Ticker

6/recent/ticker-posts

زبان پر قابو اور کنٹرول : اخلاقیات پر احادیث

خدارا ! زبان پر قابو رکھئیے : اخلاقیات پر احادیث


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ نجات اور کامیابی کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : املک علیک لسانک و لیسعک بیتک وابک علی خطیئتک ۔۔۔۔۔ ترمذی۔۔۔۔۔۔

اپنی زبان پر قابو رکھو، اور چاہیئے کہ تمہارے گھر میں گنجائش ہو، اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔

نجات کامیابی اور رہنمائی کے لئے یہ حدیث گائیڈ لائن

آج کے حالات میں ہماری نجات کامیابی اور رہنمائی کے لئے یہ حدیث گائیڈ لائن اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اگر اس حدیث میں جو رہنما اور بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں، ان پر عمل کرلیا جائے خاص طور پر آج کے حالات میں، تو انسان آخرت میں تو کامیاب ہوگا ہی دنیا کے بہت سے جھمیلے، لعن طعن اور ٹینشن سے محفوظ رہے گا اور لوگوں میں بدنامی اور بے عزتی و جگ ہنسائی سے بھی مامون و محفوظ رہے گا۔

اس میں پہلی چیز ہے زبان پر قابو اور کنٹرول اسی لئے آپ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من صمت نجا، جس نے خاموشی اختیارکی وہ نجات پاگیا۔۔۔۔۔ترمزی، دارمی، مسند احمد۔۔۔۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس کے کہنے سے اس کی غرض محض لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ (دوزخ میں) گرتا ہے اتنی دوری سے جتنی دوری کہ زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اور وہ اپنی زبان کے سبب سے اس سے کہیں زیادہ شدت سے پھسلتا ہے جتنا وہ اپنے قدم سے پھسلتا ہے۔۔۔۔۔۔ البیھقی فی شعب الایمان۔۔۔۔

اسلام کی سماجی تعلیمات

اسلام کی سماجی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ انسان یا تو اچھی بات کرے، نیکی و بھلائی کی بات کرے ورنہ خاموش رہے، اگر گفتگو اچھی نہیں ہے تو اس سے بہتر خاموش رہنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری شریف باب الادب)

فضول، لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز

فضول، لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا ایک مہذب اور شریف انسان کے لیے ضروری ہے۔ کامیاب مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے، و الذین ھم عن اللغو معرضون، وہ لوگ لغو باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔

فضول اور لایعنی باتوں سے اجتناب

رسول اللہﷺ نے فضول اور لایعنی باتوں سے اجتناب کرنے کو اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بتایا ہے، من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ ترمذی باب الزہد۔ انسان کے اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو ترک کرے۔

حدیث شریف

حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی کوئی بات کہتا ہے، جسے وہ خود بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا، مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی بات کے سبب اس کا درجہ بلند کردیتا ہے، اسی طرح ایک بندہ اللہ کی ناراضگی کا کوئی جملہ اپنے منھ سے نکالتا ہے، جسے وہ بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا، مگر اس کے سبب اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔


مشہور شاعر سلیمان خطیب نے اس حدیث رسول ﷺ کی ترجمانی اپنے اشعار میں بہت اچھے انداز میں کی ہے، وہ کہتے ہیں:

بات ہیرا ہے بات موتی ہے
بات لاکھوں کی لاج کھوتی ہے
بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے
بات سینہ کا داغ ہوتی ہے
بات خیر و ثواب ہوتی ہے
بات قہر و عذاب ہوتی ہے
بات برگ گلاب ہوتی ہے
بات تیغ عتاب ہوتی ہے
بات کہتے ہیں رب ارنی کو
بات ام الکتاب ہوتی ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے
بات مشکل سے بات ہوتی ہے

محمد قمرالزماں ندوی

لیکن سماج میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ لوگ اپنی زبان کو بے تحاشا چلاتے ہیں، ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے، غصہ، نفرت، حسد، بغض اور منافرت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، انہیں اس وقت اللہ کا خوف نہیں ہوتا، دل آزاری اور توہین و تذلیل کے جملے استعمال کرنے میں انہیں مزہ آتا ہے سکون ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یاد رہے کہ، انسان کو زبان سے نامناسب نازیبا اور ناپسندیدہ بات کہنے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ لیکن اس غیر مناسب اور نازیبا گفتگو سے وہ خدا کی نگاہ سے گرجاتا ہے اور اپنی آخرت تباہ کر ڈالتا ہے۔ زبان کی لغزش کوئی معمولی لغزش اور چوک نہیں ہے۔

اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ دنیا میں انسان کی ذمہ داری اور پوزیشن کتنی نازک ہے۔ ذرا سی غفلت سے معاملہ کتنا نازک اور خطرناک ہوجاتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالٰی نے جو عزت و مرتبہ اور شان و شوکت عطا کی ہے، اس کا لازمی اور فطری تقاضا ہے کہ وہ ایسا کوئی عمل اور کام نہ کرے اور اپنی زبان پر کوئی ایسی گفتگو اور بات لانے کا بھی روا دار نہ ہو جو اس کے شایان شان نہ ہو۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی بھی شخص اس معاملہ میں بے پروائی سے کام لیتا ہے تو خود اس کی ذات اور شخصیت کو نقصان پہنچتا ہے۔


یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قدم کا پھسلنا اتنا زیادہ خطرناک اور اندیشہ ناک نہیں ہوتا، جتنا زبان کا پھسلنا آدمی کے لئے مہلک اور مضر ثابت ہوتا ہے۔ قدم کے پھسلنے سے آدمی صرف زمین پر گرتا ہے۔ اسے جسمانی چوٹ ہی آسکتی ہے یا آتی ہے، لیکن زبان کی لغزش آدمی کے وقار، عظمت، شان و شوکت اور شخصیت ہی کو مجروح کر دیتی ہے۔ اور ہم کسی کے لئے اس سے بڑے کسی نقصان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

بے شمار فتنے اور ناموافق حالات ایک زبان کی وجہ سے اٹھتے ہیں۔ یہ زبان انسان کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے، جہاں سے بچنے کی کوشش وہ پوری زندگی کرتا ہے۔

علماء نے لکھا ہے : اللسان جرمہ صغیر و جرمہ کبیر

زبان کا عضو چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کے جرم و گناہ بھاری اور بہت ہوتے ہیں۔ جھوٹ، غلط بیانی، دروغ گوئی اور فضول گوئی کی تو اس دین اور شریعت میں کوئ گنجائش ہے ہی نہیں۔ لیکن وہ باتیں بھی جو مفید ہوتی ہیں، ان میں بھی مبالغہ، ریا، نمائش، تصنع وغیرہ کتنی ہی آفات کی آمیزش کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ خاموشی بے شمار آفتوں اور مصیبتوں سے آدمی کو نجات دلاتی ہے۔ (مستفاد کلام نبوت جلد دوم)

حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلعم!

جن چیزوں کو آپ میرے لئے خوفناک خیال فرماتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک کون سی چیز ہے؟ حضرت سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا، یہ،۔ ( ترمذی )

زبان کے غلط اور بے محل استعمال کا فتنہ

حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ زبان کے غلط اور بے محل استعمال کا فتنہ سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ انسان کا ہر فقرہ اور جملہ جو اس کی زبان سے ادا ہوتا ہے وہ اپنی تاثیر کے اعتبار و لحاظ سے شہد بھی ہے اور زہر بھی۔ اس کا انحصار اس شخص پر ہے جو زبان سے الفاظ ادا کرتا ہے۔ اس لئے زبان کے سلسلہ میں آدمی کو بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی الفاظ دلوں کو جوڑتے بھی ہیں اور دلوں کو توڑتے بھی ہیں۔

اس حدیث میں آخری دونوں جملے اور نصیحت، بھی آج کے حالات کے تناظر میں انتہائی اہم ہیں کہ فتنہ کے زمانے میں انسان کو جلوت چھوڑ کر خلوت اختیار کر لینا چاہئے اور خواہ مخواہ لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی بچنا چاہیے۔ اور فتنہ سے بچنے کے لئے اور اپنی نجات کے لئے انسان کو خدا کے حضور رونا اور گڑ گڑ نا چاہئے۔ اپنی غلطی کا جائزہ لینا چاہئے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے