Ticker

6/recent/ticker-posts

اترپردیش اسمبلی انتخاب اور ہندوستان کے موجودہ حالات

اترپردیش اسمبلی انتخاب اور ہندوستان کے موجودہ حالات

"ہم کو آئینہ دکھانا دکھا دیتے ہیں"

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

اترپردیش اسمبلی کے موجودہ انتخاب پر راقم نے اب تک جو کچھ لکھا، اور ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر میں اہل یوپی کو جو مشورہ دیا اور جھارکھنڈ اور بنگال رول ماڈل اختیار کرنے کا جو سجھاو دیا ہے، الحمدللہ اکثر قارئین نے اس کو پسند کیا اور بہتر رائے اور مشورہ تسلیم کیا، ایک دو لوگوں نے سنجیدہ انداز میں نقد بھی کیا اور یہ باور کرایا کہ آپ مسلم پارٹی کے مقابلے میں کانگریس اور سپا کو فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور مسلمانوں کو کانگریس اور سماج وادی کی حمایت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔۔ پہلی بات میں یہ واضح کر دوں کہ سیاست سے اور کسی پارٹی سے میرا کوئی تعلق اور لینا دینا نہیں ہے، نیتا نگری یا نیتاووں کے آگے پیچھے کرنا یہ کام میں نے کبھی نہیں کیا، میں خالص مدرسہ کا ایک استاد ہوں، پڑھنا پڑھانا میرا مشغلہ ہے، فرصت میں کوئی دینی یا علمی مضمون لکھ کر آپ قارئین باتمکین کی خدمت میں بھیج دیتا ہوں۔ سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم لکھتا ہوں، کیونکہ ان کی افادیت وقتی ہوتی ہے اور اس فن سے زیادہ واقفیت بھی نہیں ہے۔۔۔

الدین النصیحۃ (دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے)کے تحت سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے، بڑوں کے اصرار پر ان دنوں اس نوعیت کے مضامین لکھ رہا ہوں۔۔۔۔ بڑوں کا حکم ہے کہ کو موجودہ اترپردیش چناوُ میں اہل جھارکھنڈ و بنگال کی روش اور طرز پر چلنے کے لیے اہل یوپی کو امادہ کروں۔۔۔ تاکہ فرقہ پرست طاقت کو ناکامی ملے۔۔۔


آج کی مجلس میں سیاسی پارٹیوں کے سلسلے میں اپنے نقطۂ نظر کا اظہار بھی کروں گا اور موجودہ وقت میں صحیح ترجیحات اختیار کرنے کے سلسلے میں اپنی رائے بھی رکھوں گا۔۔۔

محمد قمر الزماں ندوی

بی جے پی کا ایجنڈا تو بالکل واضح ہے، اس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر ہے، پورے اتر پردیش میں شاید ایک آدھ مسلمان کو چھوڑ کر اس نے کسی اور کو امید وار بنایا ہو۔۔ یہ ایسی پارٹی ہے جس کا منشور اور ایجنڈا آر ایس ایس کی طرف سے طے ہوتا ہے، وہی اس کا سنچالک ہے، اور آر ایس ایس کی پلاننگ کیا ہے، وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے؟۔۔ وہ چاہتی ہے کہ اس ملک میں ہندو راشٹر کا قیام ہو، یکساں سول کود کا نفاذ ہو، اس ملک کا اقتدار اکثریتی فرقہ کے ہاتھ میں ہو، اقلیتیں اکثریت کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہیں اور اپنی ملی شناخت اور شعار کو کھو دیں۔۔ جس پارٹی کی ماسٹر ۰۰کی ۰۰ آر ایس ایس کے پاس ہو، اس کو مضبوط کرنا یا مضبوط کرنے کا ذریعہ بننا ایک مسلمان کے لیے انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہوگا۔۔۔


پچھلے چند سالوں پہلے کچھ لوگ مختلف نام نہاد سیکولر پارٹی یوں کی طرف سے مسلمانوں کے استحصال کو دیکھتے ہوئے کہتے تھے کہ ایک بار بی جی پی کا یا نریندر مودی جی کا تجربہ کر لینے میں کیا حرج ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر یہ صرف جوش اور جذباتیت کی بات تھی، اب معلوم ہو رہا ہے کہ یہ عمل ایسا ہی رہا جیسے تجربہ کے لیے کسی شخص کا آگ میں کودنا اور زہر کا کھانا تھا۔۔۔

جہاں تک کانگریس پارٹی کی بات ہے، جس نے نصف صدی سے زیادہ حکومت کیا، اس پارٹی کا کردار ہمیشہ منافقانہ اور مشکوک رہا ہے، یہ ہمیشہ باہر سے نرم ہندتوا کا قائل رہا، لیکن اس کے اکثر لیڈران اندر سے گرم ہندتوا ہی کے ترجمان رہے۔۔ کانگریس پارٹی میں فرقہ پرستی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں مشکل ہی سے سیکولر پارٹی کا نام دینا پڑتا ہے۔۔ ماضی قریب میں بھی مرکز میں دس سال یہ پارٹی اقتدار میں رہی، لیکن اس وقت بھی مسلمانوں کا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا اور فرقہ پرستوں پر کوئی نکیل نہیں کسا جس کا خمیازہ آج ہم مسلمان بھگت رہے ہیں، ( بلکہ خود کانگریس بھگت رہی اور شکست و ادبار کی مار جھیل رہی ہے، )۔ بلکہ بعض جہتوں سے کانگریس نے مسلمانوں کے خلاف سخت قانون بنایا، جس کے نتیجے میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی اور ان کو خواہ مخواہ جیل میں قید و بند اور مشقت والی زندگی گزارنی پڑی۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود موجودہ حالت میں انہیں کم تر درجہ کی برائی قرار دیا جاسکتا ہے، اور اھون البلیتن کے اصول کے تحت بی جے پی کے مقابلے میں اس کو ووٹ دینا اور کامیاب کرانا ضروری ہوگا۔ اسی طرح ان علاقائی پارٹیوں کو جیت دلانا اور حمایت کرنا زیادہ بہتر ہوگا، جو نام نہاد ہی سہی، لیکن سیکولر کہلاتی ہے، اور جس کے منشور میں فرقہ پرستی کے زہر نہیں ہیں۔کیونکہ مسلم دشمنی جس پارٹی کے ایجنڈے اور منشور کا حصہ ہو ظاہر ہے، کہ اس کی دشمنی بڑھی ہوئی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو مجبوری کے درجہ میں فہم و فراست کے ساتھ ان جیسی پارٹیوں کو لے کر چلنا ہوگا۔۔


اس ملک کی عوام کے لیے سب سے بہتر ہوتا کہ کثیر جماعتی حکومت کا نظام ہوتا، جس میں صرف دو کی طاقت نہیں ہوتی، یعنی تیسرا مضبوط محاذ ہوتا، لیکن بدقسمتی سے یہاں تیسرا محاذ مضبوط محاذ نہیں بن سکا اور ہمیشہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوکر ٹکڑوں تکڑوں میں بٹ گیا۔۔۔۔

اب صورت حال یہ ہے کہ عملا اس وقت ملک دو جماعتی طرز حکمرانی میں سمٹ گیا ہے اور کبھی کوئی محاذ بنتا بھی ہے، تو انہیں دونوں میں سے کسی ایک کو مضبوط کرنے کے لیے۔، کمیونسٹ پارٹیوں کے زوال کے بعد تیسرے محاذ کا وجود اب بظاہر نامکمن سا نظر آرہا ہے۔۔ ان حالات میں مسلمانوں کو نہایت حکمت، دور اندیشی اور عقل و تدبر سے کام لینے اور قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ علم و حکمت کی بات یہ نہیں کہ آدمی شر کے مقابلہ میں خیر کو اختیار کرلے۔۔ بلکہ دانائی یہ ہے کہ جہاں دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر انسان مجبور ہو وہاں کمتر برائی کا انتخاب کرکے بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچا لے۔۔ ( متاع فکر و نظر ۱۳۲/۱۳۳)

اس وقت اگر اترپردیش کے مسلمانوں نے نور بصیرت اور فراست ایمانی سے کام نہیں لیا اور جذبات اور نعروں میں بہہ گئے تو پھر مستقبل میں اس کے دور رس اور خطرناک نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔۔ ضرورت ہے کہ ہم سب حقیر اور وقتی سیاسی مفاد سے بلند ہوکر ملت کے مفاد کے لیے اتحاد و اجتماعیت کا ثبوت دیں اور ملت کی ڈوبتی اور ہچکولے کھاتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے مومنانہ اور مخلصانہ کوشش کریں۔۔۔۔۔
میرا تو بس ایک ہی پیغام ہے۔۔۔

نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے