Ticker

6/recent/ticker-posts

رجب کے کونڈے کا فاتحہ کی تاریخی حقیقت و اصلیت

رجب کے کونڈے کا فاتحہ کی تاریخی حقیقت و اصلیت

محمد اشفاق عالم نوری فیضی

ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔ مجلس علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پورزونل کمیٹی کولکاتا۔ 136
رابطہ نمبر۔ 9007124164

کونڈوں کی اصل ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بےشمار دلائل ہیں۔ یہ ایصالِ ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاتا ہے جوکہ جائز ہے۔ 22 رجب المرجب شریف کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط۔ ہمارے ہاں بعض جہلاء نے کونڈوں کے بارے میں جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کے واقعات یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 22 رجب المرجب شریف کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے۔


کونڈے کے فاتحہ کے کچھ غلط رسومات

ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔ کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں، اس جگہ کھائیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے۔ جو چاہے کھائے۔ مسلم، غیر مسلم سب کو دیں، ثواب مل جائے گا۔


کونڈے کا فاتحہ کی تاریخی حقیقت

بعض لوگ کہتے ہیں اس دن یعنی بائیس(22) رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے اور اہلِ تشیع دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہیں۔ یہ الزام چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے:

(1)اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔

(2)کسی کے مرنے پر کوئی مخالف حلوہ پوری پکا کر ختم نہیں دلواتا اور ایصال ثواب نہیں کرتا۔ پھر شیعہ کیا پاگل ہیں کہ اپنے مخالف کا ختم دلاتے اور ایصال ثواب کرتے ہیں۔

(3) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال تک حکومت کر کے، آسودگی کی زندگی بسر کر کے، اپنے اہل و عیال میں طبعی موت کی صورت میں فوت ہوئے۔ اس میں دشمن کی خوشی کی کیا بات ہو گی؟ اس پر مخالفین کا بغلیں بجانا چہ معنی دارد؟ کیا کبھی انہوں نے معاذ اللہ نہ مرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وفات پر خوشیاں منائی جائیں۔

(4) ہم نے کسی شیعہ کو کبھی خوشیاں مناتے نہیں دیکھا، ختم دلانا تواور بات ہے۔


کونڈوں کے متعلق کچھ اہم معلومات

مٹی کے برتن میں میٹھی چیز تیار کرکے اس پر فاتحہ کرکے اس کا ثواب حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کو ایصال کرنا کونڈے کی نیاز کہلاتی ہے۔ عرصہ دراز سے مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ 22/ رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے کھیر، پوری پکاکر اس پر فاتحہ پڑھ کر مسلمانوں کو کھلایا جاتا ہے۔ ہاں اس کی کوئی پابندی نہیں (سونے اور چاندی کے برتن کے علاوہ) کسی بھی برتن میں کھلا سکتے ہیں۔ مٹی کے برتن کی کوئی قید نہیں۔ اس نیاز کو گھر سے باہر بھی اپنے عزیزوں، رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں میں بھیج سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ گھر سے باہر اس نیاز کو نہیں لے جاسکتے۔ گھر ہی میں کھلانی چاہئے، غلط فہمی ہے۔


کونڈوں کی نیازکے لئے تاریخوں کا تعین

کونڈوں کی نیاز 22 رجب المرجب کو ہی کرنا ضروری نہیں۔ یہ ایصال ثواب ہے۔ کسی بھی ماہ میں کسی بھی تاریخ کو کرسکتے ہیں۔ نذر و نیاز ایک مستحب عمل ہے۔ کریں تو ثواب، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ لہذا یہ فرض وواجب نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔ انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی۔ مسلمان اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔


ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا

سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپﷺ نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698، ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں:اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی اﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر اﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو (تفسیر خازن و مدارک، جلد اول۔


فاتحہ کے تعلق سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کاعقیدہ

تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں( تفسیر عزیزی، جلد اول، ص 39)آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے( فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)

الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث: مجھے والد ماجد نے بتایا کہ حضور کریمﷺ کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی کہ کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔ میں نے سید عالم نور مجسمﷺ کو خواب میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضورﷺ مسرور و شادماں ہیں‘‘ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے