Ticker

6/recent/ticker-posts

دبستانِ لکھنؤ کی شاعری کی خصصیات | دبستان لکھنو کا پس منظر

دبستانِ لکھنؤ کی شاعری کی خصصیات | دبستان لکھنو کا پس منظر

دبستان لکھنؤ کی خصوصیات
دبستان لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت دبستان دہلی سے بالکل الگ ہے۔دلی کی معاشی اور اقتصادی حالت بہت خراب تھی۔جب سے اردو پروان چڑھی دہلی ہر قسم کی آفتوں کا نشانہ بنتی رہی یہی وجہ ہے کہ جعفرزٹلی سے لیکر غالب اور داغ تک تمام ممتاز شعراء شہر آشوب لکھتے رہے۔بہادر شاہ ظفر کے درد بھرے نالے اسکے گواہ ہیں۔ایسے حالات میں جب کہ بادشاہ سے لے کر فقیر تک معاشی بدحالی میں گرفتار ہوں، روز روز انقلابات ہو رہے ہوں۔ایسے مقام کے باشندوں پر مایوسی اور ناکامی کا ہونا لازمی ہے۔اس کے برخلاف لکھنؤ میں تمام طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی تھیں، عیش و عشرت کا بازار گرم تھا۔اس لیے وہاں کے لوگوں میں سرمستی اور رنگین مزاجی کا ہونا لازمی تھا۔ان کا نظریہ زندگی کے متعلق مثبت تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دہلی میں تباہی تھی تو لکھنؤ میں تعمیر و ترقی۔اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دہلی کی شاعری آہ و غم کی شاعری ہے اور لکھنو کی شاعری واہ اور خوش مزاجی کی شاعری ہے۔

دبستان دہلی کی شاعری میں روحانی یا دلی جذبات کی کارفرمائی ہے اور لکھنؤ میں ظاہری حسن اور سراپا کا ذکر ہے۔دہلی کی شاعری کے لئے دلگداز ہونا ضروری ہے جبکہ لکھنؤ میں صرف طبیعت کا موضوع ہونا۔دلی کے شعراء نے حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ان کی شاعری داخلی ہے اسی لئے ان کے یہاں روحانی اور تصوفانہ مضامین زیادہ نظر آتے ہیں۔اس کے برعکس لکھنؤ کی شاعری میں سراپانگاری اور معاملہ بندی تک شعراء محدود نظر آتے ہیں۔

لکھنؤ کو مشرقی تمدن کا آخری نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔دراصل لکھنویت دہلویت کے مقابلے شعر و شاعری کا ایک دوسرا رخ ہے۔دہلی کے وہ شعراء جو لکھنؤ آ گئے تھے وہاں کی خوشحالی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔1765ء میں شجاع الدولہ نے فیض آباد کو دارالحکومت بنایا تو اس کی تعمیر میں لاکھوں روپے صرف کیے۔آصف الدولہ نے 1775ء میں لکھنؤ کو اپنا دارالحکومت بنایا تو وہ تمام شان شوکت لکھنؤ میں منتقل ہوگئی۔آصف الدولہ سے لے کر واجد علی شاہ تک کے زمانے کا لکھنؤ ایک رنگین خواب تھا اس لیے یہاں کے لوگوں میں رنگین مزاجی اور رنگین خیالی رچ بس گئی تھی۔اس ماحول نے وہاں کے شعراء کے خیالات کو بھی آلودہ کردیا اور آہستہ آہستہ فحاشی ایک مستقل صنف بن گئی اور فحش گوئی اور نسوانیت سے ملکر ‘ریختی’ کی بنیاد پڑی۔ریختی میں عورتوں کے احساسات و جذبات کو ان ہی کی زبان اور محاورے میں پیش کیا جاتا ہے۔

دبستان لکھنؤ کے شعراء نے اپنی تمام تر توجہ ظاہری خوبصورتی پر صرف کی،اندرونی احساسات و جذبات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔تکلف تصنع کو لکھنوی تہذیب و معاشرت میں زیادہ فوقیت دی گئی۔ناسخ کو لکھنوی شعراء میں استاد مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اصلاح زبان کی تحریک شروع کی اس کے پیش نظر انہوں نے ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کو خارج کرکے فارسی اور عربی کے الفاظ کو جگہ دی۔دبستان دہلی کے شعراء نے ہندی اور دوسری زبانوں سے بھی استفادہ کیا لیکن لکھنوی شاعری نے اصلاح زبان کے نام پر عربی اور فارسی کو اولیت دی۔لکھنوی شعراء کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے لغت پر زیادہ توجہ دی اور اسی کے مطابق زبان کی ادائیگی پر زور دیا۔جبکہ دہلی کے شعراء نے مروجہ زبان پر زیادہ توجہ دی۔

دبستان لکھنو میں مرثیہ کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔انیس اور دبیر نے اس صنف کو ترقی دی اور مرثیے کو رونے اور رولانے سے نکال کر نئی شکل عطا کی۔مدرسہ لکھنوی مزاج نے موسیقی اور رقص کو خاص طور سے اپنایا جس کی وجہ سے ڈرامائی نظم کی بنیاد ڈالی گئی۔دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ میں خاص فرق زبان کا ہے۔دلی میں بعض الفاظ جو مونث بولے جاتے تھے لکھنؤ میں مزکر کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دبستان دلی کے شاعری داخلی شاعری ہے اور دبستان لکھنؤ کی شاعری میں محبوب کی ظاہری صورت یا سراپا کو بیان کیا گیا ہے۔اپنا اصلی اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں دبستانوں کی اپنی اپنی شناخت ہے جس کی وجہ سے دونوں میں امتیاز کیا جاتا ہے۔

دبستانِ لکھنؤ کی شاعری کی خصصیات | دبستان لکھنو کا پس منظر

دبستان لکھنؤ کی شعری خصوصیات
دبستان لکھنؤ سے مراد شعر و ادب کا وه رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وه رنگ قدیم اردو شاعری اور دیگر دبستانِ شاعری سے بالکل مختلف ہے۔

جب لکھنؤ مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز دہلی اور دکن شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی کے اہل علم و فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔


دبستان لکھنؤ کا پس منظر

سال ۱۷۰۷ء اورنگزیب عالم گیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازه بکھر گیا۔ اُن کے جانشین تخت کے لیے خود لڑنے لگے۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں، جاٹوں اور نادرشاه افشار اور احمد شاه ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔ سال ۱۷۲۲ء میں بادشاه دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ه اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لیے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی۔ صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کیں۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباء و شعراء نے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنؤ میں جا کرآبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔ دولت کی فروانی، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلداده ہوگئے۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بناء پر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امراء نے بھی کی اور وه بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر نے آباءو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاه نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔ سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لیے بھیجا جانےلگا۔


دبستان لکھنؤ کا شعرو ادب پر اثرات

عیش و نشاط، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوه شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بدامنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنؤ میں اکٹھا ہونا شروع ہوگئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کی بجائے لکھنؤ میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے۔ امرا ء، رؤساء اور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ ابتداء میں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی۔ مصحفی اور انشاءکے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنؤ کی خارجیت اور رعایت لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنؤ کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔


دبستان لکھنؤ کے فرق اور امتیازات 

دبستان لکھنؤ کے فرق اور امتیازات کو سب سے پہلے ناسخ نے متعین کیا اور ان خصوصیات کو اپنی شاعری میں ملحوظ خاطر رکھا شاید یہی وجہ ہے کہ ناسخ کو دبستان لکھنؤکا بانی کہا جاتا ہے ۔ سید وقار عظیم نے لکھنوی دبستان شعر کی مندرجہ ذیل خصوصیات قرار دی ہیں تکلف اور تصنع، محسوسات کی سادگی اور واردات کی سچائی کی بجائے رنگینی اور فکر کی باریک بینی۔لفظی صنعت گری، دوراز کار استعارے اور تشبیہیں، سخت اور سنگلاخ زمینیں، پر شکوه الفاظ اور تراکیب، دل کی بجائے دماغ سے تخاطب، لب و لہجہ میں ہلکا پن جو بار بار بدمستی ہوسنا کی عریانی پر منتج ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی نے باعتبار زبان لکھنوی شاعری کی حسب ذیل امتیازی خصوصیات گنوائی ہیں:


عربی وفارسی الفاظ کاکثرت استعمال قافیہ پیمائی کا رواج : دبستانِ لکھنؤ

طویل غزل سے غزل کو فائدے کے بجائے یہ نقصان ہوا کہ بھرتی کے اشعار غزل میں کثرت سے شامل ہونے لگے۔ شعرانے زور کلام دکھانے کے لیے لمبی ردیفیں اختیار کرنی شروع کر دیں جس سے اردو غزل میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج شروع ہوا۔ معمولی قافیوں اور ردیفوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا نے لگا۔ اس سے قافیہ پیمائی کا رواج شروع ہوا۔ ذیل میں بے میل ردیفوں سے قافیوں کی چند مثالیں درج ہیں۔

انتہائی لاغری سے جب نظرآیا نہ میں
ہنس کر کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے

فوج لڑکوں کی جڑے کےوں نہ تڑا تڑ پتھر
ایسے خبطی کو جو کھائے ہے کڑا کڑ پتھر

لگی غلیل سے ابرو کی، دل کے داغ کو چوٹ
پر ایسے ہی کہ لگے تڑ سے جیسے زا غ کو چوٹ


سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی

بات طویل غزلوں اور، بے میل ردیفوں اور قافیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شعرا لکھنو نے اپنی قادر الکلامی اور استادی کا ثبوت دینے کے لیے سنگلاخ زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی۔

طویل غزلیں : لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں خصویات

لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں خصویات طویل غزلیں ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتدا جرات مصحفی نے کی جو دلی دبستا ن سے تعلق رکھتے تھے۔ جو دلی کی تباہی کے بعد لکھنؤ جا بسے تھے۔ لیکن لکھنوی شعرا نے اس کو زیاده پھیلایا اور بڑھایا اور اکثر لکھنوی شعرا کے ہاں طویل غزلیں بلکہ دو غزلہ، اور سہ غزلہ کے نمونے ملتے ہیں۔اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے۔ کہ لکھنؤ کے اس دور میں پرگوئی اور بدیہہ گوئی کو فن قرار دے دیا گیا تھا۔ نیز لوگ قافیہ پیمائی کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لیے طویل غزلیں بھی لکھی جانے لگیں چنانچہ ٥٢۔٠٣١ اشعار پر مشتمل غزلیں تو اکثر ملتی ہیں۔ بلکہ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا بعض اوقات اس سے بھی زیاده طویل غزلیں بھی لکھی جاتی تھیں۔


دبستانِ لکھنؤ کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت 

ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھنوی دبستان کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہر زمانے، ہر قصہ اور ہر زبان میں عورت شاعری کا بڑا اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن لکھنؤ کی سوسائٹی میں عورت کو اہم مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اس نے ادب پر بھی گہرا اثرا ڈالا۔ اگر یہ عورتیں پاک دامن اور عفت ماب ہوتیں تو سوسائٹی اور ادب دونوں پر ان کا صحت مند اثر پڑتا لیکن یہ عورتیں بازاری تھیں۔ جو صرف نفس حیوانی کو انگیخت کرتی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف عیش و عشرت اور فراغت نے مردوں کو مردانہ خصائل سے محروم کرکے ان کے مردانہ جذبات و خیالات کو کمزور کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے جذبات خیالات اور زبان پر نسائیت غالب آگئی۔ چنانچہ ریختہ کے جواب میں ریختی تصنیف ہوئی۔ اس کا سہرا عام طور پر سعادت یا ر خان رنگینؔ کے سر باندھا جاتا ہے۔ رنگینؔ کے بعد انشا اور دوسرے شعرا نے بھی اسے پروان چڑھایا۔ ان شعرا کے ہاں ریختی کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کے خاص محاوروں میں جس طرح ان لوگوں نے نظم کیا ہے وه لکھنؤ کی شاعری اور سوسائٹی کے دامن پر نہ مٹنے والا بدنما داغ بن کر ره گیا ہے۔

دبستان لکھنؤ کی خصوصیت رعایت لفظی 

دبستان لکھنؤ کی ایک اور اہم خصوصیت رعایت لفظی بتائی جاتی ہے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں:

لکھنؤ کا معاشره خوش مزاج، مجلس آرا اور فارغ البال لوگوں کا معاشره تھا۔ مجلس زندگی کی جان لفظی رعایتیں ہوتی ہیں۔ مجلوں میں مقبول وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان پر پوری قدرت ہو اور لفظ کا لفظ سے تعلق، اور لفظ کا معنی سے رشتہ پوری طرح سمجھتے ہوں۔ لفظی رعایتیں محفل میں تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں اور طنز کو گوارا بناتی ہیں۔

لکھنؤ میں لفظی رعایتوں کا از حد شوق تھا

 خواص و عوام دونوں اس کے بہت شائق تھے۔ رؤسا اور امرا تک بندیاں کرنے والوں کو باقاعده ملازم رکھا کرتے تھے۔ ان ہی اسباب کی بنا پر لکھنوی شاعری میں رعایت لفظی کی بہتات ہے اور لفظی رعایتیں اکثر مفہو م پر غالب آجاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات محض لفظی رعایت کو منظوم کرنے کے لیے شعر کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر

ہندو پسر کے عشق کا کشتہ ہوں باغباں
لالہ کا پھول رکھنا امانت کی گور پر

غسل کرلے یہیں دریا میں نہانے کو نہ جا
مچھلیاں لپٹیں گی اے یار تیر ے بازوسے

وصل کی شب پلنگ کے اوپر
مثل چیتے کے وه مچلتے ہیں

قبر کے اوپر لگایا نیم کا اس نے درخت
بعد مرنے کے میری توقیر آدھی ره گئی


تشبیہ واستعارات میں پیچ دارباریکی

گرچہ تشبیہ اور استعارے کا استعمال ہر شاعر کرتا ہے لیکن یہ چیز اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب حد اعتدال کے اندر ہو۔ شعرا دلی کے ہاں بھی اس کا استعمال ہوا لیکن لکھنؤ والوں نے اپنی رنگین مزاجی کی بدولت تشبیہوں کا خوب استعمال کیا اور اور ان میں بہت اضافہ کیا۔ محسن کاکوروی، میرانیس، نسیم، دبیر، نے پرکیف، عالمانہ اور خوب صورت تشبیہیں برتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شعرا صرف تشبیہ برائے تشبیہ بھی لے آئے ہیں جس سے کلام بے لطف اور بے مزه ہو جاتا ہے۔

سبزه ہے کنارے آب جو پر
یاخضر ہے مستعد وضو پر

محو تکبر فاختہ ہے
قد و قامت سر و دلربا ہے

کیاری ہر ایک اعتکاف میں ہے
ساقی کی مست آنکھ پہ دل ٹوٹ جاتے ہیں اور آب رواں طواف میں ہے

شیشے جھکے ہوئے ہیں پیالوں کے سامنے
آگیا وه شجر حسن نظر جب ہم کو
بوسے لے کے لب شریں کے چھوراے توڑے

مستی میں زلف یارکی جب لہر اگی
بوتل کا منہ ہمیں دہن مار ہوگیا

محاورات والفاظ کااستعمال

دبستان دلی سے وابستہ شاعر اور ادیبوں کی تحریروں میں روز مره بکثرت ملتا ہے۔ کیونکہ دبستان دلی کی بنیاد ہی سادگی اور سلاست پر ہے۔ اس کے برعکس دبستان لکھنؤ والے تکلف، تصنع، تشبیہ، استعارات سے عبارت کو سجاتے ہیں۔ جس سے اصل مقصد و مطلب قاری کی نگاه سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر نثر میں اس فرق کا بہترین نمونہ میر امن کی شہره آفاق تصنیف باغ و بہار اور رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب ہے۔ شاعری میں میر تقی میر اور آتش لکھنوی اس کی بہترین مثال ہیں۔ محاورے دونوں استعمال کرتے ہیں، دبستان لکھنؤ والے بھی اور دبستان دلی والے بھی۔ لیکن یہاں بھی ایک فرق بہت واضح ہے۔ وه یہ کہ دبستان لکھنؤ میں محاوروں کا استعمال غیر ضروری طور پر محض شوقیہ کرتے ہیں۔ جب کہ دبستان دلی والے صرف وہیں محاوره استعمال کرتے ہیں جہاں ضروری ہو۔

ابتذال اور عریانی

محبوب کےبیان میں عریانی وہرزه گوئی کی جو حدیں جرات وانشاءکےکلام سےشروع ہو ئی ناسخ اوران کےشاگرد انہیں رکاکت وابتذال اورغلوکی حدتک لےگیے لکھنوی شاعروں نےنہ صرف محبوب کےجسم کاایک ایک عضوگنناشروع کیابلکہ اسےچوٹی سےایڑی تک بےنقاب کرڈالا اس ساری بحث سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ لکھنوی شعراءکے ہاں اعلی درجے کی ایسی شاعری موجود نہیں جو ان کے سوز و گداز جذبات اور احساسات اور واردات قلبیہ کی ترجمان ہو۔ تمام نقادوں نے اس بات کی تائید کی ہے بلکہ عذلیب شادنی جنہوں نے لکھنوی شاعری کے خراب پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ نمایاں کرکے پیش کیا ہے وه بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شعرائے لکھنؤکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو پڑھنے والے کے دل پر گہرااثر چھوڑتے ہیں۔ ایسے نمونے ناسخؔ اور آتشؔ کے علاوه امانتؔ اور رندؔ وغیره کے ہاں سب سے زیاده ملتے ہیں۔ یہاں اس بات کے ثبوت میں مختلف شعرا کے کلام سے کچھ مثالیں موجود ہیں:

رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں

تاب سننے کی نہیں بہر خدا خاموش ہو
ٹکڑے ہوتا ہے جگر ناسخ تیری فریاد سے

آئے بھی لو گ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑ ے ہوئے
میں جاہی ڈھونڈتا تیری محفل میں ره گیا

کسی نے مول نے پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا

بتوں کے عشق میں کیا جی کو اضطراب دیا
یہ دل دیا کہ خدا نے مجھے عذاب دیا

دل نے شب فرقت میں کیا ساتھ دیا میرا
مونس اسے کہتے ہیں غم خوار اسے کہتے

آعندلیب مل کے کریں آه و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

ہم اسیروں کو قفس میں بھی ذرا چین نہیں
روز دھڑکا ہے کہ اب کون رہا ہوتا ہے

حرم کو اس لیے اٹھ کر نہ بتکدے سے گئے
خدا کہے گا کہ جور بتاں اٹھا نہ سکا

مولاناعبدالسلام ندوی٫٫ شعرالہند،،میں لکھنؤکی شاعری کاجائزه لیتےہوئےرقم طرازہیں:


لکھنؤکےشعراکےدواوین سےعورتوں کےزیورات وپوشاک اورسامان آرائش کی مفصل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے، زنانہ الفاظ و محاورات کےغلبہ سےبھی اندازه ہوتاہےکہ معاشره کےاعصاب پرعورت کس طرح سوارتھی اوروه عورت کس مزاج وافتادطبع اوراخلاقی رتبہ کی حامل تھی۔ معاشره کےاسی ذوق اوراس شعری اورادبی رجحان کاسلسلہ وه ابتذال اورمعاملہ بندی سےملاتےہیں نسائیت وفحش گو ئی پرریختی کی بنیادپڑی، جس میں پیشہ ورعورتوں
کےمستبذل جذبات بازاری وعامیانہ زبان میں ا داہوتے ہیں۔بطورنمونہ چنداشعارملاحظہ ہوں:

دیکھناکیاحسن کی دولت کاکوٹھاتوڑکر
نکلی ہیں سرپرلیےدوبدرہ زرچھاتیاں

کس قدرصاف ہےتمہاراپیٹ
صاف آئینےکاہے سارا پیٹ

وه توآنچل سےدوپٹے کوچھپاتےہیں بہت
ہےیہ جوبن نکلی ہی پڑتی ہیں باہرچھاتیاں

سمجھوں نہ حباب آپ کےپستانوں کوکیوں کر
دریاشکم صاف ہے دریاکا بھنور ناف

کیاچکنےہیں,کیاصاف ہیں ,کیاگول سریں ہیں
بےجرم ہیں,نایاب ہیں,ان مول سریں ہیں

زانوں کی طرح صاف ہیں اوس حور کی ساقیں
آئینے کی رانیں ہیں تو بلور کی ساقیں


عربی و فارسی الفاظ کا کثرت سے استعمال

ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﻮﻡِ ﻋﺮﺑﯿﮧ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮔﺮﺍﮞ ﭘﺎﯾﮧ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮐﮧ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﻘﺘﺪﺍﯾﺎﻥِ ﺍﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺸﻮﺍﻥِ ﻣﻠﺖ ﺗﮏ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺬﺏ ﻭ ﻣﻌﺰﺯ ﺻﺤﺒﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮑﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺩﮪ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺑﯽ ﻭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺻﺮﻑ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻃﺒﻘﮯ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﮐﺎ ﻋﺎﻡ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﺩﺏ ﻭ ﺍﻧﺸﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﯽ ﺍﻧﺸﺎﺋﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺼﻨﻔﻮﮞ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻗﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﺮﺗﺐ ﻭ ﻣﺪﻭﻥ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﭨﯿﮏ ﭼﻨﺪ ﺑﮩﺎﺭ ﻧﮯ ٫٫ﺑﮩﺎﺭِ ﻋﺠﻢ،،ﮐﯽ ﺳﯽ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮐﺘﺎﺏ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﻮ ﻣﺼﻄﻠﺤﺎﺕِ ﺯﺑﺎﻥِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﻋﺪﯾﻞ ﻭ ﻧﻈﯿﺮ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻣﺤﺎﻭﺭﮮ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﻋﺮﻭﺝ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﻓﺎﺋﻖ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﺯﺍ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﻣﺴﻠﻢ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻥ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﻣﺬﺍﻗﺎً ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﺑﻮﺋﮯ ﮐﺒﺎﺏ ﻣﺮﺍ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺮﺩ ﻣﮕﺮ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ، ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﻕ، ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺎﻝِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﻧﮯ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺤﺾ ﺍﺳﯽ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺷﯿﺮﺍﺯ ﻭ ﺍﺻﻔﮩﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻃﮩﺮﺍﻥ ﻭ ﺁﺫﺭﺑﺎﺋﺠﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﭼﮭﺎﻧﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺏِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﻠﯽٰ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻮﻧﭻ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔

ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﻣﺮﺯﺍ ﻗﺘﯿﻞ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﯿﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺍﺻﻮﻝ ﭘﺮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﺍ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﺳﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻭﺩﮪ ﺳﮯ ﺑﻨﮕﺎﻟﮯ ﺗﮏ ﻟﻮﮒ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﻃﯿﺶ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭘﯿﺮﻭﺍﻥِ ﻗﺘﯿﻞ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :

ﻓﯿﻀﮯ ﺍﺯ ﺻﺤﺒﺖِ ﻗﺘﯿﻠﻢ ﻧﯿﺴﺖ
ﺭﺷﮏ ﺑﺮ ﺷﮩﺮﺕِ ﻗﺘﯿﻠﻢ ﻧﯿﺴﺖ
ﻣﮕﺮ ﺁﻧﺎﻧﮑﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﻨﺪ
ﮨﻢ ﺑﺮﯾﮟ ﺭﺍﺋﮯ ﻭ ﻋﮩﺪ ﻭ ﭘﯿﻤﺎﮞ ﺍﻧﺪ
ﮐﮧ ﺯ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺑﻮﺩ ﻗﺘﯿﻞ
ﮨﺮﮔﺰ ﺍﺯ ﺍﺻﻔﮩﺎﻥ ﻧﮧ ﺑﻮﺩ ﻗﺘﯿﻞ
ﻻﺟﺮﻡ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺭﺍ ﻧﮧ ﺳﺰﺩ
ﮔﻔﺘﮧ ﺍﺵ ﺍﺳﺘﻨﺎﺩ ﺭﺍ ﻧﮧ ﺳﺰﺩ
ﮐﮧ ﺍﯾﮟ ﺯﺑﺎﮞ ﺧﺎﺹِ ﺍﮨﻞِ ﺍﯾﺮﺍﮞ ﺍﺳﺖ
ﻣﺸﮑﻞ ﻣﺎ ﻭ ﺳﮩﻞِ ﺍﯾﺮﺍﮞ ﺍﺳﺖ
ﺳﺨﻦ ﺍﺳﺖ ﺁﺷﮑﺎﺭ ﻭ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﻧﯿﺴﺖ
ﺩﮨﻠﯽ ﻭ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﺯ ﺍﯾﺮﺍﮞ ﻧﯿﺴﺖ

ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﻗﺘﯿﻞ ﻧﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻔﯿﺖ ﻭ ﮐﻤﺎﻝ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺻﺮﻑ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻋﺬﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮐﮧ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﻧﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﻗﺎﺑﻞِ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺧﻮﺩ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﮔﺬﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻗﺘﯿﻞ ﮨﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺧﻮﺩ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﻮﺷﮧ ﻏﺎﻟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﮨﻞِ ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﺛﺒﻮﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺎﺭ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﮐﮧ ﮐﻼﻡِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻭﺳﯿﻊ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺤﻞِ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﺳﭻ ﭘﻮﭼﮭﯿﮯ ﺗﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﺎ ﭘﺎﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﮭﺎ۔ ﻏﺎﻟﺐ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﭼﮭﺎﻧﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻃﻠﺐِ ﻣﻌﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮔﺮﺩﺍﮞ ﺭﮨﮯ۔ ﻗﺘﯿﻞ ﮐﻮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻣﻼ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺗﻮﮞ ﺧﺎﮎِ ﭘﺎﮎِ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮐﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﭘﮭﺮﮮ ﺗﮭﮯ۔

ﺑﮩﺮ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﻗﺘﯿﻞ ﺳﮯ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﻼ ﻓﺎﺋﻖ ﻧﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺁﮔﺮﮮ ﺳﮯ ﺁ ﮐﮯ ﻣﻀﺎﻓﺎﺕِ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺩﺏ ﻭ ﺍﻧﺸﺎﺋﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻧﻈﻢ ﻭ ﻧﺜﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮐﯿﮟ۔ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮔﻮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻥ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺬﺭﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﺑﺎﻥِ ﻓﺮﺱ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻝ ﻭ ﺿﻮﺍﺑﻂ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺻﺮﻑ ﻭ ﻧﺤﻮ ﮐﮯ ﻣﺪﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﻗﻠﻢ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺍ۔ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺳﭻ ﭘﻮﭼﮭﯿﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﻭ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ۔

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﻡ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﺭﮨﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﺎﺏِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﻠﯿﻎ ﻭ ﺩﻗﯿﻖ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺼﺎﺏ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﺨﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮨﮯ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺳﺎﺩﯼ ﻓﺼﯿﺢ ﺯﺑﺎﻥ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﻓﺮﯾﻨﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﻧﺼﺎﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﻓﯽ ﻭ ﻓﯿﻀﯽ ﺍﻭﺭ ﻇﮩﻮﺭﯼ ﻭ ﻧﻌﻤﺖ ﺧﺎﻥ ﻋﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺎﺯﮎ ﺧﯿﺎﻝ ﺷﻌﺮﺍ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﺩﺍﺧﻞِ ﺩﺭﺱ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﻼ ﻃﻐﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﻨﻒِ ﭘﻨﺞ ﺭﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺩﻗﺖ ﭘﺴﻨﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻧﯽ ﺍﺱ ﺁﺧﺮ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺭﺳﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﯽ ﺷﺮﺣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺧﯿﺰ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﺍ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮨﯽ ﮐﮯ ﺣﻠﻘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺷﻌﺮﺍ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﯽ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺗﺮﻗﯽ ﻭ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﺎ ﮈﻧﮑﺎ ﺑﺞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﭽﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮔﻮ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺎﮨﻞ ﺭﻧﮉﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﯼ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﻏﺰﻟﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﻧﮉ ﺗﮏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﻧﻘﻠﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻗﺼﺒﺎﺕِ ﺍﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺮﻓﺎ ﮐﺎ ﻣﮩﺬﺏ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺫﺭﯾﻌۂ ﻣﻌﺎﺵ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﭘﮍﮬﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﺪﺭﺱ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﻣﺎﺭﮮ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﺍﮨﻞِ ﻋﺠﻢ ﺑﮭﯽ ﻋﺶ ﻋﺶ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﮯ۔ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﻟﺐ ﻭ ﻟﮩﺠﮧ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﻭﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﺷﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻭ ﺗﺪﻗﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺩﺭﺟﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺍﮨﻞِ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻻﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﯽ

ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﮩﻼ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﮐﯿﺒﯿﮟ، ﺑﻨﺪﺷﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺿﺎﻓﺘﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻣﻌﯿﺎﺭِ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺗﮭﯽ۔ ﺧﻮﺩ ﺩﮨﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺎﻥِ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﻠﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﺻﺮﻑ ﯾﮩﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ۔

ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻨﺪﻭ ﺑﮭﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﻮﺩ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﺮ ﺩﻭﻟﺖِ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﻋﮩﺪ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﻌﺾ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﻭ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮔﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻧﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻥ ﮨﻨﺪﻭ ﺳﻮﺍﺩِ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﺎﯾﺴﺘﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﭘﻨﮉﺗﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻣﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﭘﻨﮉﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﺎﺩﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﮨﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﻓﺮﻕ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺎﯾﺴﺘﮫ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﻣﺘﻮﻃﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﮭﺎﺷﺎ ﺭﮨﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﯾﺴﺘﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﮒ ﻭ ﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﺮﺍﯾﺖ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﺪﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺭﺑﻄﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍُﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻟﻮﮒ ﮐﺎﯾﺴﺘﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﺍﮌﺍﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﮐﻞ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎ ﻭ ﺑﮯ ﺟﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺩﺍﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺻﺪﮨﺎ ﻧﺜﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﺸﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ۔ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺷﺮﻓﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺷﻌﺎﺭ ﻭ ﻭﺛﺎﺭ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩﯾﮑﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﻣﺴﻨﺪ ﭘﺮ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﻗﺎﺑﺾ ﻭ ﻣﺘﺼﺮﻑ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﮩﺬﺏ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﺳﮑﮧ ﺟﻤﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ ﺧﯿﺎﻝ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﻭ ﻣﮑﺎﺗﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺼﯿﻞِ ﻣﻌﺎﺵ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﭘﮍﮬﮯ ﻣﮩﺬﺏ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﻌﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥِ ﮐﺎﻣﻞ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﻧﮕﻠﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﺪﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ، ﺍﭨﮭﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ، ﭘﮩﻨﻨﮯ ﺍﻭﮌﮬﻨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ، ﻏﺮﺽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺳﻠﻮﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺮﻧﭻ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮯ ﺷﺎﺋﺴﺘﮧ ﺑﯿﺒﯿﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯿﮟ۔ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺳﮯ ﮔﺌﯽ، ﺧﻂ ﻭ ﮐﺘﺎﺑﺖ ﺳﮯ ﮔﺌﯽ، ﻣﮕﺮ ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﭘﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺬﺍﻕ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺁ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﭩﯿﺎ ﺑﺮﺝ ‏( ﮐﻠﮑﺘﮧ ‏) ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺍﻟﻘﺴﻤﺖ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭِ ﺍﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮒ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮ۔ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﮨﺎ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮔﻮ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﮯ۔ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﮏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮧ ﺑﭽﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺎﯾﺴﺘﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮨﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻭ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﺍﮌﺍﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﻧﮉ ﺗﮏ ﺍُﺳﯽ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺁﻣﯿﺰ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻘﻠﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﺩﺍﻧﯽ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺤﻘﻖِ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﺑﺰﻡِ ﺳﺨﻦ ﮐﮯ ﯾﺎﺩ ﺩﻻﻧﮯ ﮐﻮ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯿﺎﺏ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺳﻦ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﺳﻨﺪﯾﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺍﺟﮧ ﺩﺭﮔﺎ ﭘﺮﺷﺎﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﺯﻣﯿﻦ ﻭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ۔ ﺁﺏ ﻭ ﮨﻮﺍ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻡ ﺧﻮﺭﺩﮦ ﻭﺭﻕ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻮﻣﻨﮯ ﭼﺎﭨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﯿﮟ

دبستان لکھنو کی نمائندگی


آتش و ناسخ کی غزلیں، پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم، امانت لکھنوی کا واسوخت اور رجب علی بیگ سرور کی داستان فسانہ عجائب لکھنوی دبستان شعر وادب کی نمائنده تخلیقات ہیں۔

ذیل میں مشکل ردیف و قافیہ کے نمونے


پرتو سے چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا
پھولوں کی سیج پر آ،کر دے چراغ ٹھنڈا
ہوا پیدا یہ دور دل سے کوه قاف کا جوڑا
کہ واں پریوں نے اک قصہ مرے اوصاف کا جوڑا
نہ لگی مجھ کو جب شوخ طرح دار کی گیند
اس نے محرم کو سنبھال اور ہی تیار کی گیند
کیوں شہر چھوڑ عابد غار جبل میں بیٹھا
تو ڈھونڈتا ہے جس کو ہے وه بغل میں بیٹھا
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب نبیڑے جا
یہی آہنگ اے مطرب پیا پے اور چھیڑے جا
جبل میں بیٹھا
محل میں بیٹھا
نبیڑے جا
چھیڑے جا
باغ ٹھنڈا
چراغ ٹھنڈا
کوه قاف کا جوڑا
اوصاف کا جوڑا
وغیره

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے