Ticker

6/recent/ticker-posts

ہم پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

ہم پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے


مجیب الرحمٰن

کیا ماضی کا رونا رویا جائے، یا پھر حال میں ہو رہے نادانی، نا عاقبت اندیشی، کا مژدہ سنایا جائے، یا پھر اچھے مستقبل کی امید پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گلے میں غلامی کا طوق ڈلنے کا انتظار کیا جائے، بے حسی صرف سنا تھا اب مجسم شکل میں دیکھ بھی لیا، بے غیرتی، و بے ضمیری کا جنازہ کیسے نکلتا ہے اب دیکھ لیا، مزید یہ کہ اللہ اور کچھ نہ دکھائے۔

اگر کھل کر کوئی بات کہ دی جائے تو پھر ادب کا سبق یاد کروایا جاتا ہے، اور حاشیہ بردار اپنے ساز و سامان کے ساتھ پل پڑیں گے، لیکن حقیقت سے منہ چراؤں تو فرشتے خیریت لے لیں گے۔ اب ایک ہی رستہ بچتا ہے کہ گونگا، بہرا بن کر بیٹھ رہوں اور عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کو کچھ نہ کہوں۔ لیکن پابندیوں کے تمام حدوں کو توڑ کر اس راستے پر آتا ہوں کہ۔۔۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں


بڑے لوگ یقیناً بڑے ہوتے ہیں ان کی بزرگی کو سلام، ان کی عظمت و تقدس پر نثار، لیکن زمینی سطح پر عوام نے جو امیدیں لگائی تھیں اس کو عملی طور پر کتنا برتا گیا، قیادت دنیا کو ہم نے سکھائی تھی ہمیں اس کے کار فرما تھے لیکن مصلحت کے نعروں نے غلامی کا جو طوق گلے میں ڈالا اسے چھڑانا یقیناً ممکن نہیں ہے۔ اور اگر چھوٹ بھی جائے تو مفلوج ہوکر رہ جائیں گے۔

شکوہ شکایت یقیناً گناہ ہے، لیکِن قومی و ملی کا رہبر جب مفاد پرست اور خود غرض ہو جائے تو آئنہ لیکر مصلحت کا معیار ضرور دکھانا چاہئے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہماری مفاد پرستی نے کس طرح قوموں کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ اور ذاتیات کے ساتھ اجتماعیات پر کسطرح ڈاکہ زنی ہو رہی ہے اس کی ذمہ داری قبول کون کرے گا۔

تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ قائدین لیٹر پیڈ کے ذریعہ قیادت کررہے ہوں اور اظہار افسوس کے جملوں سے رعا کو تسلی دیتے ہوں ہم نے جو بھی لیڈر دیکھا برسر پیکار دیکھا اور اس زمانے میں جان و مال اور ملی و دینی تشخص کے ساتھ خود کو زندہ پایا۔

تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ الگ الگ تنظمیں بنائیں گئیں ہوں منصب مقرر کئے گئے ہوں اور ہر تنظیم کا اپنا نعرہ اپنا جھنڈا اپنے افراد عوام سے مالیت حصول کرکے تزک و احتشام کے ساتھ ہر سہولت کی فراوانی کرنا اپنے اپنے آفسوں میں جلسوں کانفرنسوں سیمیناروں کی ترکیب کرنا عوام کا کروڑوں روپے صرف کرنا اور سب کچھ بے نتیجہ نکلنا، ہم نے وہ دور دیکھا پڑھا ہے جہاں ہر شخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتا اور اپنا کام سر انجام دیتا تھا۔

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے 


— مجیب الرحمٰن

وہ کفرستان کی گھاٹی تھی، چاروں طرف بتوں کے رکھ والے تھے، ظلم و استبداد کی چکی ہر سمت سے گھوم رہی تھی، انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا، قتل و غارتگری کا بازار گرم تھا، درندوں اور بھیڑوں کی جگہ جگہ آماجگاہیں تھیں اور ہر راہ چلتے آدام زاد شکار کرلیا جاتا۔

 جس کو صرف ایک در پر جھکنے کا حکم تھا وہ ہر ابھرتی چمکتی چیز کے آگے جھک رہا تھا، حد تو یہ تھی سفر میں کسی بھی پڑاؤ کی جگہ کسی پتھر کو معبود بنالیتا اور رخصت ہوتے وقت اسے وہیں چھوڑ جاتا۔ ایسے ماحول میں خیر کا جال پھیلانا خود کو ہلاک کرنے کے مترادف تھا۔ سنگ دلوں پر حکومت کرنا تو بعید بات تھی۔ لیکن دنیا کو اس تباہی پر کیسے چھوڑا جاتا، کیا یہ عقلمندی تھی کہ انسانوں کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیا جائے، قدرت کو کبھی یہ منظور نہیں تھا اسی لئے اس نے ایک قائد اعظم کو اپنا دستور و قانون دیکر بھیجا جس کا اس ظالمانہ ماحول میں نافذ کرنا خطرہ سے خالی نہیں تھا۔ لیکن دستور قدرت یہی ہے کہ انسانی ماحول انسان ہی بدل سکتا ہے، اور قدرت کی جانب سے قائد اعظم کو جو دستور دیکر بھیجا انہوں نے قیادت کا حق ادا کردیا، یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ تصور کریں کیسی قربانی دیکر اس ماحول میں انسانیت کے گل بوٹے کھلائے ہوں گے، چودہ سو سال پیچھے جائیں۔۔۔۔

دنیا نے دیکھا اپنوں اور غیروں نے بھی اس انقلاب کا اقرار کیا جہاں خاردار وادی میں گلاب کھلا، ہر طرف بیل بوٹے شفافیت کے ساتھ نظر آئے۔ اور انسانوں کو انسانیت کا درس ملا۔ ۔ ۔ اور اللہ نے یہ کہ کر بات ختم کردی۔ ۔ کہ رسول تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔

ایک وہ ماحول تھا اور آج جو حالات ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ کیا دونوں زمانوں میں کوئی جوڑ ہے ؟ وہاں پودا لگانا تھا اور یہاں صرف پھل توڑنا ہے۔ وہاں زمین کھود کے پانی نکالنا تھا یہاں برتن میں پانی بھرنا ہے۔ وہاں کھیت جوت کر زمین ہموار کرنی تھی یہاں صرف بیج بونا ہے۔ وہاں سمندروں کیلئے کشتیاں اور راستے پیدا کرنے تھے یہاں صرف پار لگانا ہے۔۔۔۔

لیکن کیا یہی زمینی حقائق ہے ؟ ناخدا جب سست اور ناکارہ ہو تو کشتی منجدھار میں پھنس جایا کرتی ہے۔ ڈرائیو اگر سو جائے تو گاڑی یا تو ٹھوکر کھاکر چور ہو جاتی ہے یا کسی کھائی میں سما جاتی ہے۔ ۔ 

مزید کچھ کہوں تو دل آزاری ہوگی۔۔۔ سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہے۔۔۔

جاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے