Ticker

6/recent/ticker-posts

یوپی کا موجودہ الیکشن، اور وہاں کے مسلمانوں کی ذمے داری

یوپی کا موجودہ الیکشن، اور وہاں کے مسلمانوں کی ذمے داری

بصیرتیں ہوں میسر تو سن سکو تم بھی
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ

جب سے ہندوستان میں زعفرانی پارٹی اور ان کے ہمنوا پارٹیوں کو عروج و اقتدار حاصل ہوا ہے، اس وقت سے ہندوستان میں مسلمان اور اقلیتی طبقہ کے لوگ اپنے کو غیر محفوظ غیر مطمئن محسوس کر رہے ہیں، حالیہ چند سالوں میں ملک کی جو خطرناک صورت حال بنی ہوئی ہے، وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے، اراجکتا اور بے اطمنانی و بے سکونی کا ماحول ہے، ناانصافی اور ظلم و اتیا چار کا لا متناہی سلسلہ ہے، لیکن افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کو برا جان اور سمجھ رہے ہیں، یعنی سنجیدہ اور غیر متعصب بردارن وطن یعنی انصاف پسند ہندو بھائی وہ بھی خاموش ہیں اور ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔۔

 دوسری طرف ملک کو ایک خاص نظریہ کا پابند بنانے کی کوشش بھی جاری ہے، جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کی بھی جدوجہد جاری ہے، پلانگ یہ ہے کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنا دیا جائے اور مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے، وہ اس ملک میں بغیر اپنی تہذیب اور ملی شناخت کے رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں، ان کو یہاں دوسرے درجہ کی شہریت دینے کے بھی قائل نہیں ہیں، جیسا کہ خفیہ ایجنڈے سے پتہ چل رہا ہے اور جس کی عملی کوشش بھی جاری ہے۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی قابل اعتبار اور قابل اعتماد نہیں ہے، کسی کے یہاں گرم ہندوتوا ہے تو کسی کے یہاں نرم ہندوتوا، سبھی مسلمانوں کو اچھوت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، سب کے اپنے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی کے قول و عمل پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے، سب مفاد کے غلام اور ہوس کے پجاری ہیں، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔۔۔

اتر پردیش کا موجودہ ریاستی چناوُ

اس وقت اتر پردیش کا موجودہ ریاستی چناوُ اہل یوپی کے لیے ایک چیلنج ہے، ان کے سیاسی شعور کا امتحان ہے، اس ملک میں ان کے وجود و بقا کے لیے ایک جنگ ہے، اس وقت ہماری تھوڑی سی لا پرواہی اور غفلت ہمیں حاشیہ پر پہنچا دے گی اور اس ملک میں آزادی کے ساتھ رہنا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔

اس لیے مسلمان ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں، اس کا صحیح استعمال کریں اور اس نکتہ پر نظر رکھیں کہ جب دو مشکل میں سے ایک کو اختیار کرنا مجبوری ہو تو اھون البلیتن کے قاعدہ کے تحت اس میں سے کم تر کو اختیار کرنا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔۔

بہت جلد اسی ماہ سے اگلے ماہ کے پہلے ہفتہ تک یوپی میں مرحلہ وار الیکشن ہونے جا رہا ہے، ایسے میں ہم کیا حکمت عملی اختیار کریں کہ ہمارا ووٹ ضائع نہ ہو اور زعفرانی پارٹیاں دوبارہ اقتدار کے قریب نہ پہنچ سکیں، اس سلسلے میں ہم چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔۔۔

ہندوستان میں مسلم قیادت اور مسلمانوں کی علحیدہ پارٹی کے قیام

ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلم قیادت اور مسلمانوں کی علحیدہ پارٹی کے قیام کا تجربہ بالکلیہ نہیں کیا گیا، اسکے لئے کوشیش کی گئیں، لیکن اندازہ یہ ہوا اور تجربہ یہ سامنے آیا کہ ملک میں آبادی کی جو صورت حال ہے، اس میں خالص مسلم پارٹی کی بنیاد پر سیاست کرنا کسی طرح بہتر نہیں ہے، یہاں جمہوری طاقتوں اور پارٹیوں سے مل کر اقتدار میں شراکت یہ زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔

موجودہ وقت میں چند ریاستوں اور علاقوں کو چھوڑ کر تنہا مسلم پارٹی کی سیاست بہتر نہیں ہے، جو لوگ عجلت اور جذبات میں آکر فوری مسلم پارٹی اور قیادت کی بات کرتے ہیں اور جیت کے امکانات لگائے بیٹھے ہیں وہ بھول اور اٹکل میں ہیں، اور صرف جذباتیت کے شکار ہیں انجام و عواقب پر ان کی نظر نہیں ہے۔

اس وقت جس حلقہ میں مسلم پارٹی کا امید وار ہے، یا آزاد مسلم امید وار ہے، لیکن اس کی جیت کے امکانات نہیں ہیں، وہاں مسلمانوں کا مسلم امید وار کو ووٹ کرنا اپنے ووٹ کو ضائع کرنا ہے، اس لیے وہاں سیکولر محاذ کو ووٹ کرنا چاہیے۔

اگر کسی حلقہ میں مسلمان پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ہیں اور وہاں کئی مسلمان امید وار ہیں تو بہتر ہوگا کہ وہاں اس مسلم امید وار کو ووٹ دیا جائے، جس کے اندر جرات و ہمت ہو وہ ایوان اور اسمبلی میں پوری طاقت کے ساتھ ملت کی ترجمانی کرسکے۔۔ بہر حال آزاد اور مسلم پارٹی کا جیتا امیدوار جتنی طاقت کے ساتھ اپنی بات رکھ سکتا ہے، وہ کسی پارٹی کا جیتا امید وار نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ بہت سی سیکولر پارٹیاں بھی اپنے نمائندے کو کھل کر بولنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

محمد قمر الزماں ندوی
محمد قمر الزماں ندوی

تقسیم اور انتشار سے زعفرانی پارٹی کی جیت یقینی ہو جاتی ہے

جس پارٹی کو ووٹ دینے کی وجہ سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہو، مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے انتشار ہوتا ہو، اور اس تقسیم اور انتشار سے زعفرانی پارٹی کی جیت یقینی ہوجاتی ہو، اس پارٹی کو ووٹ دینے کی غلطی مسلمان ہرگز نہ کریں۔ ماضی میں مہاراشٹر اور بہار وغیرہ میں مسلمان یہ غلطی کر چکے ہیں۔ اب دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں۔ جھارکھنڈ اور بنگال کے مسلمان اور سیکولر ووٹروں نے جس عقلمندی اور ہوشمندی کا ثبوت دیا اسی کا مطالبہ اترپردیش کے مسلمانوں سے کیا جارہا ہے۔

اس وقت اصلا دو ہی محاذ اور گٹبندھن ہیں، جن میں اصل مقابلہ ہے، تیسرا اور چوتھا محاذ صرف چھلاوا ہے، وہ اسی زعفرانی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ہے، جس نے اس کو مصلحتاً الگ سے لڑایا ہے۔۔ تاکہ وہ بعد میں اس سے مل جائے اور اس کو مضبوط کرے۔۔۔۔ اس لیے تیسرے اور چوتھے گٹبندھن کو ووٹ کرنا بیوقوفی اور نادانی ہے، اکر کسی حلقہ سے کانگریس مضبوط ہو اور وہاں اس کی جیت کے ہی امکانات روشن ہو تو اس کو جتانا ہی بہتر ہوگا۔ مجلس کی جیت جہاں ممکن ہو اور وہاں مسلمانوں کا ووٹ یقینا فیصلہ کن ہو اور سیکولر ووٹ کے ملنے کے امکانات ہوں چار پانچ سیٹیں یا زیادہ سے زیادہ دس مقامات ایسے ہیں، وہاں مجلس کے حق میں ووٹ کریں، جیسا کہ جناب مولانا سجاد صاحب نعمانی نے بھی اپنے مکتوب میں اشارہ کیا ہے۔

