پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات اور مسلمان
آفتاب ندوی جھاڑکھنڈ
8002300339
************
یوپی سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا اعلان ھوچکا ھے، سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے وسائل کے مطابق اور اپنے اپنے طریقہ پر ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں مصروف ہیں۔
یوپی آبادی کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ھے، اسلئے بائیس کروڑ کی آبادی والی اس ریاست میں پارٹیاں سب سے زیادہ سرگرم ہیں، اسوقت مرکز پر قابض بی جے پی پارٹی ھر اعتبار سے سب سے پڑی پارٹی ھے، ملک کی بیشتر ریاستوں میں اسکی حکومت ھے، اور گورنر تو تمام ریاستوں کے اسی پارٹی کے ہیں، ایجنسیاں، بیورو کریٹ، بہت حدتک عدلیہ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن جیسے ادارے اسکی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں بھی ھے وھاں بھی گورنر کے ساتھ بہت سے سکریٹری آر ایس ایس نظریات کے حامل ھوتے ہیں، اسکے اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں کے پڑھے ھوئے ھوتے ہیں۔
یہ غیر بی چے بی حکومت کو غلط مشورے دیتے ہیں، ایسے فیصلے کرواتے ہیں جو عوام میں ناراضگی پیدا کرے، اس پارٹی کے کیڈر کی تعداد بھی سب سے زیادہ ھے، آر ایس ایس کی تمام ذیلی تنظیمیں بی جے پی کی مخلص کارکنان ہیں، یوپی میں بطور خاص بی چے پی اپنے تمام اسباب ووسائل اور اپنی پوری فوج کے ساتھ میدان میں ھے، سنگھ کا سب سے بڑا مقصد ھندتو کے مطابق ملک کو ڈھالنا ھے، منو سمرتی کے قانون کو نافذ کرنا ھے، ورن سسٹم کو لانا ھے، ہو بہو نہ سہی اسکی روح کو اور اسکی بنیادی چیزوں کا نفاذ سنگھ کا ھدف ھے، 1927 میں ڈاکٹر امبیڈ کر نے منو سمرتی کو جلایا تھا، سنگھ کا مقصد 2027 تک ملک کے آئین کو یاتو مکمل طور پر خارج کرنا ھے یا اسکی روح کو نکال دینا ھے، ملک کے آئین اور منو سمرتی میں تضاد ھے، منو سمرتی انسانوں کو چار طبقوں میں تقسیم کرتی ھے جبکہ امبیڈ کر کا مرتب کردہ اور تمام لوگوں کی مرضی اور اتفاق سے نافذ آئین رنگ ونسل دین ومذہب اور زبان وعلاقہ کی بنیاد پر اونچ نیچ، بھید بھاؤ اور فرق وامتیاز کو بالکلیہ مسترد کرتا ھے،، منو وادی ایک صدی سے انتہائی منظم انداز میں اپنے مقصد کے حصول کیلئے سرگرم ہیں، اپنے اس سوسالہ سفر میں اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے ھر جائز وناجائز طریقو ں کو انہوں نے بے دھڑک اپنایا، اور یہ چانکیہ سیاست کا اہم حصہ ھے، ساور کر نے اس میں نازی ازم کو شامل کرکے اسے دو آتشہ کر دیا، گاندھی کے قتل سے لیکر ھزا روں فرقہ ورارانہ فسادات میں کمیشنوں کی رپورٹ میں صاف صاف سنگھ اور اسکے کارکنوں کے ان میں ملوث ھونے کا ذکر کیا گیا، مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اسوقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی، کر کرے نے جب کرنل پرو ہت اور پرگیہ ٹھاکر کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا تو سنگھ اور انکے ہمدرد بوکھلا گئے، اڈوانی جیسے بڑے ذمہ داران بھی انکے دفاع میں اتر گئے۔
اس میں شک نہیں کہ اس ھندتو کارخ دلتوں سے زیادہ مسلمانوں کی طرف ھے، اسکی وجہ یہ ھے کہ مسلم قوم ایک شاندار ماضی، ایک عظیم الشان تہذیب، اور ایک ایسی آئیڈیا لوجی رکھتی ھے جسکے سامنے کوئی بھی آئیڈیا لوجی نہیں ٹک سکتی ھے، مذھب اسلام میں ایسی کشش ھے کہ لوگ اسکی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، یہی وجہ ھے کہ طرح طرح سے رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، قانون وضع کئے جاتے ہیں، کبھی خواتین کے حوالہ سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ھے، تو کبھی اسلاموفوبیا میں غیر مسلموں کو مبتلا کیا جاتا ھے، خلاصۂ کلام یہ کہ اپنی کوششوں سے سنگھ نے سماج میں کافی زھر پھیلا دیا ھے، اسکا بھرپور فائدہ بی جے پی کو الیکشن میں ملتا ھے۔
پس چہ باید کرد ؟: ایسی صورتحال میں مسلمان کیا کرے، کس کو ووٹ دے، کس کو اقتدار تک پہنچا ئے ؟؟؟
آزادی کے بعد سے مسلمان ایک طویل زمانے تک کانگریس کو نجات دھندہ سمجھتا رھا، خاص طور پر جمعیت علماء ھند جس نے جنگ آزادی میں اھم رول ادا کیا اور آزادی تک مسلمانوں کے تمام طبقات کی نمائندہ تنظیم تھی یہ آج بھی مسلم ووٹ کا حقدار کانگریس ھی کو سمجھتی ھے، البتہ ادھر کچھ دنوں سے کانگریس کے ساتھ دوسری غیر بی چے پی پارٹیوں کیلئے بھی کبھی کبھی اشارہ کرتی ھے، کانگریس کی منافقت اور درپردہ اسکی مسلم دشمنی کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں مسلمانوں نے ریاست کی ان پارٹیوں کو جتایا جو سیکولر ازم کی بات کرتی ھیں اور جو سنگھ کی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ھیں، بہار کے لالو پرشاد یادو، سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج وغیرہ ان میں سر فہرست ہیں، حال کے دنوں میں ممتا بنرجی اقلیتوں کی مسیحا بنکر ابھری ہیں۔
لیکن تجربہ کیا کہتا ھے، ان سیکولر قائدین کا رویہ ہمیں کیا سبق دیتا ھے، کیا واقعتا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا، ھمارے حقوق انہوں نے دئے، ان پارٹیوں میں مسلمان بڑے بڑے عہدوں پر رھے، انہیں ذاتی فائدہ پہنچا، اور کہیں کہیں اور کبھی کبھی قوم کو بھی فائدہ ملا، بہار میں لالو کو جسوقت اقتدار ملا اسوقت پورے ملک میں بھیانک فسادات سے مسلمان بیحد پریشان تھے، مسلمانوں کا کہنا تھا ھم مزدوری کرکے اور ٹھیلہ لگا کر گزر اوقات کرلینگے بس یہ فسادات بند ھوجائیں، لالو نے یہ کام کیا، اسی طرح شرما حضوری میں کچھ اور چھوٹے چھوٹے کام ان پارٹیوں کے ذریعہ سے ھوئے اور ساتھ ھی مختلف سطح پر نا اصافیوں کا سلسلہ بھی جاری رھا، اور ان پارٹیوں کے مسلم وزراء اور عہدیداروں نے مسلمانوں کے حق کیلئے یا مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی کبہی جسارت نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پارٹی کا سپریمو اسے برداشت نہیں کرے گا، مشہور ادیب دانشور شکیل الرحمن پیامی وی پی سنگھ کی پارٹی میں نائب صدر اور بومئ صدر تھے، کشمیر کے سلسلہ میں پیامی صاحب نے ایک بیان دیدیا سپریمو کو یہ بیان اچھا نہیں لگا اور نتیجتاً پیامی صاحب کو مستعفی ھونا پڑا، اعظم خان ھوں یا نسیم الدین، بہار کے فاطمی اور عبد الباری صدیقی ھوں یا احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد ان لوگوں کی کچھ اھمیت تھی تو اسی لئے کہ پارٹی کو ان سے فائدہ تھا، یہ سارے لوگ جانتے تھے کہ اگر قوم کی بات کرینگے تو پارٹی سے نکال باھر کئے جائینگے، مسلمان معلوم نہیں کتنی قیامتوں گزرے، ھزاروں بھیانک فسادات ھوئے، مدارس اور علماء کو دہشت گرد قرار دیا گیا، مولانا علی میاں ندوی رح کے گھر پر چھاپہ پڑا، بابری مسجد شہید کی گئی، مسلم اداروں کا اقلیتی کردار چھینا گیا، لیکن مسلم وزراء، ایم پی، ایم ایل اے اور پارٹیوں کے مسلم عہدیداران کی حالت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی رہی، اکھلیش کے عہد میں جسوقت مغربی یوپی میں بدترین فساد ھوا اسوقت اترپردیش ودھان سبھا میں شائد آزادی کے بعد مسلم ایم ایل اے کی اتنی بڑی تعداد کبہی نہیں رہی، حکمراں پارٹی کے مسلم ایم ایل اے خاموش رھے۔
کئی دہائیوں تک مسلمان آنکھ بند کرکے کانگریس کو ووٹ دیتا رہا اور بعد کی دہائیوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے خوف سے کہیں کانگریس کو اور کہیں کسی دوسری بارٹی کو ووٹ دیکر اقتدار تک پہنچاتا رھا، ادھر کافی دنوں سے بحث چل رھی ھے کہ مسلمان اپنی پارٹی بنائے یا نہ بنائے، زیادہ تر لوگ علیحدہ پارٹی بنانے کو نقصان دہ سمجھتے ہیں، حالیہ الیکشن میں بھی زیادہ تر لوگ اویسی کی مخالفت یہی کہکر کر رہے ہیں کہ انکو ووٹ دینے سے بی جے پی کو فائدہ ھوگا، اسکے جواب میں اویسی کی اس بات میں دم ھے کہ گزشتہ انتخابات میں تو میری پارٹی نہیں تھی، بی چے پی اتنی اکثریت سے کیونکر جیتی، کئ دو سری کمیو نیٹیاں تعداد میں مسلمانوں سے کم ھو نے کے باوجود پارٹی بنا کر کئی بار حکومت کرچکی ھیں، سنجیدگی سے کوشش کرنے سے مسلمان سیاسی غلامی سے کیوں نہیں نکل سکتا ھے، اویسی ایک باصلاحیت، ایماندار، تجربہ کار اور بیباک لیڈر ہیں، انہیں یہ کہکر بدنام کیا جاتا ہے کہ یہ ایجنٹ ہیں، بی چے پی کو فائدہ پہنچاتے ہیں، بی چے پی بھی انہیں بدنام کرنے کے مقصد سے اس طرح کی افواھوں کو پھیلاتی ھے تاکہ مسلمان ووٹ دیکر انکی پارٹی کو پارلیمنٹ اور ودھان سبھا نہ پہنچا ئیں، آج پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی آواز اویسی کے سوا کون ھے، مسلمانوں کو متحد ھوکر اویسی کی حمایت کرنی چاھئے انکا امیدوار جیتے یا ھارے، اسکا فائد آنے والے الیکشن میں ملے گا، دوسری پارٹیاں الائنس کرینگی، اور حکومت میں حصہ داری مل سکتی ھے، سیاسی پارٹیوں کے مسلمان اگر مخالفت کر رھے ھیں تو صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے کر رھے ہیں، ستر پچھتر سال میں ھم نے جو تجربے کئے انکی ناکامی ھمارے سامنے ھے، اب کیوں نہ ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جو دلائل کی بنیاد پر انقلابی حکمت عملی ھے، اور وہ یہ کہ دوسری پارٹیوں کے غلام مسلمانوں کو ووٹ دینے کے بجائے ھم خود اپنی کوئی پارٹی کھڑی کریں
-------------------
آفتاب ندوی جھارکھنڈ
واٹس اپ 8002300339
0 تبصرے