Ticker

6/recent/ticker-posts

میَں نے ستاروں کو چھو لیا : اردو افسانہ | Maine Sitaron Ko Chhu Liya : Story in Urdu

میَں نے ستاروں کو چھو لیا : اردو افسانہ - مسرور تمنّا


’’ارے ہم تو بالکل بھی نہیں لے جاتے۔ لا بھئی لا میرا پوتا مجھے دے میں لے کر جاؤں گی، ورنہ۔۔۔‘‘

’’ور نہ کیا کرلیں گی آپ؟‘‘ جوہی کے دل میں بھی جوالامکھی دہک اٹھا۔

’’یہ بچہ آپ کے گھر پیدا ہوتا تو آپ کا حق تھا، مگر اب یہ آپ کا نہیں میرے والدین کا سہارا بنے گا۔ آپ لوگ جایئے، دوبارہ یہاں آنے کی کوشش مت کیجئے گا۔‘‘

’’ اچھا۔‘‘ ساس نے تڑپ کر کہا: ’’ہم پولیس لے کر آئیں گے۔‘‘

’’آپ جائیے، پولیس لے کر آئیے۔ میرے منہ میں بھی زبان ہے، گونگی نہیں ہوں میں اور ہاں آپ کی بیٹی بھی ماں بن رہی ہے نا، اگر لڑ کی ہوئی اور سسرال والے چھوڑ گئے تو؟ اس خیال سے ڈریئے، ظلم کی انتہا نہ کیجئے۔ زیادہ ظلم اچھا نہیں۔ غریب، کمزور لاچار سمجھ کر آپ نے مجھے، میرے ماں باپ کو تڑپایا۔ اب میں مضبوط عورت ہوں ۔ ایک بیٹے کی ماں ۔ میں اس سماج کی ریت کو بدلوں گی، جو کمزور عورت کو گھٹ گھٹ کر مرتے دیکھنا پسند کرتے ہیں مگر اس کے صحیح قدم کوبھی غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ایک عورت جب اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے یا اپنے حق کے لئے لڑتی ہے تب دوسری عورت ہی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ جائیے اماں جی! اب یہاں آپ کی بہو نہیں، ایک مضبوط عورت رہتی ہے۔‘‘


’’ابھی تو ہم جاتے ہیں، پھر آئیں گے اپناپوتا لینے۔‘‘ امّاں جی جلتی بھُنتی چلی گئیں۔

’’ اب کیا ہوگا جوہی ؟‘‘ اُس کی ماں نے ڈر کر کہا۔

’’امّاں ڈرو مت۔ ہم آج ہی یہ شہر چھوڑ دیں گے۔ یہاں سے دور بہت دور چلے جائیں گے۔ آخر کو آپ اور بابا مزدوری ہی تو کرتے ہیں نا۔ دوسرے شہر میں بھی کر لیں گے اور سکینہ کو بھی ساتھ لے جاؤں گی جو اکیلی اپنی بیٹی کو لے کر جی رہی ہے۔ ہم اپنا ایک الگ جہاں بنائیں گے امّاں۔ ایک نیا قدم، ایک نیا شہر اور ایک نئی زندگی۔‘‘


’’ہم سماج کو نہیں بدل سکتےبیٹی، اور ہم دنیا کے طعنے سے بھی نہیں بچ سکتے ۔ ایک لڑکی کی جب شادی ہو جاتی ہے تو اس کا گھر پریوار اس کا سرال ہوتا ہے۔ مگر بیٹی میں تجھے اچھی سسرال نہیں دے سکا۔ ایک اچھا پریوار نہیں دے سکا۔ دیا بھی تو ایسا سسرال جو صرف بہو کو ستاتے ہیں، اسے زندہ جلا دیتے ہیں۔ یہ دنیا یہ نہیں دیکھتی کہ ایک لڑکی چپ چاپ سسرال والوں کے ظلم سہتے ہوئے زندہ جلا دی جاتی ہے مگر دنیا یہ ضرور دیکھتی ہے کہ کس غریب کی لڑکی میکہ کی دہلیز پر آ بیٹھی ہے۔ مگر جوہی! تیرا بابا ابھی زندہ ہے۔ اسے دنیا کی پرواہ نہیں۔ بس تیری اور اس ننھی سی جان کی پرواہ ہے۔ جی لے اپنی زندگی بیٹا! ہم نے تو تجھے کچھ نہ دیا مگر آج تیرا جو دل چاہے کر بیٹا۔‘‘

بابا کی باتوں نے اسے ہمت دی تھی۔
جوہی غریب تھی مگر ان پڑھ، گنوار نہ تھی۔ بابا نے اسے پیٹ کاٹ کر پڑھایا تھا۔ اچھے گھر میں جو بیاہ کرنا تھا۔ آج اس کی جاب لگ چکی اور بس وہ اپنے ماں بابا اور اس ننھے وجود کے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔ کیا ہوا جو اس کی مانگ افشاں سے نہیں جگمگا رہی مگر اب وہ نئے عزم کے ساتھ آسمان کی بلندیوں کو چھو لینا چاہتی تھی۔ اس کے لب مسکرارہے تھے۔ ہاں اب میں نے آسمان کی بلندیوں کی چاہ میں ستاروں کو چھولیا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ تارے اس کے آنچل میں آ گرے ہیں۔
افسانہ نگار : مسرور تمنّا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے