سوال سے اتنی گھبراہٹ کیوں؟
اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
جرعات
آقائے کائناتﷺ حالت سفر میں ہیں۔ زمین سے آسمان تک ہر چیز پلکیں بچھائے آپ کے لمس کے لئے بیتاب ہے۔ مٹی کا ایک حقیر سا ذرہ بھی آپﷺ کے قدموں کو چھو کر اپنے آپ کو کائنات سمجھ رہا ہے اور کیوں نہ ہو اس کو محبوب خدا کی قدم بوسی کا شرف جو حاصل ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بدن اطہر پر ایک چادر ہے جس کے کنارے موٹے ہیں۔ ایسے میں ایک اعرابی راستہ کاٹتے آپ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے چادرکا کنارہ پکڑ کر زور سے جھٹکا دیتا ہے، اتنے زور سے کے آپ کے گردن اور شانوں پر چادر کی کور سے نشان پڑ جاتے ہیں۔ آپﷺ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ اجڈ لہجے میں سوال کرتاہے، ”خدا کا دیا ہوا جو مال تیرے پاس ہے، اس میں سے میرے دونوں اونٹوں پر لاد دے اور یہ بھی سن لے کہ جو کچھ تو مجھے دے گا وہ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں ہے۔“ اس بدوی کی گستاخانہ انداز گفتگو سن کر بھی آپﷺ کے چہرے پر کوئی شکن نمودار نہیں ہوتی ہے۔ بس زبان مبارک سے اتنا کہتے ہیں ”بے شک مال اللہ کا ہے، اور میں اس کا بندہ ہوں، مگر اے اعرابی! تو بتا کیا تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے؟“ وہ بغیر کسی تاثر کے کہتا ہے، ”نہیں۔“ آپﷺ پوچھتے ہیں ”کیوں نہیں؟“ وہ بے باک ہو کر کہتا ہے(کیونکہ وہ جانتا ہے اس کے سامنے کوئی اورنہیں رحمت اللعالمین محمد مصطفےٰﷺ ہیں۔) ”اس لئے کہ تو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا۔“ یہ سن کر سردار الانبیا ﷺ کے چہرے پر ہنسی نمودار ہوجاتی ہے، آپ مسکراتے ہوئے اپنے ماتحین کو حکم دیتے ہیں ”اس کے ایک اونٹ پرجو اور ایک پر کھجوریں لاد دو۔“
مسجد نبوی کے پر جلال منبر پر فاروق اعظمؓ خطبہ دے رہے ہیں
دوسرا منظر: دربار خلافت سجا ہوا ہے۔ مسجد نبوی کے پر جلال منبر پر فاروق اعظمؓ خطبہ دے رہے ہیں، ایک بدو کھڑے ہو کر کہتا ہے ”اے عمر ؓ! نہ میں آپ کی بات سنتا ہوں نہ اطاعت کرتا ہوں۔“ آپ ؓ ؓاپنے چہرے پر بغیر کوئی شکن لائے پوچھتے ہیں، ”کیوں؟“ بدو کہتا ہے، ”یمن سے جو چادریں آئی تھیں ان میں سے صرف ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی، اس چادر سے قمیص نہیں بن سکتی، مگر آپ ؓ نے اس چادر کی قمیص پہن رکھی ہے، یقینا آپ ؓ نے اپنے حصہ سے زائد کپڑا لیاہے۔“ حضرت عمرؓ پر سکون انداز میں کہتے ہیں، ”اس کا جواب میرا بیٹا عبداللہ دے گا۔“ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کھڑے ہوکر کہتے ہیں، ”واقعی میرے باپ کی قمیص ایک چادر میں نہ بنتی، میں نے اپنے حصے کی چادر انہیں دے دی تھی اس طرح ان کی یہ قمیص بنی ہے۔“ یہ جواب سن کر بدو پھر اٹھ کر گویا ہوتا ہے۔”اب میں آپؓ کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں۔“
اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں، تو کیا کروگے؟
ایک اور منظر:” لوگو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں، تو کیا کروگے؟“ منبر پر کھڑے ہوکر خلیفہ وقت فاتح عرب و عجم فاروق اعظمؓ اپنے پر وقار لہجے میں سوال کررہے ہیں۔ یہ سنتے ہی ایک نامعلوم شخص کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی تلوار نیام سے کھینچ کر کہتا ہے، ”اسی وقت تمھارا سر اڑا دونگا۔“ آپؓ اسی لہجے میں گویا ہوتے ہیں، ”تُو امیرالمومنین کی شان میں گستاخی کر رہا ہے، تجھے پتہ بھی ہے کہ تو کس سے مخاطب ہے۔“ وہ نامعلوم شخص اسی جراء ت و بہادری کے ساتھ کہتا ہے۔”ہاں! ہاں! میں آپ سے مخاطب ہوں۔“ یہ سن کر فاروق اعظمؓ پر سکون لہجے میں فرماتے ہیں؛”رب قدوس کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں گے۔“
حاکم اور مقتدر طبقے پر سوال کھڑے کرنا
حاکم اور مقتدر طبقے پر سوال کھڑے کرنا کسی بھی معاشرے اور سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ جب تک معاشرہ حاکم اور مقتدر طبقے پر سوال کھڑا کرتا رہتا ہے تب تک وہ معاشرہ پر امن طریقے پر تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے اور اس کی سوچ میں پاکیزگی اور بلندی کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ عوام میں جراء ت و بہادری باقی رہتی ہے اور ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کا داعیہ بیدار رہتا ہے۔ لیکن جونہی سماج میں سوال کھڑے کرنے کا رجحان ختم ہونا شروع ہوتا ہے معاشرہ تنزلی کا شکار ہو کر کئی اخلاقی برائیوں کا گڑھ بن جاتا ہے، حاکم اور مقتدر طبقہ من مانی پر اُتر آتا ہے، جس کی وجہ سے عوام میں منفی جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں، سماج میں سکون غارت ہوجاتا ہے اور معاشرے کی ترقی کی رفتار یا تو دھیمی پڑ جاتی ہے یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
اس پس منظر میں اور اوپر درج کئے گئے واقعات کو ذہن میں رکھ کر اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہمیں خود اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وطن عزیز کے حاکم اور مقتدر طبقے کی تو بہت بعد کی بات ہے اگر ہم صرف اور صرف خالص اپنے آپ کا احتساب کرنا شروع کردیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ہم اپنی تاریخ اور روایات سے کتنے جڑے ہوئے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں سے لے کر چھوٹے بڑے تمام فلاحی اداروں اور تنظیموں میں، مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں میں، جو حاکم اور مقتدر طبقہ ہے وہ سوال کھڑے کرنے والوں سے ایسے بدکتا ہے جیسے وہ کوئی عفریت ہوں۔ ان کی پہلی اور آخری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی پارٹیوں اداروں تنظیموں مسجدوں مدرسوں اور خانقاہوں میں کوئی سوال کھڑا کرنے والا داخل نہ ہوجائے۔ اس کے لئے وہ جتنا فکر کرتے ہی اس کا عشر عشیر بھی اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرنے میں لگا دیں تو قوم کا بہت بھلا ہوجائے گا۔جدت اور نیا پن لانے کے نام پر نام نہاد نئے قانون اور اصول وضع کر کے اور اس پر اپنے لیمو نچوڑوں کی ہم نوائی کامہر لگا کر یہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح کوئی سوال کھڑے کرنے والا ان کے بیچ نہ آ بیٹھے۔ حالانکہ یہی بزعم خود حاکم اور مقتدر طبقہ کہلانے والے اسٹیج اور منبروں پر جب آتے ہیں تو آپ ﷺ کے اخلاق کی دہائی دینے لگ جاتے ہیں، ایک اعرابی کے گستاخانہ سوال پر بھی آپﷺ کی جانب سے اس کی دلجوئی کی، فاروق اعظم ؓکے آگے بدوؤں کے سوال کھڑے کرنے والے جذبے کی یوں ستائش کرتے ہیں جیسے وہ آپ ﷺکی اس سنت پر اور فاروق اعظم ؓ کے طرز عمل پر عامل ہونے کے لئے بے قرار ہیں۔لیکن حقیقت میں یہ ان کی منافقت ہوتی ہے، ان کو سوال کھڑے کرنے والوں سے اتنی چڑ ہوتی ہے کہ وہ اس کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے۔ اگر وہ غلط نہیں ہیں اور ان سے کچھ غلط صادر بھی نہیں ہورہا ہے تو ان کا یہ طرز عمل آخر کس بات کی پردہ پوشی کا طلب گار ہے۔
سوال کھڑے کرنا کبھی ہماری فطرت کا حصہ
سوال کھڑے کرنا کبھی ہماری فطرت کا حصہ تھا مگرآج ہم اس جذبے سے مکمل خالی ہوگئے ہیں۔ بحیثیت عوام ہم میں سوال کھڑے کرنے کی جراء ت اور ہمت نہیں رہی، ہم بزدل اور نکمے ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اداروں، تنظیموں، مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں میں غلط ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن طاقت رکھتے ہوئے بھی ہم میں اتنی اخلاقی جراء ت نہیں بچی کہ اس پر سوال کھڑا کریں۔ ایک خاموش تماشائی کی طرح ہم ہر ظلم اور زیادتی پر سے یہ کہتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ ہم جس پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اس کے خلاف آواز بلند کر کے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ پتہ نہیں ہم میں اپنے معاشرے اور سماج سے اتنی بے اعتنائی اور بے رخی کیوں پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری اس بزدلی اور کم ہمتی سے در حقیقت نقصان ہمارا ہی ہورہا ہے، ہم پر ایسے لوگ مسلط ہورہے ہیں جن کے شر سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں ہمارا معاشرہ ہمت اور جراء ت والا معاشرہ بنے، ہم میں اخلاقی حمیت اور خیالات کی پاکیزگی پیدا ہو، نفا ق اور بزدلی ہمارے دلوں میں گھر نہ بنائے تو ہمیں سوال کھڑا کرنے اور سوال کھڑا کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنی ہوگی۔ ہر قسم کے تعصب اور عصبیت سے اوپر اُ ٹھ کر اپنی پارٹیوں، اداروں، تنظیموں، مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں کو قرون اولیٰ کے طرز پر اظہار رائے کی مکمل آزادی دے کر ان کی از سر نو ترتیب دینی ہوگی۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہم میں اور ہماری نسلوں میں، کم ہمت، بزدل، اخلاقی جراء ت اور حمیت سے عاری، غلامانہ ذہنیت کے حامل ہی پیدا ہوتے رہیں گے۔
0 تبصرے