مسلمان خاموش طریقہ سے اپنے ووٹ کو متحد کریں، توریہ اور اشارہ و کنایہ والی زبان بھی مصلحتاً استعمال کریں، جس کی ایک گنا اجازت ہے، کیونکہ موجودہ سیاست ایک جنگ ہے اور جنگ میں تدبیر اور توریہ جائز ہے، بھیڑ ہر جگہ لگائیں لیکن ووٹ سوچ سمجھ کر دیں، بھیڑ دیکھ کر متاثر نہ ہوں۔۔

علاقائی پارٹی کے مقابلے میں مرکزی اور نیشنل پارٹی کو زیادہ اہمیت دیں، کیونکہ آر ایس ایس اور بھاجپا کانگریس مکت بھارت بنانا چاہتی ہے، اس کو مرکزی پارٹیوں کو بے دخل کرنا مشکل لگ رہا ہے، لیکن علاقائی پارٹیوں کو کمزور اور بے اثر کرنا اس کے لیے آسان ہے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ صوبائی پارٹیوں کو اسمبلی میں زیادہ ووٹ کریں اور مرکز میں نیشنل پارٹیوں کو زیادہ مضبوط کریں۔۔ اگر دونوں کا گٹبندھن ہے تو پھر دونوں کو مضبوط کریں۔ ایک نظریہ یہ سامنے آرہا ہے کہ مجلسی وفادار اور سپورٹرز صرف کانگریس اور بھاجپا کے موجودہ وقت میں اصل مد مقابل، سپا کی کمیاں اور خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کو ان سے بدظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو بھاجپا سے زیادہ خطرناک ثابت کر رہے ہیں، یہ رویہ بالکل منفی ہے اور کم علمی پر موقوف ہے، یقینا یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کے حق میں مخلص نہیں ہیں لیکن زعفرانی پارٹیوں زیادہ خطرناک بتانا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔

جس حلقہ میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور مسلمان وہاں کسی سیکولر پارٹی سے جیتے آرہے ہیں اور وہ اس علاقے میں مسلمانوں اور کمزورں کی آواز ہیں، قد آور نیتا ہیں، ان کو جتانے کی ہی کوشش کریں اگر وہاں نیا تجربہ کریں گے تو قوی امکان ہے کہ فسطائی پارٹی بازی مار لے اور آپ منھ دیکھتے رہ جائیں۔ ممکن ہے بلکہ یقینی ہو کہ اس مسلمان لیڈر میں کمیاں اور خامیاں ہوں، لیکن اس وقت کمیوں اور خامیوں کو نظر انداز کیجئے۔ انہوں نے جو ادارہ اور یونیورسٹی قائم کی ہے اس کی حفاظت ضروری ہے وہ قوم کا ورثہ ہے۔

اس وقت مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کے لیے ایک سے ایک چالیں چلی جارہی ہیں اور خوب حربے اور تماشے کیے جارہے ہیں، ڈرامے رچے جارہے ہیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے تئیں ہمدرد بنانے کے لیے شطرنج کا کھیل بھی کھیلا جارہا ہے کہ کسی طرح یہ الیکشن بیس / 20 بمقابلہ اسی/ 80 ہوجائے، اور مسلمانوں کا ووٹ منتشر ہوجائے۔لیکن ہمارے یہ جذباتی نوجوان اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بصیرت اور بصارت میں فرق ہے، کسی واقعہ سے اہل بصیرت کچھ اور نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور ظاہر بیں کچھ اور انداز میں اس کو لیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد سابقہ روش کی طرح اکثر اہل مجلس مجھے گالیاں دیں گے، کانگریس اور سپا کا ایجنٹ بھی کہیں گے لیکن مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ میرا تو مسلک اور پیغام ہے۔

نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
مجھ کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں
(جاری)
ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل، سوسائٹی، جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے