Ticker

6/recent/ticker-posts

عکس ثانی : جناب نور الدین ثانی صاحب صالحپور پھلکا کٹیہار کا پہلا شعری مجموعہ کلام

عکس ثانی : جناب نور الدین ثانی صاحب صالحپور پھلکا کٹیہار کا پہلا شعری مجموعہ کلام

نور الدین ثانی کے شعری کائینات میں درد و کرب کی گرم لو چلتی ہے اور زندگی کو صحرا نورد بنادیتی ہے مگر اس سے شاعر کی آرزوئیں مضمحل نہیں ہوتیں بلکہ اس کی حوصلہ مندی اور مستقل مزاجی اُسے ہر قسم کی تمازت میں تپنے کے باوجود راحت بھرے لمحات کا یقین دلاتی ہے اور یہ یقین ہی نورالدین ثانی کی شاعری کو حوصلہ مند شعری رُجحان کا منفرد و مخصوص منصب عطا کرتا ہے ۔

ہر شاعر امکانات کی دنیا آباد کرتا ہے۔ اس اعتبار سے مختلف اور جدا طرز اظہار از حد ضروری قرار پاتا ہے۔ بہت کم شعرا کسی نئے منطقے کی دریافت کرتے ہیں۔ نور الدین ثانی نے اردو شاعری میں اپنے، خیال، اسلوب، ڈکشن اور تکنیک کی بنا پر نئے منطقے کو دریافت کیا ہے۔ عام طور پر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ سب شعرا ایک ہی رنگ و آہنگ میں شعر کہ رہے ہیں ۔ میں دعویٰ سے کہ سکتا ہوں کہ نور الدین ثانی کی شاعری عصری منظر نامے سے بہت مختلف ہے۔ اس کے پس پردہ خاص تجربات کارفرما ہیں۔ وہ ایک جدا فضا میں رہتے ہیں اور دراصل اپنے گرد ایک حصار قائم کر رکھا ہے۔ اس حصار میں وہی خیال آتے ہیں جنھیں وہ آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں یہ بات اس لیے کہ رہا ہوں کہ مقبول شاعری کی بازگشت ان تک بھی پہنچتی ہے مگر وہ اسے سننے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ میں ان کی کئی تخلیقات کا اولیں سامع ہوں اور اس بنا پر جانتا ہوں کہ ان کا شعری تخلیق کیسی ہوگی ۔ پیش ہے ان کے منتخب کلام
اللہ تعالی' کی وحدت ؂
تو ہے تنہا، یکتا، یگانہ
تیرے کن سے سارا زمانہ
۔
سو بات کی اک بات ہے ثانی
اللہ باقی سب ہے فانی


عشقِ نبی ﷺ ؂
ثانی کے پاس کچھ نہیں نیکی کے نام پر
کچھ ہے اگر تو وہ ہے محبت رسول ؐ کی
۔
نعتِ پاک پڑھتے تم ہر گھڑی رہو ثانی
دیکھنا تمہارے ساتھ کچھ برا نہیں ہوگا
بندگی اور عبادت ؂
جن کا پرنور عبادت سے جگر ہوتا ہے
ایسے لوگوں کی دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
 
aks-e-shani

اخلاقیات ؂
جس کا اخلاق ہی نہ بہتر ہو
وہ بشر ہے بھلا اماں چھوڑو
۔
اردو زبان سے محبت ؂
ترنم سے شہد ٹپکے تحت سے یہ فضا مہکے
سمجھ میں سب کو آجائے گی گر اردو زباں کر لیں
ماں کی دعا ؂
بلندی جو میں چھو رہا ہوں اے لوگو
مجھے میری ماں کی دعا لگ رہی ہے
۔
ماں کی جب دعا لےکر گھر سے میں نکلتا ہوں
راستے میں پھر کوئی حادثہ نہیں ہوتا
۔
جب تڑپ کر دعا ایک ماں نے ہے کی
پھر تو صحرا بھی پانی ابلنے لگا
مفلسی و لاچاری ؂
بھوک بچوں کی ماں سے نہ دیکھی گئ
آبرو بیچ دی مفلسی کے سبب
۔
مفلسی ملک سے جائے بھی تو جائے کیسے
حق غریبوں کا یہ نیتا ہی سٹک لیتا ہے
منافقت ؂
ہے یہ مرے پڑوسی کا محبوب مشغلہ
دیکھے کہیں شرارہ تو اُس پر ہوا کرے
۔
اس سے بڑھ کر کے غلط حالِ چمن کیا ہوگا
آبرو پھول کی مالی ہی اچک لیتا ہے
تنبیہ ؂
اپنے آنگن کا شجر کاٹنے والو سوچو
شام کو لوٹا پرندہ تو کدھر جائے گا
۔
امیرِ شہر لرز جائے گا فلک اس دن
اگر یتیم کی آنکھوں سے قطرہ نکلے گا
۔
کروگے ابھی سے جو ضد اس کی پوری
بگڑ جائے گا لاڈلا دیکھ لینا
قوم کی ناعاقبت اندیشی ؂
ہم اگر سمجھ جاتے وقت کی نزاکت کو
رہزنوں کے ہاتھوں میں قافلہ نہیں ہوتا
۔
عسرت ؂
ہم غریبوں کے گھروں میں صاحب
اور کیا رکھا ہے برکت کے سوا
قناعت ؂
تجھے اگر ہے ضرورت تو لے کے جا سورج
مجھے توکافی ہے جگنو مرے مکاں کے لئے
۔
مری غربت ہے عنایت تیری
تو اگر خوش ہے تو غربت ہی سہی
عشق / محبت ؂
میں دیوانہ عشق کا ہوں میاں مجھے ڈر نہیں کسی روگ کا
ہے یہ عشق گر کوئی روگ تو مجھے روگ پھر یہ لگا رہے
۔
یارو مجھ کو اکثر ایسا کیوں لگتا ہے سوچ رہا ہوں
آخر وہ ہی دل کو پیارا کیوں لگتا ہے سوچ رہا ہوں
۔
دل کو لگایا میں نے تو اس میں عجب ہے کیا
ہر ایک کو کسی نہ کسی سے ہے پیار دیکھ
حسن ؂
ان کے جمالِ حسن کو سوچو تو غور سے
الفت نہ ہوگئ تو غلامی قبول ہے
ہجر ؂
میرے شانے پہ اس کا سر گھنٹوں گھنٹوں رہتا تھا
ان آنکھوں نے ایسا منظر بھی قسمت سے دیکھا ہے
۔
ہے تقاضا یہی جدائی کا
اپنی یادوں میں اس کو زندہ رکھ
وصال ؂
عید کا چاند تیرا بہت شکریہ
اس کی دیدار کا اک بہانہ ہوا
بے وفائی ؂ 
 ڈھونڈتے ہو وفا یہاں ثانی
دوسرے کیا جہاں سے آئے ہو
۔
نفرت ؂
کل تلک بچھڑنے کا ڈر جسے ستاتا تھا
وصل آج کل اس کو ناگوار لگتا ہے
۔
اب پلٹ کر بھی وہ دیکھتا تک نہیں
میرا شانہ تھا جس کا ٹھکانہ کبھی
امید ؂
ذرا تو صبر سے ہمت سے کام لے اے دوست
یہیں سے دیکھنا منزل کا رستہ نکلے گا
ہمت / حوصلہ ؂
خلوص و وفا اور چاہت اگر ہو
بدل جائیں حالات ہمت اگر ہو
۔
تمنا اب اجالے کی کہیں سے اور کیا کرنا
چلو روشن چراغِ دل جلا کے خود یہاں کر لیں
۔
گلے لگاتی ہیں ان کو ہی منزلیں ثانی
جو لوگ حوصلہ اپنا بنا کے رکھتے ہیں
یقین ؂
خود اپنے آپ پہ ثانی یقین ہے مجھ کو
مری ہتھیلی سے اک دن اجالا نکلے گا
۔
جب مخالف ہوا ہو اے ثانی
ہے کرامت دیا جلانا بھی
۔
حادثو ! وہ بھی تم مرا رستہ
روک پاؤگے کیا اماں چھوڑو
زندگی کے مسائل ؂
کس کو فرصت ہے یہاں اب کون حالِ دل سنے
ہر کوئی الجھا ہوا ہے مسئلوں کے درمیاں

حالاتِ حاضرہ ؂
امیرِ شہر ایک جاہل بنا ہے
ہنر ثانی سنبھل کر تم دکھانا
۔
میں کہتا تھا کبوتر مت اڑاؤ
بچارا زخم کھا کر آ گیا نا
۔
بر محل اشعار ؂
محنتی لوگ بن گئے سورج
ہم ستارے شمار کرتے رہے
۔
مانا کہ دوست دوست ہوتا ہے
زخم لیکن نہیں دکھانے کا

ثاقب كلیم
خادم اردو کٹیہار

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے