Ticker

6/recent/ticker-posts

خیر و شر کی لڑائی : انسانیت، حیوانیت اور مسکان

خیر و شر کی لڑائی : انسانیت، حیوانیت اور مسکان

۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔

مسکان ایپیسوڈ کو ایک مذہبی رنگ دیا گیا ہے۔جی۔ یہ زاویہ بھی درست ہے۔چند شر پسند عناصر نے اسلام کے اصول کے خلاف پروپیگنڈہ کیا، اسلام کے خلاف آواز اٹھائی، اسلامی قدروں کو مجروح کرنے کی کوشش کی، اسلام کی ایک دختر کو ہراساں اور پریشان کرنے کی کوشش کی تو یہ ضروری تھا کہ مسلم قوم ان شرپسندوں کے خلاف آواز اٹھاتی اور مسلمانوں نے آواز اٹھائی بھی۔

لیکن اس ایپیسوڈ کا ایک اور اینگل بھی ہے، وہ ہے انسانیت کا زاویہ۔اس معرکہ میں جب مسکان خان نے شر پسند عناصر کا منھ توڑ جواب دیا تو اس کی حمایت میں کالج کے اساتذہ اٹھ کھڑے ہوئے، کالج کے پرنسپل نے بھی مسکان کا بھر پور ساتھ دیا۔گویا اس لڑائی میں مسکان تنہا نہیں رہ گئی تھی، بلکہ اس کے ساتھ کالج کے غیر مسلم اساتذہ بھی تھے۔لہذا مجھے کہنے دیا جائے کہ یہ لڑائی خیر و شر کے مابین تھی، یہ لڑائی اچھائی اور برائی کے درمیان تھی، یہ لڑائی ظالم و مظلوم کے مابین تھی۔ یہ لڑائی انسانیت اور حیوانیت کے درمیان تھی۔

خیر سے میری مراد مسکان اور اس کے اساتذہ ہیں

خیر سے میری مراد مسکان اور اس کے اساتذہ ہیں اور شر سے مراد وہ شر پسند عناصر تھے جو ایک نہتی لڑکی کی عفت کے خلاف نبرد آزما تھے۔

اس لڑائی میں مسکان کو فتح مبین حاصل ہوئی۔ باطل پسپا ہوگیے۔پوری دنیا کے لوگ مسکان کو مبارکباد دینے لگے۔چند مسلم رہنماؤں نے مسکان کے گھر جا کر مسکان کو مبارک بادی کے ساتھ ساتھ ایوارڈز بھی دیے۔یقینا' مسکان ان ایوارڈز کی مستحق ہے، اگرچہ اس نے یہ لڑائی کسی ایوارڈ کے لالچ میں نہیں لڑی تھی۔ کالج کے کیمپس میں اس کا نعرہء تکبیر بلند کرنا اس کا برحستہ تعامل تھا، اس کا اپنے آپ رد عمل تھا، اس کا سپانٹییس رییکشن تھا، یہ برجستہ تعامل اس کی تربیت کا اثر تھا جو اس کو اس کے والدین کی محنت و مشقت سے ملی تھی۔


ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر مسکان کو انعام و اکرام سے نوازا گیا تو مسکان کے اساتذہ کو بھی حوصلہ افزائی کے لیے اکرامات سے نوازا جانا چاہیے تھا، ان کے لیے بھی تحسینی کلمات کہنے چاہیے تھے، کیونکہ وہ صرف اپنی طالب علم کے لیے لڑ نہیں رہے تھے، بلکہ وہ بھی انسانیت کی بقا کے لیے لڑ رہے تھے۔درندوں کو شکست فاش دینے کے لیے لڑ رہے تھے، حیوان نما شر پسند عناصر سے ایک نہتی لڑکی کی آبرو کو بچانے کے لیے لڑ رہے تھے۔

تو چاہیے یہ تھا کہ چند مسلم رہنما مسکان کے کالج بھی پہنچتے اور کالج کے اساتذہ کو ان کی کاوش کا اعتراف کرتے ہویے انسانیت طرف داری کے ایوارڈ سے سرفراز کرتے۔

آج حجاب پر پابندی ہورہی ہے، کل اذان پر بھی پابندی ہوسکتی ہے اور مسجد پر بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ان حالات کا سامنا کیسے کیا جائے؟


کتاب رب سے رہنمائی مل رہی ہے کہ ہم صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح حجاب کو ہم نے واجب جانا اسی طرح نماز کو بھی فرض جانتے ہوئے نماز کی ادائیگی پابندی کے ساتھ کرتے رہیں، اپنی اپنی مسجدوں میں نماز باجماعت ادا کرتے رہیں۔جس انداز سے نماز جمعہ کے وقت مسجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے، ویسے ہی، کوشش کریں ہر ہفتہ نہیں بلکہ ہر روز فجر کی نماز اپنی اپنی مسجدوں میں باجماعت ادا کریں۔تو پھر دیکھنا آپ کی زندگی میں، آپ کے معاشرے میں، آپ کے شہر میں، آپ کے ملک میں کیسے کیسے خوشگوار انقلابات رونما ہونگے۔

خیر و شر کی لڑائی : انسانیت، حیوانیت اور مسکان

اسی لیے کسی یہودی رہنما نے کبھی کہا تھا کہ اگر جمعہ کی طرح روزانہ فجر میں‌ مسلمان مسجد میں‌ جمع ہونے لگیں تو سمجھ لیجیے یہودی ہار گئے اور مسلم قوم کی جیت ہوگئی۔

اللہ ہم سب کو پابند صوم و صلوٰۃ بنائے، معاملات میں ایمان دار بنائے اور اسلام کے اصولوں پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے

آمین ثم آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے