ابتداء آفرینش سے حائل رہا ہے، اسلام کے شروعاتی دور میں بھی باہمی پردہ کی یہی نوعیت تھی، پردئہ نسواں کی یہ خاص نوعیت کہ عورتوں کا اصل مقام گھر 🏡 کی چہار دیواری ہو اور حسب شرعی ضرورت سے باہر نکلنا ہو تو پورے بدن کو چھپا کر نکلیں یہ ہجرت مدینہ کے بعد سن ۵/ ہجری میں جاری ہوا ہے۔ جس کی تفصیل سورہ احزاب اور نور میں تفصیل سے موجود ہے۔


دنیا کے اس آخری دور میں یورپ و امریکہ اور تمام مغربی و یورپی ممالک نے اپنی مذہبی حدود اور قدیم و مضبوط روایات اور وراثت سب کو توڑ کر اگر چہ زنا اور فحش کاری و بدکاری کو اپنی ذات میں کوئی جرم ہی نہیں رکھا اور تمدن و معاشرت کو ایسے سانچوں میں ڈھال دیا ہے، جن میں قدم قدم پر جنسی انارکی اور فواحش کو دعوت عام ہے، مگر ان کے ثمرات و نتائج کو وہ بھی جرائم سے خارج نہ کرسکے، عصمت فروشی، زنا بالجبر، منظر عام پر فحش حرکات کو تعزیری جرم قرار دینا پڑا، جس کی مثال اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی شخص آگ لگانے کے لیے سوختہ کا ذخیرہ جمع کرے پھر اس پر تیل چھڑکے، پھر اس میں آگ لگائے اور جب اس کے شعلے بھڑکنے لگیں تو ان شعلوں پر پابندی لگانے اور روکنے کی فکر کرے، ہنڈیا پکانے کے لیے اس کے نیچے آگ جلائے پھر اس کے ابال اور جوش کو روکنا چاہے۔


اس کے خلاف اسلام نے جن چیزوں کو جرائم اور انسانیت کے لیے مضر قرار دیکر قابل سزا جرم کہا ہے، اس کے مقدمات پر بھی پابندیاں عائد کیں، اور ان کو ناجائز اور ممنوع قرار دیا ہے اس معاملے میں مقصود اصلی زنا اور بدکاری سے بچانا تھا تو اسکو نظر نیچی رکھنے کے قانون سے شروع کیا، عورتوں مردوں کے بے محابا اختلاط کو روکا، عورتوں کو گھروں 🏡🏠🏡 🏡 کی چار دیواری میں محدود رکھنے کی ہدایت کی اور ضرورت کے وقت باہر نکلنے کے لیے برقع یا لمبی چادر سے بدن چھپا کر نکلنے اور سڑک کے کنارے چلنے کی ہدایت کی، خوشبو لگا کر یا بجنے والا زیور پہن کر نکلنے کی ممانعت کی، پھر جو شخص ان سب حدود و قیود اور پابندیوں کے حصار اور دیوار کو پھاند کر باہر جائے اس پر ایسی سخت عبرت آموز سزا جاری کی کہ ایک مرتبہ کسی بدکار و بدکردار پر جاری کردی جائے تو پوری قوم کو اچھی طرح سبق مل جائے۔


اہل یورپ نے اور ان کے اندھے مقلدین نے اپنی فحاشی کے جواز میں عورتوں کے پردہ کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی اور معاشی حیثیت سے معاشرہ کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت کرنے اور بے پردہ رہنے کے فوائد پر بحثیں کی ہیں۔ ان کا مفصل جواب علماء کرام نے کتابوں 📚📕📔میں لکھ دیا ہے۔ بس اتنا کہنا اور سمجھ لینا کافی ہے کہ فائدہ اور نفع سے تو کوئی جرم و گناہ بھی خالی نہیں، چوری، ڈاکہ دھوکا فریب ایک اعتبار سے بڑا نفع بخش کاروبار ہے، مگر جب اس کے ثمرات و نتائج میں آنے والی مہلک مضرتیں سامنے آتی ہیں تو کوئی شخص ان کو نافع کاروبار کہنے کی جرات نہیں کرتا، بے پردگی میں اگر کچھ معاشی فائدے ہوں مگر جب پورے ملک و قوم کو ہزاروں فتنہ و فساد میں مبتلا کردے تو پھر اس کو نافع کہنا کسی دانشمند کا کام نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔( ماخوذ و مستفاد معارف القرآن تفسیر سورہ حجرات)

اب آیئے ذرا غور کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب نے بھی پردہ کوکتنی اہمیت دی ہے اور اس کو نسل انسانی کے لیے کتنا ضروری قرار دیا ہے۔۔۔

ہندو دھرم میں حجاب کا تصور

(ہندو مذاہب کی مقدس کتابوں کے حوالہ سے)
●ہرش چریتم میں لکھا ہے کہ جب سے شریف اورخاندانی عورتوں کے چہروں پرنقاب کی جالی نہ رہی ان کی شرم وحیاجاتی رہی۔
(ہرش اجھورس۔۲)

●آخری زمانہ میں عورتیں بگڑ جائیں گی۔ بے پردہ ہوکر دونوں ہاتھوں سے بالوں کو سنبھالیں گی۔ کسی کی پر واہ نہیں کریں گی۔
( بھر بھران اشوک صفحہ۳۹، ادھیائے ۲)

●سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے۔ وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی۔ جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں۔
(مہا بھارت، وشوپرب ادھیائے ۱۹)

ہندودھرم میں سیتا جی کا بڑا مقام

ہندودھرم میں سیتا جی کا بڑا مقام ہے۔بن باس(جلاوطنی ) کے وقت جناب رام چندر جی سیتا کے ساتھ گھر سے نکلے تو لوگوں نے شور مچادیا اور آہ وبکا کرنے لگے کہ کیا برا وقت آگیا ہے، وہ سیتا جس کو آسمانی دیوتا بھی نہیں دیکھ پائے تھے اسے آج بازاری لوگ دیکھ رہے ہیں۔
(رامائن اجودھیا کانڈم سرگ ۳۳)

●سیتا جی کو پالکی سے اتار کر وری بھیشن جب رام چندر کے حضور لے چلے تو سیتا بے پردگی کی شرم سے دوہری ہوتی جاتی تھیں گویا اپنے آپ کو اپنے جسم کے اندر چھپاتی تھیں۔
(رامائن بدھ کانڈم سرگ صفحہ ۱۱۴)

●لکشمن کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بن باس کے زمانہ میں شب وروز سیتاجی کے ساتھ رہے۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کہ میں نے سیتا جی کے پاؤں دیکھے ہیں۔ سوگر یو نے خوفزدگی کے عالم میں کوئی بات کرنے کے بجائے اپنی رانی لکشمی کے پاس بات کرنے کیلئے گئے لیکن نا محرم عورتوں کودیکھ کر لکشمن نے منھ دوسری طرف پھیر لیا او رواپس آگئے۔
( رامائن کشن گانڈم سرگ ۳۳)

●ارجن کی بیوی دریدی ایک مقام پر کہتی ہیں۔ اے بزرگو! راجہ نے مجھے سوئمبر کے موقع پر دیکھا تھا۔ اس سے پہلے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ آج بدقسمتی سے غیر مردوں کے سامنے آنا پڑا اجنبی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اورکیا ذلت ہوگی کہ مجھ جیسی پاک دامن خاتون لوگوں کے روبرو آئے۔ہزار افسو س کہ راجہ دھرم کھو بیٹھے۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ قدیم زمانہ کے شرفاء اپنی منکوحہ کو کبھی بھی مجمع میں نہیں لے جاتے تھے۔ افسوس اب اس خاندان کا دھرم جاتا رہا۔
(مہابھارت سنھا پرب ادھیا ۶۹)
(ماخوذ از مضمون:- عبدالرحمن عبدالجليل مہسلائی (مہسلہ، رائے گڈھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے