Ticker

6/recent/ticker-posts

ہندوستان میں دونظریات کی جنگ | Hindustan Mein Do Nazariyat Ki Jung

ہندوستان میں دونظریات کی جنگ

ڈاکٹر ایم اعجاز علی (سابق ممبرپارلیمنٹ راجیہ سبھا)
9110102789
8294247972

ہندوستان میں شروع سے ہی دو نظریات کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ آئین کی دہائی دینے والے کہتے ہیںکہ وہ گاندھی جی کے نظریات پر ملک کو لے کر چلنا چاہتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دوسرے طبقہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کے رخ کو گوڈسے کے اصول پر موڑنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی اکثریت آبادی (سبھی مذاہب) کو زمانۂ قدیم سے جذباتی بناکر رکھے گئے ہیں۔ غریبی اور جہالت کے سبب مذہب کے نام پر آسانی سے جوش میں آجاتے ہیں۔ جہاں تک سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس بڑی آبادی کو ملک میںیا تو گاندھی جی اور ان کے ٹائٹل پر سیاست کرنے والے گاندھی پریوار (نہروپریوار) کی تصویر دکھائی دیتی ہے یا پھر سنگھ پریوار کے گرو گوالکر، ساورکر، گوڈسے وغیرہ کی تصویر۔ ان دونوںسے کچھ بچتا ہے تو پھر ڈاکٹر امبیڈکر کی تصویر سامنے آتی ہے۔ اس سے زیادہ گہرائی میں جانے یا ان نظریات کی اصلیت پر غور کرنے کی نہ تو کسی کو فرصت ہے اور نہ جاننا ہی چاہتے ہیں۔ اسی لاتعلقی نے آج اس ملک کو لاکر ایسے چوراہے پر کھڑا کردیاہے کہ جہاں سے مستقبل میں سول وار (نعوذ باللہ) میں ڈوب جانے کا نظارہ صاف صاف محسوس ہوتا ہے۔ لہذا ملک وسماج کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان نظریات کی تہہ میں جاکر ان کے ہدف کو سمجھیں۔

ہندوستان کی سرزمین پر دو نظریات

بات دراصل یہ ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر جن دو نظریات کے درمیان ہونے والی جنگ ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ دراصل آرین کے اس ملک میں آنے کے بعد سے ہی چلتی چلی آرہی ہے۔ یہ درحقیقت اصل باشندوں اور برہمن وادی نظریات کے درمیان غلبہ حاصل کرنے کی جنگ ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مذہبی گروہ میں ان دونوںگروپ (نظریات) کے حمایتی موجود ہیں۔ برہمن نظریہ اس سرزمین پر ذات پات کا تفرقہ قائم رکھ کر اونچے طبقات کو سماج کا مالک بناکر دیکھنا چاہتی ہے تاکہ سماج کا بقیہ حصہ ان کا خادم بنارہے۔

اس کے برعکس ہندوستانی باشندے طبقاتی تفریق کے بجائے مساوات کو اپنا آئیڈیالوجی مانتی ہیں (جو انسانی فطرت ہے)۔ مساوات کے تحت وہ سارے بنیادی ایشوز آتے ہیں جو ایک آئیڈیل انسانی سماج قائم کرپائے۔ اس سماج میںنہ کوئی چھوٹا بڑا ہو اور نہ ہی اونچا نیچا ہو اور نہ مشرق ومغرب ہو۔ سب کے لیے یکساں ترقی ہو، سب کی تعظیم ہو، سب کا ایک دوسرے پر اعتماد ہو اور سب ایک ساتھ رہیں۔ اس میں مذہب، نسل، مرد وزن یا علاقائیت کے نام پر تفریق کی کوئی گنجائش نظر نہ آئے۔ کل ملاکر اسی نظریات کو ’’سوشل جسٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس برہمن وادی نظریات کو اختصار میں ’’کامنل جسٹس‘‘ کا نام دینا سب سے مناسب ہوگا۔ اس طرح سے ہندوستانی سرزمین پر ’سوشل‘ بنام ’کامنل‘ جسٹس کے درمیان ہی جنگ چل رہی ہے، چاہے کوئی کچھ بھی کہے۔

سوشل جسٹس جہاں تعلیم، تحفظ و تعظیم کی بات کرتا ہے وہیں ’کامنل جسٹس‘ میںیقین رکھنے والے مندر-مسجد، ہندو-مسلمان اور ہندوستان وپاکستان کے ایشوز پر ٹکے رہتے ہیں چاہے دنیا ادھر سے ادھر کیوںنہ ہوجائے، کیوںکہ اسی بنیاد پر وہ ہندوستانیوںپر غلبہ قائم رکھ پائیں گے۔ اسی طرح سے سوشل جسٹس کا سپاہی جب روزی، روٹی، بنیادی تعلیم اور سماجی ترقی کی بات کرتا ہے تو ’کامنل جسٹس‘ نظریات والے جانور، جائیداد اور جلوس کے ایشوز پر ایک خاص مذہبی گروپ کی مخالفت کرکے اکثریتی سماج کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتے ہیںتاکہ انہیں جمہوری نظام میں زیادہ سے زیادہ طاقت (ووٹ) ملے۔ چاہے ان کی اس پالیسی سے لوگوںکو روٹی، کپڑا، مکان ملے نہ ملے۔ یہ تو محض دو چار مثالیںہیں جو عام ہیں، ورنہ غور کیجئے تو پورے ملک میں بہت سی ایسی مثالیں مل جائیں گی جو آپ کی روزمرہ کی زندگی میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ نہ تو مندروں،مٹھوں یا خانقاہوں کو وسیع کردینے اور سجانے وسنوارنے سے غریبوں، ناخواندہ، بدحال سماج کو کچھ ملنے والا ہے اور نہ ہی کھیتوںمیں فصل لہلہانے لگے گا اور نہ ہی سیلاب وخشک سالی جیسے ملک کو آفات سے بچایاجاسکتا ہے۔ ہم اس بات پر غور کیوںنہیں کرتے کہ ہندوستانی سرزمین پر ’’کامنل جسٹس‘‘ کی کوئی ضرورت ہی نہیںہے۔

ہندوستانی باشندوں کا مزاج پیدائشی طور پر ’رواداری‘ سے بھرا ہوا ہے اور یہی مزاج ہی دراصل ’سوشل جسٹس‘ کی جڑ ہے۔ اسی مزاج کی بدولت اس سرزمین پر مذہب،کسی بھی دور میںلوگوںکے بیچ مسئلہ نہیں رہا ہے۔ ہر کسی کو اپنی مذہبی رسم و رواج ادا کرنے میں دوسرے مذہب والوںکا کوئی دخل نہیںہے، بلکہ ہندوستانی ثقافت ایک دوسرے کے مذہب کی قدر کرنا سکھاتا ہے۔ ہر موقع پر یہاں کے اصل باشندے ایک دوسرے کے ساتھ نظر آتے ہیں چاہے وہ تہوار کا ہی موقع کیوںنہ ہوں۔ سیاسی نظریہ سے بھی دیکھئے تو جس سیاسی پارٹی یا لیڈر میں ’سوشل جسٹس‘ کی بو نظر آتی ہے اسے یہاں کے باشندوں نے روایتی طور پر اپنے کاندھوںپر ہمیشہ اٹھایا ہے۔ اس مہم میں وہ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ وہ کس مذہب، ذات، نسل یا علاقے کا فرد ہے۔ یہ خالص ہندوستانی مزاج جب تک قائم رہے گا تب تک سوشل جسٹس کے نظریات، اس سرزمین پر مضبوطی سے جھنڈا گاڑے رہے گی۔ لیکن بدلتے حالات کے ساتھ اور خاص کر موجودہ جمہوری نظام میں جیسے جیسے لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھایا جانے لگا کہ فلاں لیڈر فلاں ذات کا ہے، یا فلاں مذہب کا ہے ، یا فلاں حکومت فلاں اعداد وشمار پر ٹکی ہوئی ہے، ویسے ویسے سوشل جسٹس کی نظریات کمزور ہوئی ہے۔ اور یہ گروہ بکھرتا چلا گیا۔

Dr. Ejaz Ali

آپ سوچ کر دیکھئے کہ گزشتہ 25-30 برسوں میں اقتدار کی حصولیابی کے لیے یہ فلاں فلاں والا فارمولہ یا ترکیبیں تیزی سے ابھری نہیں اور کہیں نہ کہیں پر’کامنل جسٹس‘ کے حامیوںکو اس سے طاقت ملی ہے،جس کی وجہ سے ان کا غلبہ کافی بڑھ گیا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ’کامنل جسٹس‘ کی لہر کو آگے بڑھانے میں ’سوشل جسٹس‘ والوںکا بھی ساتھ (جانے انجانے) صاف نظر آتا ہے۔ وہ اس طرح سمجھئے کہ جس ایشو کو ’کامنل جسٹس‘ والے ہندوستانی سماج کے درمیان اچھالتے ہیں۔ ’سوشل جسٹس‘ والے بھی اسی کو رٹنے میں بڑی شدت سے لگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پھینکے ہوئے یہ مسالے (ایشوز) ہندوستانی عوام کے سامنے سب سے اہم جذباتی ایشوز بن جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو بنیادی ایشوز (مسائل) طویل عرصہ سے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو مضبوطی سے سامنے لانے اور ووٹ کی سیاست سے حل کرنے کی پالیسی ابھارا جائے اور ’’سوشل جسٹس‘‘ والوں کو اسی پر اڈگ رہنا چاہئے۔ چاہے دنیا ادھر سے ادھر کیوں نہ ہوجائے۔ ہم ہندوستانیوں کو اگر صحیح معنی میں اپنے ملک سے پیار ہے تو پھر ’سوشل جسٹس‘ کے نظریات کو مضبوطی دیں۔ مندر-مسجد، ہندو-مسلمان اور ہندوستان-پاکستان کے ایشوز پر کان میں تیل ڈالے اور مہنگائی،بے روزگاری، بدعنوانی، بجلی، سڑک، پانی، سیلاب اور خشک کے ایشو پر ہی ووٹ کی سیاست کریں۔ پارٹی اور لیڈر کی ذات ومذہب دیکھنے کے بجائے اس کی سوچ و عمل کو دیکھیں۔ آج سے اس پر عمل ہوگا تو 20-25 برسوںکے بعد ہی اس کے فائدے نظر آئیں گے تب تک ہمیںاپنی راہ پر ڈٹے رہنا ہوگا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے