Ticker

6/recent/ticker-posts

سب رس کا خلاصہ | سب رس کی زبان اور اسلوب | سب رس کی لسانی خصوصیات

ملّا وجہی کی داستان سب رس کا خلاصہ | سب رس کی زبان اور اسلوب | سب رس کی لسانی خصوصیات

سب رس یعنی سبھی طرح کے رس۔پیار محبت عشق مصیبت آفت حیرت ہمت عصمت جرات دعوت اور عداوت زندگی میں جتنے طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ان تمام طرح کے واقعات کو ایک ساتھ داستان سب رس میں ملا وجہی نے پیش کیا ہے اسی لئے اس کا نام سب رس رکھا گیا ہے۔

اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب کون ہے

سب رس اردو کی ادبی نثر کی پہلی کتاب ہے۔اس سے پہلے بھی دکن میں نثر میں کتابیں ملتی ہیں لیکن وہ مذہبی نثر کانمونہ تھیں۔ یہ 1045 ھ بہ مطابق 1635ء میں عبداللہ قطب شاہ والی گولکنڈہ (دکن ) کی فرمائیش پر اس کے درباری شاعر اسد اللہ وجہی نے تالیف کی تھی۔ اس داستان میں حسن و عشق کے معر کے کو ایک تمثیلی قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ وجہی نے اس کے بعد عبداللہ قطب شاہ کے دادا محمد قلی قطب شاہ کے آخری زمانے میں ایک مثنوی قطب مشتری بھی لکھی تھی جس میں خود بادشاہ محمدقلی قطب شاہ کی بھاگ متی کے ساتھ داستان عشق استعارے کے پیراے میں بیان کی ہے۔ اس کا سنہ تصنیف 1018 ھ بہ مطابق 1609ء ہے اور مثنوی بھی اپنے دلکش اسلوب اور رومانی تخیل کی وجہ سے قدیم دکنی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار ہوتی ہے۔

سب رس کی لسانی اہمیت | سب رس کی لسانی خصوصیات

سب رس کی اہمیت لسانی بھی ہے اور ادبی بھی۔لسانی اس حیثیت سے کہ اس میں وہ زبان ہمیں ملتی ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے تین سو برس پہلے دکن میں بولی جاتی تھی۔ اس کے املا کا انداز بھی آج کل کے انداز سے قدرے مختلف تھا۔الفاظ کی کمی کے باوجود وجہی کے انداز بیان میں بڑی روانی اور دلکشی ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی معنی خیز باتیں کہہ جا تا ہے۔ اگر چہ اس نے مقفع اور مسجع عبارت لکھنے کا انتظام کیا ہے لیکن یہ قید اس کے انداز بیان کو گنجلک یا پیچیدہ نہیں بناتی۔اس میں ایک تمثیلی قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جس کے متعلق مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ وہ ملا وجہی نے محمد یحیٰ سبک فتاحی نیشا پوری کی نثری تصنیف قصہ حسن و دل سے لیا ہے۔ اگر چہ اپنے دیباچہ میں فتاحی نے ایسا ظاہر کیا ہے گویا یہ قصہ خوداسی کی ایجاد ہو۔

سب رس کا پس منظر

فتاحی شاہ رخ مرزا کے عہد میں ایران کے مشہور شعرا میں سے تھا۔ پہلے اس نے اس قصے کو مثنوی کی صورت میں 1436ء میں دستور عشاق کے نام سے نظم کیا تھا۔ پھر اس کو سبستان خیال اور حسن و دل کے نام سے بھی نثر میں لکھا۔ قصہ حسن و دل اس مثنوی میں مندرج قصّے کا خلاصہ ہے اور اس میں اس نے مسجع و مقفع نثر لکھی ہے اور صنائع القفلی و معنی بھی خوب کھپاۓ ہیں اور اسی کی تقلید میں وجہی نے بھی مقفع و مسجع عبارت میں سب رس کولکھا ہے۔ سب رس کے سنسکرت ماخذ کے تعلق سے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ چودھویں صدی کے شاعر کرشن مشر کے تمثیلی ڈرامے پر بودھ چند رودے سے فتاحی نے بی قصہ اخذ کیا ہے۔

سب رس کی زبان کی خوبیاں یا سب رس کی زبان کی خصوصیات

سب رس کی زبان تقریبا چار سو سال پرانی ہے۔اس میں عربی و فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی کے الفاظ بھی کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ بہت سے الفاظ کا تلفظ اور املا بھی مختلف تھا۔ مثلا وہ کووؤ لکھا جاتا تھا۔ یہ کو یو۔اسی طرح انھوں کوانو لکھتے تھے۔

سب رس کی زبان اور اسلوب

مونث کی صورت میں حرف اضافت کی بھی جمع لاتے تھے : دل کے فائدے کیاں بہت تاباں ہیں۔ کو کے بجائے ”کوں کا استعمال کرتے تھے، اور سے کے بجاۓ ’سوں یا سی' کا لفظ مستعمل ( استعمال کیا جاتا تھا کیا گیا ہے۔اسی طرح بہت سے الفاظ آج کی زبان سے مختلف طور پر اس داستان میں استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک کی جگہ ایک کا استعمال بھی اس میں بہت ہے۔ تعجیل کی جگہ تاجیل کا بھی استعمال ماتا ہے۔

سب رس کے قصے کا خلاصہ پیش کیجیے؟

عقل اور عشق نام کے دو بادشاہ ہیں۔ عقل مغرب کا بادشاہ ہے اور عشق مشرق کا۔ عقل کا ملک یونان تھا۔ حسن عشق کی بیٹی ہے اور دل عقل کا فرزند۔ دل جب بڑا ہوا تو عقل بادشاہ نے اسے شہر تن کا والی بنادیا۔ ایک رات دل کے ایک ندیم نے آب حیات کا قصہ سنایا۔ دل آب حیات کا ذکر سن کر اس کے حاصل کرنے کی دھن میں ایسا دیوانہ ہوا کہ کھانا پینا حرام ہو گیا۔ آخر دل کے ایک خدمت گار نظر نے حامی بھری کہ وہ آب حیات کو تلاش کر لائے گا۔ چناں چہ نظر سفر پر روانہ ہوا اور پہلے شہر عافیت کے بادشاہ ناموں سے آب حیات کے بارے میں جا کر پوچھا۔

سب رس کی کردار نگاری

اس نے کہا کہ آب حیات کوئی چیز نہیں اصل آب حیات انسان کی آبرو ہے۔ نظر مایوس ہو کر آگے بڑھا۔ زہد نام کے پہاڑ پر ایک بوڑھے زرق نامی سے پوچھا۔ اس نے کہا آب حیات کو عاشقوں کے آنسوؤں میں تلاش کرو۔ نظر مطمئن نہ ہوا آگے چلا۔ ہدایت نام کا ایک قلعہ نظر آیا۔ اس کے بادشاہ ہمت سے پوچھا۔ اس نے ہمت بندھائی اور بتایا کہ کوہ قاف کے ادھر ایک شہر ہے، جس کا نام دیدار ہے، اس میں ایک باغ ہے جس کا نام رخسار ہے۔اس باغ میں ایک چشمہ دہن ہے۔ اس چشمے میں آب حیات ہے جس کی تجھے تلاش ہے اور ایک سفارشی خط اپنے بھائی قامت کے نام لکھ دیا اور میٹھی بتا دیا کہ راستے میں شہر دیدار کا نگہہ بان ایک دیو رقیب نامی ہے۔اس سے ہوشیار رہنا وہ کسی غیر آدمی کو وہاں جانے نہیں دیتا۔

سب رس کا خلاصہ

بہ ہرحال نظر وہاں سے چل دیتا ہے۔ رقیب کو ایک ایسا جھانسا دھوکا دیتا ہے کہ رقیب خود اس کو شہر دیدار لے جا تا ہے۔ وہاں پہنچ کر اس کی قامت سے ملاقات ہوتی ہے۔ ہمت کا خط وہ اس کے حوالے کرتا ہے، تب وہ نظر کو کہیں چھپادیا۔ اس طرح رقیب کے پنجے سے رہائی پانے کے بعد وہ رخسار کے گلزار میں پہنچا۔ وہاں پہلے زلف نے اسے ٹو کا پھر اس کی معذرت سن کر مہربان ہوگئی اور آپنے کچھ بال دے دیے کہ جب مصیبت پڑے، ان بالوں کو آگ پر جلا نا میں مدد کے لیے پہنچ جاؤں گی۔

اس سے رخصت ہو کر پھر یہ شہر دیدار کی طرف چلا۔ وہاں کے نگہہ بان غمزہ نے اسے پکڑ لیا اور نظر کو مار ڈالنا چاہتا تھا کہ نظر کے بازو پر ایک لعل نظر آیا، جو اس کی ماں نے بچپن میں نشانی کے لیے اپنے دونوں بیٹوں نظر اور غمزہ کے بازو پر ایک ایک لمحل باندھ دیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی غمز و نظر سے لپٹ کر رونے لگا۔ دونوں بھائی ملے تو نظر نے اپناسب احوال سنایا۔غمز ہ حسن کا مصاحب تھاوہ اسے حسن کے پاس لے گیا۔ حسن کے پاس ایک خوش رنگ بیش قیمت لعل تھا جس پر ایک خوبصورت اور موہنی صورت بنی ہوئی تھی۔اس نے پر کھنے کے لیے اسے نظر کو دکھایا نظر نے کہا کہ یہ تو دل کی تصویر ہے اور پھر دل کی اتنی تعریفیں کیں کہ حسن دل پر عاشق ہو گئی۔نذر نے کہا کہ دل کو آب حیات کی تلاش ہے اور وہ تمھارے پاس ہے۔اگر اسے میل جائے تو میں دل کو تیرے پاس لے آ تا ہوں۔ حسن نے اپنے غلام خیال کو نظر کے ساتھ کیا اورایک یا قوت کی انگوٹھی اس کو دی جس سے آب حیات کے چشمے پر مہر کی جاتی تھی۔

ملّا وجہی کی داستان سب رس

خیال اور نظر دونوں شہر بدن میں پہنچ کر دل سے ملتے ہیں۔ نظر اپنے سفر کا سب حال سنا تا ہے اور خیال حسن کی تصویر کھینچ کر دل کو دکھا تا ہے۔ وہ دیکھتے ہی ہزار جان سے حسن پر عاشق ہو جا تا ہے اور کھانا پینا حرام ہو جا تا ہے۔ آخر دل نظر کے مشورے سے شہر دیدار کے سفر کا قصد کرتا ہے۔ ادھر عقل بادشاہ کے ایک وزیر وہم کو جب اس بات کی خبر ہوتی ہے تو وہ عقل سے جا کر کہتا ہے کہ نظر ایک خانہ خراب خیال کو ساتھ لایا ہے اور وہ دونوں دل شہزادے کو شہر دیدار کی طرف لیے جار ہے ہیں۔اس سے بڑافتنہ پیدا ہوگا اور عشق بادشاہ سے عہدہ برآ ( چھٹکارا پانا ) ہونا مشکل ہو جاۓ گا۔ عقل اس خبر کوسن کر بہت پریشان ہو جا تا ہے اور وہم کے مشورے کے مطابق دل اور نظر کو قید کر کے ان پر پہرہ بٹھا دیتا ہے۔

یاقوت کی وانگوٹھی جو حسن نے دل کو بھجوائی تھی اور جسے دل نے نظر کے پاس رکھوا یا تھا، اس کی ایک خاصیت یہ تھی کہ جو کوئی اسے منھ میں رکھ لے وہ دوسروں کی نظر سے اوجھل ہو جا تا تھا۔ چناں چہ نظر اسے منھ میں رکھ کر قید خانہ سے باہر نکل آتا ہے اور شہر دیدار جا پہنچتا ہے۔ وہاں وہ رخسار کے گلزار میں سیر کر رہا تھا کہ اسے آب حیات کا چشمہ نظر آیا۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک گھونٹ پانی پی لے لیکن منھ کھلنے سے انگوٹھی منھ سے نکل کر چشمے میں جا گرتی ہے اور وہ آب حیات کا چشمہ نظر سے غائب ہو جا تا ہے۔اتنے میں رقیب کی نظر اس پر پڑتی ہے تو فورا نظر کو پکڑ کر گھر لے جا تا ہے اور قید کر لیتا ہے۔ قید میں نظر کو زلف کے بالوں کا خیال آیا۔ ایک دو بال آگ پر رکھتے ہی زلف نمودار ہو جاتی ہے۔ حال پوچھ کر کسی ترکیب سے اسے قید سے چھڑا کر شہر دیدار اور رخسار کے گلزار کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔

نظر وہاں پہنچ کر حسن سے ملتا ہے۔ سب حال بیان کرتا ہے۔ وہ تو انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ حال سن کر اور بے قرار ہو جاتی ہے اور غمزہ کو بلا کر کہتی ہے کہ تم اور نظر دونوں جاؤ اور جس طرح بن پڑے دل کو یہاں لے کر آؤ۔ نظر اورغمزہ چیدہ اور تجربہ کارلوگوں کو ساتھ لے کر شہر بدن کی طرف سدھارے۔ادھر عقل بادشاہ نے نظر کی فراری کی خبر کے ساتھ تمام سرحدی حکام کو ہدایت بھیج دی تھی کہ مفرور( بھا گا ہوا نظر جہاں ملے اسے قید کر لیا جاۓ۔ زرق کے بیٹے تو بہ کو جو ایک سرحدی حاکم تھا، یہ اطلاع ملی کہ نظرلشکر لیے قریب کی پہاڑی کے نیچے پڑا ہے۔ وہ فوراً اپنالشکر لے کر اس کی فوج سے لڑتا ہے لیکن غمز ہ اور نظرایسی بہادری سے لڑتے ہیں کہ تو بہ کوشکست کھا کر فرار ہونا پڑتا ہے۔ تو بہ عقل بادشاہ کو اس حرمیت اورغمزہ کی بہادری کی خبر میں سنا تا ہے تو عقل بادشاہ دل شہزادے کو قید خانہ سے نکلوا کر یہ سب باتیں بتا تا ہے اور کہتا ہے کہ تم ایک لشکر جز ارلے جا کر غمزہ سے مقابلہ کرواور کچھ عرصہ کے بعد خود بھی ایک بڑی فوج لے کر دل کی مد دکوروانہ ہو جا تا ہے۔ اس کے بعد لڑائی کے دوران بہت سے پیچ در پیچ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقل کی ابتدائی معرکوں (لڑائیوں میں تو جیت ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ عشق بادشاہ ہار جا تا ہے۔

ہمت بادشاہ بیچ میں پڑ کر دونوں میں صلح کرا دیتا ہے۔ طے یہ ہوتا ہے کہ عشق بادشاہ رہے اور عقل اس کا وزیر رہے۔ رقیب کو قید میں ڈال دیا جا تا ہے۔ دل کی شادی حسن کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔ایک روز دل، ہمت اور نظر رخسار کے گلزار میں پہنچتے ہیں۔ وہاں آب حیات کا چشمہ دہن دیکھتے ہیں۔ وہاں ایک پیرسبز پوش نظر آتے ہیں جو حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ ہمت کے کہنے پر دل ان کی قدم بوسی کرتا ہے۔ ادب سے نزدیک بیٹھتا ہے۔ حضرت خضر آنکھوں کے اشارے سے سب راز کھول دیتے ہیں اور دل حضرت حضر کے فیض سے اپنی مراد کو پہنچتا ہے۔حسن و دل خوب پھولتے پھلتے ہیں، فرزندوں والے ہوتے ہیں۔

آخر میں وجہی یہ بتاتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا فرزند یہ کتاب سب رس ہے جو اپنے وقت کا افلاطون ولقمان. ہے، روشن ضمیر، صاحب تدبیر ہے۔ جو کوئی صاحب نظر ہوگا اسے بیچن بھاۓ گا اور قدرکرے گا۔ اس پر وجہی نے قصے کا خاتمہ کیا ہے۔

سب رس میں انشایئے اور تصوف کیسے بیان ہوۓ ہیں؟

وجہی نے سب رس میں مختلف اوقات میں جو مختلف پیرا گراف پیش کیے ہیں انھیں ماہرین نے انشائیہ کہا ہے۔ ایسے ماہرین میں جاوید وشٹ اہمیت رکھتے ہیں۔ سب رس میں صرف عشق پر 11 انشایئے لکھے گئے ہیں۔اس سے وجہی کی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔سب رس کی کہانی دو طرح سے چلتی ہے۔ ایک تو جو ایک عام سی کہانی ہے۔ دوسرے اس کہانی میں چھپی ہوئی ہے۔یہ ایک کہانی ہے جسے تصوف کے اصول و نظریات سے منسلک بتایا جا تا ہے۔

سب رس کے متعلق نصیرالدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ یہ تصوف کی بہترین کتاب ہے جس کو فرضی قصے کے طور پر لکھا ہے۔سب رس میں عشق عقل، دل، حسن، ہمت، وفا، مہر اور وہم وغیرہ مجر دخیالات کو انسانی کردار میں ڈال کر رمز میں انداز میں تصوف کے مسائل کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وجہی نے اس قصے کا عنوان سب رس اس لیے رکھا ہے کہ اس نے زندگی خصوصا عشق سے متعلق سارے رس ( سب رس یعنی سارے جذبات ) محبت، اطاعت، قربانی، رشک ا و ر رقابت، ہجر وصال، خوشی اور غم کو ان جذبوں کے ماخذات یعنی حسن عشق دل نظر عقل کے کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔

سب رس کا خلاصہ | سب رس کی زبان اور اسلوب | سب رس کی لسانی خصوصیات


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے