Ticker

6/recent/ticker-posts

خاتون مصنفہ کے جواب میں | Khatun Musannifa Ke Jawab Mein

خاتون مصنفہ کے جواب میں

محترمہ کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ راقم الحروف کے مضمون میں ایک کرپٹ مسلمان شاعر اور ایک کرپٹ مسلمان نیتا کے کرپشن کا تذکرہ کرتے ہوئے حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی تیکنک نہیں بتائی ۔ مثال کے طور پر مجھ جیسے صاف گو اور نڈر انسان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دلالی کو اگر دلالی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے اور بھیا گیری کو اگر بھیا گیری نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے !


خط میں مذکور شاعر موصوف (جو مسلم قوم کی بدقسمتی سے پروفیسر بھی رہ چکے ہیں) پچھلے تین سالوں سے جو "کارہائے نمایاں" انجام دے رہے ہیں انہیں میں نے کرپشن کے زمرے میں رکھ کر دکھایا ہے اور اس کی پشت پر دو بڑی شخصیتوں ابرار احمد فاروقی (لکھنؤ) اور محبوب الرحمان فاروقی کیرانوی (شاملی/ مظفر نگر) کی ٹھوس شہادتیں ہیں ۔ اسی طرح خط میں مذکور مسلم نیتا کے عمل اور طرز عمل کو میں نے اگر "بھیاگیری" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تو اس کے حق میں بھی وہی محکم شہادتیں ہیں :

نظر بچاکے گزرتے ہو تو گزر جاؤ
میں آئنہ ہوں مری اپنی ذمے داری ہے

رہا سوال یہ کہ میں نے اپنی خدمات کو نظر انداز کرنے اور خود کو ایک بار بھی مشاعرے میں شامل نہ کئے جانے پر جو اعتراض درج کرایا ہے وہ کیا ہے ؟ دراصل وہ ایک علامت کے طور پر ہے جو اردو خواں طبقہ کو یہ بتا رہا ہے کہ جب خون پسینہ بہانے والوں کے ساتھ یہ نا انصافی اور علانیہ دھاندلی ہو رہی ہے تو دیگر صلاحیتوں کے ساتھ یہ لوگ کیسا ناروا سلوک کرتے ہوں گے ۔


یہ تشویش اس وقت اور بھی گہری ہو جاتی ہے جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مہاراشٹرا اردو اکیڈمی نے اپنے مشاعروں کے مدعو شعراء کے لئے اب تک کوئی معیار ہی طے نہیں کیا ہے ۔ برسر اقتدار سیاسی جماعت کی طرف سے مسلط مسلم وزیر جس شاعر کو شعراء کے انتخاب کی ذمے داری سونپتا ہے وہ اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل میں لگ جاتا ہے ۔ اور اس کا عمل اور طرز عمل ہر بار اس کہاوت کو مجسم کرتا ہے کہ " اندھے کے ہاتھ میں ریوڑی چینھ چینھ کر دے" ۔ اور یہ تماشہ ہر کوئی دیکھ رہا ہے ۔

رہا موصوفہ کا یہ کہنا کہ اس طرح کے اعتراضات و اشکالات کے نتیجے میں مسلم قوم میں لیڈر پیدا ہونا بند ہو جائیں گے ، تو اس سلسلے میں میرا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں میں لیڈر ہیں کدھر ؟ سوائے کیرل (جنوبی ھند) کے ؟ یہ سارے مسلم دلال ہیں جنہیں آپ غلطی سے مسلم لیڈر سمجھ بیٹھی ہیں۔


آپ اگر صحافی ہیں اور آپ کو مسلم قوم کا درد بھی ستا رہا ہے تو کم از کم ایک بار مسلم اوقاف کا مرثیہ ہی پڑھ لیتیں ۔ آپ کا پسندیدہ مسلم لیڈر خیر سے اس کا (مسلم اوقاف کا) منسٹر بھی ہے ۔ اس طرح شاید اس کے (اوقاف کو لوٹنے یا لٹوانے کے) جرائم کا تھوڑا بہت کفارہ بھی ہو جاتا ۔

یہاں بھی وہی حسب مراتب والا اعتراض کھڑا ہوگا مگر میں کیا کروں ۔ میں تو بس گزارش کرسکتا ہوں کہ اردو والے دلالی اور کرپشن کے لئے کوئی دوسرا مہذب اور خوب صورت لفظ تراش لیں ۔ تاکہ دلالی کا پیشہ اختیار کرنے والے مسلم لیڈروں اور ان کے حاشیہ بردار مسلم شاعروں کی کم از کم میرے قلم سے دل آزاری نہ ہو ۔ نیز ان کا کوئی مسلم قوم کو فیض پہونچانے والا لیڈرانہ کام بھی (فلم اسٹاروں کی خدمات کے علاوہ) اگر ان کی جھولی میں ہو تو اسے بھی دکھادیں ۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ عمل کی دنیا ہے ، یہاں محض دعووں سے کچھ نہیں ہوتا ۔ اور اوپر والا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ ٹھیک ہے وزیر موصوف نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک خوشامدی مسلم شاعر کے ذریعہ میرا دس بیس ہزار روپیہ ہڑپ کرلیا ، ای ڈی (E. D) والوں نے اس کی جگہ پر ان سے دس بیس کروڑ اینٹھے ہوں گے ۔ نقصان میں کون ہے ؟ میں یا دلالوں کی ٹولی ؟ آپ خود اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے ، ضمیر سے بڑی اور مستند کوئی عدالت نہیں ہوتی ۔

مہاراشٹرا اردو اکیڈمی کے مشاعروں میں میری شمولیت یا عدم شمولیت سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ جیسا کہ بلال احمد ملک نے اب سے پہلے اپنے وضاحتی مکتوب میں تفصیل سے درج کیا ہے ۔ میں الحمد للہ ایک زمین دار کا بیٹا ہوں ۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج بھی میری زمینوں سے کافی لوگ کھا جی رہے ہیں اور مجھے اور میرے آباء و اجداد کو ان کی دعائیں مل رہی ہیں ۔ اور سچ پوچھئے تو یہی "اردوتوا" یعنی اردو کی اصل تہذیب اور اردو کی روح و اسپرٹ (Spirit) ہے ۔
مسند انہی کو دیجئے جو کوزہ پشت ہیں
میں تو کھڑا ہوں آج بھی چٹان کی طرح
(ماخوذ از ہندو فرشتہ)
شفیق الایمان ہاشمی ، ممبئی (انڈیا)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے